ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجاہت مسعود کی ادارت اور عدنان خان کاکڑ کی معاونت میں جاری کیے گئے ای پیپر "ہم سب” میں، پاکستان کے لبرل و سیکیولر سوچ رکھنے والوں اور خود کو رائٹسٹ یا اسلامسٹ کہلوانے والے لوگوں کے درمیان، گذشتہ عرصے میں مکالمہ شروع کیے جانے کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ ایک جانب اس پورٹل کے منتظمین جن کا دعوٰی ہے کہ ان کی اپنی سوچ چاہے کچھ بھی ہو لیکن (اور درست کہتے ہیں) وہ مکالمے کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں، دوسری جانب سے باگ ڈور محترم عامر ہاشم خاکوانی نے سنبھالی ہوئی ہے لیکن مکالمے میں ان کی جانب سے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جن کا تمام معاملات میں خاکوانی صاحب سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بظاہر یہ پہل قدمی احسن لگتی ہے لیکن یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ مکالمہ کیوں کیا جاتا ہے، کن کے درمیان ہوتا ہے، اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں اور یہ بھی کہ اس خاص معاملے میں یعنی نقطہ نگاہ سے متعلق مکالمہ کیا بھی جانا چاہیے یا اس کی ضرورت نہیں؟
مکالمہ دو یا دو سے زیادہ فریقین میں ایک جانب کی شدید خواہش یا دونوں تینوں چاروں یا ان میں سے کچھ فریقین کی مکالمہ کرنے پر رضامندی کے تحت کیا جاتا ہے۔ مکالمہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچا جائے لیکن نقطہ نظر سے متعلق مکالمہ قائل کرنے یا قائل ہو جانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مکالمے کی ضرورت تب محسوس ہواتی ہے جب یا تو فریقین مخاصمت سے اکتا جائیں یا متحارب فریقین پر ان کے ہم خیال غیر متحارب وسیع تر دھڑے کا دباؤ بڑھ جائے تاکہ "سٹیٹس کو” کے حالات ختم کیے جائیں، مزید نقصان ہونے سے روکا جائے اور سہولتوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے۔ مکالمہ تب بھی کیا جاتا ہے جب یا تو اپنی چین بول جائے یا دوسرے فریق کو زیر کرنے کی خاطر زیادہ وسائل خرچ کیے جانے اور غیر ضروری نقصان سے بچا جانا مقصود ہو۔
مکالمے کی مثالوں میں شام کی حکومت اور متحارب و مخالف گروہوں پر مشتمل مسلح حزب مخالف کے ساتھ مکالمہ، روس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں اور عام حملہ آور ہتھیاروں میں کمی سے متعلق مکالمہ، روس اور نیٹو کے درمیان مکالمہ، چھوٹو گینگ اور پولیس کے درمیان مکالمہ اور چھوٹو گینگ اور فوج کے درمیان مکالمہ شامل ہیں۔
پہلی مثال میں جنگ بندی ہوئی، شام کی حکومت نے عام انتخابات کرائے، دوسری مثال میں دونوں بڑی ایٹمی طاقتیں ہتھیاروں میں خاطر خواہ کمی کرنے پر نہ صرف متفق ہوئیں بلکہ انہوں نے اس پر عمل بھی کیا۔ تیسری مثال میں روس اور نیٹو کے درمیان مخاصمت بھی چل رہی ہے اور موافقت کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، چوتھی مثال میں چھوٹو نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا جبکہ فوج کے سامنے اپنے بارہ ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے۔ فوج نے ڈاکووں کے بچوں میں جوس تقسیم کیا اور ڈاکووں کے کنبوں کی عورتوں، بچوں و چار معمر افراد کو کھانا بھی کھلایا پھر انہیں شاید کسی معزز ہستی کی ضمانت کے ساتھ پوچھ گچھ کے لیے پولیس کے سپرد کر دیا البتہ فوج نے ڈاکو چھوٹو اور اس کے ساتھیوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔
اب آتے ہیں دو مختلف نکتہ ہائے نگاہ یا اگر آپ نظریات کہنا چاہیں، کے حامل لوگوں یا دھڑوں کے درمیان مکالمے کی جانب۔ فرض کیجیے آپ لبرل و سیکیولر ہیں اور آپ قائل ہیں کہ فی زمانہ جمہوریت اور سیکیولر نظام حکومت و سیاست ہی بہتر ہیں اس کے برعکس دوسرا فریق جو خود کو آپ کے نقش قدم پر لیکن آپ سے مختلف رایٹسٹ اسلامست کہلانے پر متفاخر ہے۔ اس فریق کا ایمان ہے کہ خلافت اور اسلامی نظام حکومت و سیاست بہترین ہیں۔ تو مکالمے کے نتیجے میں کیا آپ قائل ہونگے کہ اسلامی جمہوریت اور اسلامی سیکیولر نظام حکومت و سیاست پر معاملہ طے کر لیا جائے یا دوسرا فریق دل کھول لے گا کہ کوئی بات نہیں لبرل خلافت اور سیکیولر اسلامی نظام حکومت و سیاست پر متفق ہو کر گلے مل لیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کی مضحکہ خیز اصطلاحات اول تو وضع نہیں کی جا سکتیں اگر بفرض محال وضع کر بھی لی جائیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے متفق بھی ہو جایا جائے تو اس عمل کا حشر "اسلامی سوشلزم” کے حشر سے کیا کچھ مختلف ہوگا؟
اگر فرض کر لیا جائے جو پاکستان جیسے ملک کی آبادی کے معیار علم و فہم کی رو سے فرض کرنا محال ہے کہ ملک میں لبرل لوگوں کی حکومت قائم ہو جاتی ہے اور سیکیولر نظام حکومت و سیاست مروج ہو جاتا ہے اور اپنے دعاوی ر روایات کے مطابق وہ رائٹسٹوں اور اسلامسٹوں کو قول و فعل کی مکمل آزادی دیتے ہیں تو کیا یہ ایسے لوگوں کی حکومت چلنے دیں گے؟ اگر ایسا ہوگا تو کیا لبرل حکومت کسی موقع پر ان کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرے گی اور اگر طاقت کا استعمال کرے گی تو کیا کبھی نہ کبھی شام اور لیبیا جیسا ردعمل نہیں ہوگا؟ دوسری جانب یہ خیال کر لیتے ہیں کہ رائٹسٹون اسلامسٹوں کی حکومت آ جاتی ہے، کیا وہ لبرل اور سیکیولر حلقوں کو اپنی مرضی کے مطابق کہنے اور کرنے کی آزادی دے گی؟ دونوں صورتیں شدید مشکوک ہیں۔
اب آ جاتے ہیں ذرا نچلی سطح پر کہ دونوں جانب کے دانشور اور سوچنے والے حلقے ( یہ سب پدیاں کیا اور ان کا مشترکہ شوربا کیا) مکالمے کے نتیجے میں کسی درمیانی راہ کو اختیار کرنے پر رضامند ہو جائیں تو وہ باقیوں کو بھی جو ایک جانب کروڑوں اور دوسری جانب ہزاروں یا چند لاکھ ہیں، کو بھی قائل کر لیں گے۔ اگر خاکوانی صاحب کے "رائٹ ونگ کے لکھاریوں کو گیارہ مشورے” اور جواب میں لکھے عدنان خان کاکڑ کے فکاہیہ کالم "لیفٹ ونگ کے جہاں دیدہ لکھاریوں کو پونے بارہ مشورے” پڑھ لیے جائیں تو واضح ہو جائے گا کہ قائل ہونے کا ارادہ نہ اس طرف ہے نہ اس طرف۔ ایک اپنی عددی طاقت کے زعم میں جنگ و جدل کا سا لہجہ اختیار کیے ہوئے ہے اور دوسرا پھبتی کستے ہوئے طنز کے تیروں سے خود کو ہی چھلنی کرنے کی جانب مائل لگتا ہے۔
مکالمہ کرنا ضروری نہیں کہ مہذب لوگوں کا ہی شعار ہوتا ہو ۔ مکالمہ مجبوری کے عالم میں بھی کیا جاتا ہے، مکالمہ اپنی یا اوروں کی خیر خواہی کی خاطر بھی کیا جاتا ہے اگر نہیں کیا جاتا تو تنگ آمد بجنگ آمد کی رو سے نہیں کیا جاتا جس طرح بالآخر سری لنکا میں تامل ایلام ٹائیگروں سے نہیں کیا گیا تھا یا جس طرح داعش کے ساتھ نہ کیے جانے کا عہد کیا گیا ہے یا پھر برتری کے زعم میں نہیں کیا جاتا جیسے ہٹلر مسولینی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے انجام تک نہیں کیا تھا۔
تو کیا ان دونوں یکسر مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے؟ اس کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہ میں بھی۔ ہاں میں اس لیے کہ اختلاف کی شدت کو کم کیے جانے میں مدد ملے۔ دہشت گردی اور اسلام کو باہم کیے جانے کی استدلالی نفی کیا جانا ممکن ہو، بھائی چارے کی فضا بنے اور نہ میں اس لیے کہ لبرل لاکھ خیر خواہی کے متمنی کیوں نہ ہوں رائٹسٹ ان کو زیر کرنے کی ہی بات کریں ے۔ امریکہ رائٹسٹ ہے اور سوویت یونین لیفٹسٹ (لبرل، سیکیولر) تھا۔ امریکہ رائٹسٹ ہے اور چین لبرل سیکیولر۔ زیر کرنا رائٹسٹوں کا شعار ہے اور دفاع کرنا لبرل اور سیکیولر حلقوں کی ضرورت۔ شعار اور ضرورت ایک سے نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ