دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گھمچال ہے جنجال نہیں||ڈاکٹر مجاہد مرزا

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے قلابے پہ قلابے ملائے۔ وزیراعظم نے کچن کیبنٹ کی میٹنگ بلائی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش کر دیا۔ کہہ دیا گیا کہ "ڈان لیکس" کا معاملہ باہمی رضامندی سے طے ہوگا۔ وہ باہمی رضامندی کیا ہوتی ہے؟ یہی ناں کہ " تساں بادشاہ ہو ، اساں ہوں فقیری

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک کے نوآموز ( ویسے آموختہ پڑھتے خاصا وقت نہیں بیت چکا کیا؟) الیکٹرونک میڈیا نے "بریکنگ نیوز” کی ایک بدعت عام کی۔ اس کے ساتھ تیز بھڑکیلے رنگ اور گھبرا دینے والی موسیقی نما دھرن دھرن کی آوازیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اس فیشن کا اتنا اثر ہوا کہ وزیراعظم آفس سے لے کر جی ایچ کیو کے آئی ایس پی آر کے سربراہ تک نے بریکنگ نیوز کا شیوہ اپنا لیا ہے۔ کہیں سے نوٹیفیکیشن منظر عام پر آتا ہے جہاں سے نہیں آنا چاہیے تھا تو کہیں کے سربراہ ایسا ٹوئیٹ کر دیتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔
وزیراعظم آفس کی بات چھوڑیں کیونکہ جب انتخابات ہونے ہوتے ہیں تو سیاست دان جیتنے کی خاطر لوگوں کی ہمدردیاں جیتنے کے لیے بہت کچھ ایسا کیا کرتے ہیں جس کا ان کی اصل سیاست سے یا تو بہت کم تعلق ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں مگر ہم چونکہ فوج میں رہ چکے ہیں، یہ اور بات کہ اس زمانے میں الیکٹرونک میڈیا کی "سب سے پہلے” کی ریت شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ مسابقت تھی ہی نہیں، اس لیے اتنا ضرور جانتے ہیں کہ فوج میں "تھرو پراپر چینل” یعنی مناسب ذرائع سے کا بہت ذکر ہوتا ہے۔ اس پر عمل کیے بغیر کسی کام کا نہ ہونا تو ایک جگہ افسران بالا کا ناراحت یا ناراض ہو جانا بھی ممکن ہوتا ہے۔ میجر جنرل صاحب کو اچھا سرکاری موبائل سیٹ حال ہی میں ملا ہوگا اس لیے اس کا استعمال تو آزمانا ہے چنانچہ انہوں نے آزما لیا مگر سب جانتے ہیں کہ یہ عمل بظاہر "تھرو پراپر چینل” نہیں لگتا تھا مگر ہوا ہوگا یہ پراپر چینل کی رضامندی سے ہی۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں نے قلابے پہ قلابے ملائے۔ وزیراعظم نے کچن کیبنٹ کی میٹنگ بلائی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش کر دیا۔ کہہ دیا گیا کہ "ڈان لیکس” کا معاملہ باہمی رضامندی سے طے ہوگا۔ وہ باہمی رضامندی کیا ہوتی ہے؟ یہی ناں کہ ” تساں بادشاہ ہو ، اساں ہوں فقیری
تیڈے در تے سجنا اساں من لئی اسیری”
ورنہ تو مصالحت درحقیقت مصلحت ہی ہوگی۔ جہاں مصلحت نہ ہو وہاں مصالحت بے معنی ہو جایا کرتی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال لیتے ہیں۔ روس میں بسنے والے پاکستانیوں کی برادری بندی کے عہدے داروں کے انتخابات تین بار ہوئے۔ دو سال پیشتر جب انتخابات کا اعلان ہوا تو نجانے کیوں ایک سرکاری افسر بیچ میں کود پڑا اور کچھ لوگوں کو مشورہ دیا کہ انتخابات کی بجائے نامزدگی سے عہدے دار بنا دیے جائیں، یوں دو فریق بن گئے ایک انتخابات کے حق میں اور ایک انتخابات سے گریزاں۔ دوسرے فریق نے اپنے عہدے دار چن لیے اور پہلے فریق نے انتخابات کا اعلان کیا۔ مدمقابل کے سامنے نہ آنے کے سبب جو سامنے آیا تھا وہ بلا مقابلہ منتخب قرار پایا۔ یوں دو صدور کے ساتھ دو برس بیت گئے۔
اس بار جب انتخابات کا اعلان کیا گیا تو تب انتخابات سے گریزاں ایک سینیر شخصیت نے کہا کہ میں اب انتخابات کے حق میں ہوں مگر تجویز کرتا ہوں کہ مصالحت کی روش اپنا لی جائے۔ انتخابات کے حق میں لوگوں نے ان کی یہ بات مان لی۔ ظاہر ہے اکراہ کے ساتھ میں بھی ان میں شامل تھا۔ میں نے دبی زبان میں پوچھا بھی کہ مصالحت کس ضمن میں۔ شہر میں موجود ڈیڑھ ایک سو پاکستان نژاد اور پاکستانیوں میں نزاع ہے ہی نہیں اگر ہے تو اختلاف نظر ہے۔ اگر اختلاف دور نہیں ہو سکا تو وہ برقرار ہے مگر باقیوں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے آخری سعی کر لینے کو ترجیح دی۔ اس ضمن میں جو اجلاس کیا گیا اس میں دوسرا فریق اس بات پر ڈٹا رہا کہ باہمی رضامندی سے عہدے دار مقرر کر دیتے ہیں مگر اکثریت چونکہ انتخابات کے حق میں تھی اس لیے مصلحت ناکام رہی اور مصالحت نہ ہو سکی۔ کچھ وقت ضائع ہو گیا انتخابات کی دوسری تاریخ مقرر کرنا پڑی۔
چھوٹے سے حلقے کی یہ مثال بڑے منظر نامے میں ملک پر بھی منطبق ہوتی ہے کہ سیاست دانوں کے مقابلے میں جن کی کہ جمہوری حکومت ہے ایک اور ادارہ ہے جو اپنی طرز کی سیاست کرتا ہے۔ کہنے کو وہ یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے حامی ہیں مگر ویسی جمہوریت جاری رکھنا چاہتے ہیں جیسی وہ چاہتے ہیں یعنی ان کی کہی سنی جائے اور ان سے سنی کہی جائے۔
فی الحال تو ایسا ہو رہا ہے کیونکہ سیاستدان اب تک طوعا” و کرہا” انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار کی روش اپنائے ہوئے ہیں مگر آگے جا کر سبھوں کو یا تو جمہوریت کو اپنانا ہوگا یا اسے یکسر بھول جانا ہوگا۔ جمہوریت میں اگر مگر لیکن اگرچہ نہیں ہوا کرتے۔ سیدھی سیدھی لوگوں کی اکثریت کی حکومت ہوا کرتی ہے۔ اگر کسی کو اپنی دوڈھائی لاکھ نفری کا چودھری بننا پسند ہوگا وہ بنا رہے لیکن سیاست دان اٹھارہ بیس کروڑ عوام سے بے بہرہ نہیں رہ سکتے۔
بددیانتی کا جو شور ہے وہ ماسوائے شور کے کچھ اور نہیں ہے۔ اگر بددیانتی کو روکنا ہے تو ابتدا وہاں سے کرنی ہوگی جہاں ہونے والی بددیانتی اور بدعنوانی کی کسی کو بھنک نہیں پڑنے دی جاتی۔ عائشہ صدیقہ نے نہ تو آصف زرداری کی بدعنوانی پر تحقیق کی اور نہ ہی نواز شریف کی بددیانتی پر۔ انہوں نے تحقیق کی تو پاک فوج کے بڑھتے ہوئے کاروباری رجحان پر کی پھر "ملٹری انک: انسائیڈ پاکستان ملٹری اکانومی” کے عنوان سے کتاب لکھی۔ دلیے اور کارن فلیکس سے لے کر اب بات حلال گوشت برآمد کرنے تک جا پہنچی ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ سکیمز سے لے کر فوجی فرٹیلائزر تک بہت سی دکانداریاں ناشتے اور رات کے کھانے کے درمیان تنی کھڑی ہیں۔
دھن کے یہ سارے سلسلے سپاہی سے کپتان تک کے لیے نہیں ہیں چنانچہ یہ کہنا کہ فوج سے متعلق کچھ بھی کہنا فوج کی مخالفت کرنے کے مترادف ہے دروغ گوئی اور نفرت انگیزی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ فوج کا ایک میجر جنرل سوشل میڈیا استعمال کرکے وزیر اعظم ہاؤس سے لکھ کے کہی ہوئی بات کو "یکسر مسترد” کر دیتا ہے اور وزیراعظم سرنیہوڑا کر مصلحت برتتے ہوئے مصالحت کا ورد کرنے لگ جاتا ہے ویسے ہی جیسے ماضی میں روس میں پاکستانی برادری کے صدر نے ایک افسر کی بات مان لی تھی جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ پاک فوج کا لیفٹیننٹ کرنل تھا۔ وہ ایک شخص تھا جب کہ صدر پورے پانچ سات سو پاکستانیوں کا تھا۔ کونسی مصلحت تھی کیسی مصالحت؟ بھگتا تو روس میں پاکستان کمیونٹی نے جو تقسیم ہوئی، اسی طرح وزیراعظم کی مصلحت اور مصالحت سے پوری نہ سہی پاکستانی قوم کی اکثریت کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن یہ سب بس گھمچال ہے جنجال نہیں۔ وقت بالآخر سب کی سلوٹیں سیدھی کر دے گا ۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author