اکمل خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈونچار چراہ گاہ کہاں ہے؟ ڈونچار چراہ گاہ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ ڈونچار چراہ گاہ تک کا راستہ کیسا ہے؟ وہاں کیا سہولتیں میسر ہیں؟ کیا وہاں کیمپنگ کی جا سکتی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو پچھلے کئے دنوں سے دوست مجھ سے کر رہے تھے۔ اس تحریر اور وڈیو میں میری کوشش ہو گی کہہ میں ان سوالات کے جواب دے سکوں۔
ڈونچار آبشار اور چراہ گاہ جانے والے راستے کا آغاز مہوڈنڈ جھیل سے ہوتا ہے۔ کالام سے سفر کر کے آنے والے احباب کو چاہئے کہ وہ اپنا بیس کیمپ مہوڈنڈ جھیل کو بنائیں۔ ڈونچار آبشارچراہ گاہ کا مہوڈنڈ سے فاصلہ 7 سے 8 کلو میٹر ہے اور یہ ایک آسان ٹریک ہے جسے ہر عمر کے افراد باآسانی طے کر سکتے ہیں۔ مہوڈنڈ سے شروع ہونے والا یہ راستہ 60 کلومیٹر کا ایک ایسا ٹریک ہے جو سوات اور چترال کو آپس میں ملا دیتا ہے۔ یہ راستہ درہ کوکوش کے راستے شندور نیشنل پارک جا نکلتا ہے۔ مقامی افراد یہ راستہ 3 دن میں طے کرتے ہیں۔
ڈونچار چراہ گاہ بنیادی طور پر موسم گرما میں چروایوں کا پہلا مرکزی پڑاو ہوتا ہے اور آبشار کے بالکل سامنے ان کے پتھر سے بنی روائیتی پناہ گاہیں بھی ہیں۔ ڈونچار آبشار اور چراہ گاہ میں اگر کوئی چیز وافر ہے تو وہ ہے پانی اور سبزہ اور رنگا رنگ پھول اس کے علاوہ کھانے پینے کی ہر شے آپ کو کالام یا مہوڈنڈ سے لے کر آنا پڑے گی۔ اس چراہ گاہ میں کوئی ہوٹل یا ڈھابا موجود نہیں سو آپ کو اپنے کھانے پینے کا اہتمام خود کرنا پڑے گا۔
مہوڈنڈ سے ڈٔونچار کی طرف سفر شروع کریں تو کچھ فاصلے پر واقع جھیل سیف اللہ ہےجس کا مقامی نام کنڈیل شئی ”یعنی کانٹوں کا چمن‘‘ ہے۔بلاشبہ مہوڈنڈ قدرت کا انمول تحفہ ہے، جسے دیکھنے لوگ سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے آتے ہیں۔ اس جھیل سے پانچ منٹ کی مسافت پر نصراللہ جھیل ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے آگے جیپ پر سفر نہیں کیا جا سکتا اور آگے صرف پیدل راستہ ہے۔
ڈھونچار آبشار کے سامنے چراگاہ بالکل ایسے ہی دکھائی دیتی ہے جیسے کہ وادی سبز مخملی قالین بچھا ہو۔ مہو ڈنڈ جھیل سے نوے منٹ کی پیدل مسافت پر واقع اس چراگاہ کا رستہ خوبصورت آبشاروں اور دریا کے درمیان آگے درختوں سے مزین ہے۔ مہو ڈنڈ جھیل سے نصر اللہ جھیل تک کا راستہ گاڑی پر دس پندرہ منٹ میں طے کر لیا جائے تو نصر اللہ جھیل سے ڈھونچار کا راستہ صرف ایک گھنٹہ کا رہ جاتا ہے۔
نصراللہ جھیل کے دائیں کنارے سے پیدل سفر شروع کریں تو پہلے پندرہ منٹ کا راستہ پتھریلہ ہے اور معمولی چڑھائی ہے اس کے بعد پھر سکون سے پیدل سبزا زار رستوں پر چلتے ڈھونچار پہنچ جائیں گے۔ راستے میں شاہی باغ اتروڑ سے ملتا جلتا منظر بھی دیکھنے کو ملے گا جہاں بہت سے درختوں کی شاخیں چلتی ندی کے اوپر سایہ فگن ہیں۔
دس منٹ کی دوری پر لکڑ ی کا ایک۔پل آپ کودریا کی مشرقی سمت سے مغربی سمت لے جائے گا۔ تھوڑا آگے شفاف پانی کا چشمہ آپ کا استقبال کرے گا۔ یہ چشمہ وادی کے بالکل شروع میں ہےاور وہاں سے پانچ منٹ کی واک کے بعد آپ ڈھونچار آبشار کے سامنے پہنچ جائیں گی۔ اس چراہ گاہ کے چاروں اطراف ان گنت پانی کے ابلتے چشمے ہیں جن کا سرد پانی آپ کو برررررررررر کہنے پر مجبور کر دے گا۔
ڈھونچار گاوری زبان میں تیز چیختی آواز کو کہا جاتا ہے شادی شدہ افراد اس آواز کو غصے بھری زوجہ محترمہ کی آواز سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اس آبشار کے سامنے کھڑے ہوں تو تیز آواز کی گونج میں آپ کو اور کچھ سنائی نہیں دے گا سوائے پانی کے گرنے کے۔ اسی آبشار کے سامنے دریا بل کھاتے مخمور سانپ کی طرح چراگاہ میں چلتا نظر آئے گا۔
اس چراگاہ میں جون جولائی میں چرواہوں کا بسیرا ہوتا ہے ۔ اس چراگاہ سے 4 گھنٹے کی ہائیک پر ڈونچار جھیل ہے جس کا پانی چند قسمت والو ں نے ہی چکھا ہو گا۔ اس چراہ گاہ سے آگے دوانگر، پنغول جبہ، سیری کالام، نیل سر جھیل، شن ڈنڈ جھیل اور کوکوش پاس کے علاقے ہیں۔ دوانگر سے سیدھے ہاتھ مڑنے پر جبہ جھیل کا ٹریک ہے جو دو گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔
میرا 26 مئی سےپلان ہے کہ اس علاقے میں تین سے چار راتیں گزاریں جائیں اور اس علاقے کی خوبصورتی کو آپ دوستوں سے متعارف کروایا جائے۔ آپ میں سے کسی دوست کا دل ہو اس علاقے کی سیر کا تو وہ رابطہ کرسکتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر