شاہدرند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں سیاسی ہیجان کی کیفیت طاری ہے، جمہور اور جمہوریت کی علمبردار جماعتیں سلیکٹڈ اور امپورٹد حکومت نامنظور کے نعروں سے ملک گونج رہا ہے ،ن لیگ پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی ن لیگ کے نقش قدم پر چل رہی ہے جبکہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی دھڑے در دھڑے میں تقسیم ہورہی ہیں، جسکے نتیجے میں ممکن ہے مئی کے آخر میں بلدیاتی انتخابات میں یہ دونوں جماعتیں بلوچستان کی سیاست میں کہیں بہت پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ کہیں فارغ ہی نہ ہو جائیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان ملک کے تین صوبوں میں طوفانی دورے کررہے ہیں، جب وہ وزیر اعظم تھے تو انکے لئے خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات جتنے اہم تھے اتنے بلوچستان کے نہیں ہیں اور وہ خود کہتے ہیں، انکی تحریک کے ہیرو علی محمد خان اور قاسم خان سوری ہیں، پھر اپنی تحریک کے ہیرو قاسم خان سوری کو نہ کوئٹہ بھیج رہے ہیں نہ بلدیاتی انتخابات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ فی الحال دونوں اس چیلنج سے دور ہیں لیکن دونوں جماعتوں بی اے پی اور پی ٹی آئی کیلئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ جن نشستوں پر پارلیمان میں انکی جماعت کی نمائندگی ہے ان کے ضلعوں یا نشستوں میں اپنے بلدیاتی امیدواروں کو کامیاب بنائیں لیکن دونوں جماعتوں بی اے پی اور پی ٹی آئی کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں جماعتی حیثیت میں نمائندگی کی گہما گہمی نظر نہیں آرہی ہے۔ پی ٹی آئی کوئٹہ سے باہر وجود تقریباً ختم ہوچکا ہے، اسکی وجہ کیا ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جعفر آباد سے منتخب ایم این اے خان محمد جمالی نے عمران خان کے حکم پر استعفٰی تک نہیں دیا، تو بلدیاتی انتخابات میں اپنی جماعت کیلئے کیا کردار ادا کرینگے۔ دیگر رہ گئے صوبائی اسمبلی کے اراکین، اب تک تو دبے لفظوں میں کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی جانے قاسم سوری جانیں۔ یہاں تک کے پاکستان تحریک انصاف بلوچستان سابق صوبائی صدر اور صوبائی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے واضح لائن اختیار کرلی تھی جسکے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے ایک حیران کن نوٹی فکیشن جاری کیا، جہاں انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر تبدیل کردیا یا خان صاحب اتنے جذباتی ہیں یا انکی ٹیم اتنی غیر سیاسی ہے جو ان سے جگ ہنسائی کے اقدامات کرواتی ہے۔ اگر خان صاحب نے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ہی بدلنا تھا تو بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اپنی جماعت کے پارلیمانی جماعت کا اجلاس بلاتے اراکین کے دستخط سے ایک درخواست دیتے اور پارلیمانی لیڈر تبدیل ہوجاتا لیکن ہر کام کو کرنے کا طریقہ جب غلط ہوگا تو نتیجہ بھی غلط ہی نکلے گا۔ اب اس اقدام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی جماعت نے اگر مفروضے کی بنیاد پر بات کریں، عمران خان کے مقرر کردہ پارلیمانی لیڈر کو تسلیم نہ کیا اور پارلیمانی جماعت دو حصوں میں واضح تقسیم ہوگئی تو یہ یاد رکھیں پاکستان تحریک انصاف بلوچستان میں پھر وہی جماعت بن جائیگی جو وہ قاسم سوری کی صدارت میں آج سے تقریباً دس سال قبل تھی ۔بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات کسی ایک جماعت کو پسند نہیں لیکن اعلٰی عدلیہ کے احکامات پر سیاسی جماعتیں مجبور ہیں اور اس میں حصہ لے رہی ہیں،باوجود اسکے کہ ان انتخابات کو ملتوی کروانے کیلئے ہر کوشش اور اقدام اٹھا لیا جسکا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اب مجبوراً سیاسی جماعتیں اور قبائلی شخصیات پینل بنا کر میدان میں اترے ہیں، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی عدم دلچسپی کے ساتھ سیاسی میدان میں موجود جماعتیں اگر کامیاب ہوتیں ہیں تو وہ اس نظام کو کیسے چلائینگی، اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف نے جو بلدیاتی نظام دیا تھا اس میں ترقی کیلئے بنیادی پلیٹ فارم اس لوکل باڈیز سسٹم کو دیا گیا تھا ،جو سیاسی اور فیصلہ سازی کے اختیارات ایک سابق آمر نے اس مقامی حکومتوں کے نظام کو دیئے تھے، سیاسی جماعتیں انکے ماضی کے غلط اقدامات پر گرجتی برستی رہتی ہیں۔بلوچستان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات سے یہ امید لگانا کہ ترقی کا سفر گراس روٹ پر ایک بہتر سمت میں شروع ہوگا غلط فہمی میں رہنے کے مترادف ہے، بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں بیٹھی سیاسی جماعتیں اور انکے لیڈر اس بلدیاتی نظام میں کوئی ایسی ترمیم نہیں لائے جس سے اختیارات کی منتقلی اور گورننس کی بہتری ہوسکے لیکن اسکے باوجود ہمیشہ دھائی دیتے ضرور پائے جاتے ہیں کہ وفاق حق کھا گیا جب اراکین پارلیمنٹ اضلاع کو بااختیار نہیں بناناچاہتے تو صوبے کی اسمبلی میں بیٹھ کر وفاق سے شکوہ کرنا چھوڑ دیں کیونکہ دوغلے رویوں کے ساتھ آج کے دور میں چلنا ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کوئی جماعت جیتے یا ہارے اس سے نہ تو ترقی کا سفر شروع ہوگا نہ اس کی بہتر سمت متعین ہوگی۔ ہاں موروثی سیاست ضرور پروان چڑھے گی کہ کیونکہ کچھ جماعتوں کے سربراہ اور کچھ قبائلی شخصیات نے اپنے اولادوں کو میدان میں اتار دیا ہے، تو اس لئے حقیقی لیڈر شپ کے بجائے موروثی لیڈر شپ ہی بلوچستان کو میسر ہوگی تو موجود ہ بلدیاتی انتخابات صوبے کے حق میں ہو یا نہیں چند خاندانوں کیلئے سود مند ضرور ہوگا۔ جہاں انکی اولادیں تو مستفید ہونگی عام چرواہے کی اولاد نہیں ۔ بلوچستان میں ترقی کے پہیے کو چلانے کیلئے ایک مستحکم بااختیار مقامی نظام حکومت کو رائج کیا جائے جس کی مدد سے ترقی کے سفر کو شروع کیا جائے اور ایک نئی سیاسی سوچ کو جنم لینے کا موقع ملنا چاہئے۔ اس نظام میں مخصوص نشستوں پر پرفیشنلز کو بطور ٹیکنو کریٹ لاکر صحت تعلیم زراعت لائیو اسٹاک مائنز اینڈ منرلز فشریز جیسے محکموں کو بہتر بنائیں تو بلوچستان میں بہت کچھ سیاسی اونر شپ کیساتھ بدلا جاسکتا ہے۔ آج اگر ایک اچھا بلدیاتی نظام موجود ہوتا تو ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیر کوہ میں نہ پانی کی کمی ہوتی نہ صحت کے تباہ حال نظام کی وجہ سے لوگ ہیضے کا شکار ہوتے کیونکہ رکن اسمبلی علاقے میں موجود ہو یا نہ ہو بلدیاتی نمائندے اسہی عوام کے قریب ہوتا ہے۔ اگر ہم عام لوگوں کو اپنا بلدیاتی نمائندہ چنیں تو ہمارے مسائل ہم جیسے لوگ حل کرسکتے ہیں ایک مخصوص کلاس کے سردارزادے یا نواب زادے نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند
گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند
پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ 92 نیوز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر