وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سیاست پر لکھتے لکھتے تنگ آ چکا ہوں۔ چنانچہ اب میں کبھی کبھی کسی ایسے موضوع پر لکھنے کی کوشش کروں گا جس سے کچھ نہ کچھ آگہی بڑھے۔ میری بھی اور آپ کی بھی۔
چند دنوں سے میں پیرونایا پر طرح طرح کی تحقیق پڑھنے میں لگا ہوا تھا۔ اس کا کچا پکا ماحصل پیشِ خدمت ہے۔
پیرونایا کو آپ اردو میں ذہنی خلجان، خفقان، انتشارِ ذہنی، فتورِ ذہنی یا مالیخولیا کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ شدید ذہنی بے چینی جس کا ابتدا میں تدارک نہ ہو تو بڑھتے بڑھتے پیرونایا کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اس کیفیت میں مبتلا انسان کو اکثر محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اسے گھیرنے، مارنے یا کونے سے لگانے کی سازش، کوشش یا منصوبہ بنا رہا ہے۔
گنے چنے لوگ ہی اس کا اچھا سوچتے ہیں اور اکثریت اس کی دشمن ہے۔
اور جو کوئی بھی مریض کے خدشات کم کرنے کے لیے عقلی دلائل و منطق و سائنسی ثبوتوں کا سہارا لے، اسے بھی مالیخولیا کا شکار اپنے دشمنوں کی طویل فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔
اگر اس ذہنی کیفیت کا بروقت علاج نہ ہو تو یہ بڑھتے بڑھتے شیزوفزینیا اور پھر ایلزائمر میں بدل سکتی ہے۔
مالیخولیایوں کے نزدیک ان کا شک ہی سب سے بڑی دلیل اور سچائی ہے۔ ان کو راسخ یقین ہوتا ہے کہ جو سازش یا منصوبہ یا کوشش بظاہر دکھائی نہیں دے رہی وہ اس سازش سے زیادہ خطرناک ہے جو دکھائی دے رہی ہے۔
بے چینی ایک نارمل بات ہے۔ آپ کی ملازمت جانے کا خطرہ ہو یا آپ کے کسی فرد یا گروہ سے تعلقات خراب ہو جائیں یا آپ مالیاتی بے یقینی سے گزر رہے ہوں یا لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، تو آپ بے چینی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لیکن اس کیفیت سے نکلنے کی شعوری کوشش نہ کرنا اور متبادل حل یا راستے تلاش کرنے کے بجائے اسی بے چینی کی زنجیر میں خود کو جکڑ لینا پیرونایا کی شاہراہ پر پہلا بڑا قدم ہے۔
اگر آپ اچانک مسلسل دفاعی یا جارحانہ رویہ اختیار کرنے لگیں، بات بات پر مشتعل ہونے لگیں، آپ کو محسوس ہو کہ سوائے آپ کے سب غلط ہیں، آپ کسی بھی طرح کی نکتہ چینی سے پریشان ہونے لگیں، آپ میں معاف کرنے یا لچک دکھانے کی صلاحیت کم سے کم ہونے لگے، اردگرد کے خیرخواہوں پر بھی آپ کا اعتماد مسلسل گھٹتا چلا جائے، ہر سادہ بات کے بھی پوشیدہ معنی نکالنے لگیں تو پھر سمجھ لیجیِے کہ آپ سادہ کے بجائے کلینیکل پیرونایا میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بے چینی کی کیفیت کو مسلسل بے خوابی مالیخولیا میں تبدیل کرنے میں مددگار ہے۔ نیند میں مسلسل کمی سے ایک تو دماغ تھکنے لگتا ہے اور یادداشت گڑبڑانے لگتی ہے اور اس کیفیت کا بھی علاج نہ ہو تو پھر مریض اگلے مرحلے میں ہیلوسینیشن (فریبِ ذہنی) میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
یعنی اسے وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں اور وہ منظر دکھائی دینے لگتے ہیں جو کسی اور کو سنائی یا دکھائی نہیں دے رہے۔ اسی لیے ماہرین کسی بھی بالغ یا پختہ عمر کے شخص کے لیے سات سے نو گھنٹے کی اچھی نیند پر زور دیتے ہیں۔
ماہرین مسکن ادویات کے غیر ضروری استعمال اور منشیات و الکوحل وغیرہ کی لت کو بھی اس مرض کا ایک اہم سبب قرار دیتے ہیں۔ ان مادوں سے رفتہ رفتہ جان چھڑانے سے بہت سی ذہنی و جسمانی پیچیدگیوں کا مداوا ممکن ہے۔
ماہرین ہر ایک کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپ شدید بے چینی کی کیفیت سے نکلنے کے لیے باقاعدہ کثرت یا ہلکی پھلکی ورزش کے ساتھ ساتھ من پسند دوستوں کے ہمراہ پسندیدہ مقامات پر وقت گذارئیے، ایسے ماحول میں اکثر اٹھیے بیٹھیے جہاں آپ کو کھل کے ہنسنے ہنسانے کا موقع ملے، ہفتے میں ایک آدھ بار مراقبہ کرنا یا اپنے ساتھ تنہا وقت گذارتے ہوئے خود سے ملاقات کرنا بھی مفید ہے۔
مالیخولیا سے متاثرہ شخص کو اس بات پر قائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اسے کوئی ذہنی مسئلہ درپیش ہے۔ مگر گنے چنے انتہائی اعتماد کے لوگوں کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ مریض کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں کہ وہ اپنے اعتماد کے کسی ماہرِ نفسیات سے تنہائی میں مشورہ کرتا رہے اور اس پر حرف بحرف عمل بھی کرے۔ اور یہ سب کچھ صیغہِ راز میں بھی رہے گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر