دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کے گوٹھوں کا سیاسی شعور|| حسن مجتبیٰ

ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد ہو کہ ایم آرڈی تحریک، یہاں کے مرد، عورتیں، بچے آگے آگے رہے ہیں۔ اسی گائوں کی لڑکیاں سابقہ سوویت یونین کے دنوں میں ماسکو کی یونیورسٹیوں سے گریجویشن کر کے ڈاکٹر بن کر لوٹی تھیں۔

حسن مجتبیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مانیں نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ برصغیر میں تاریخی طور پر سندھ سیاسی تحاریک و شعور کا ایک بڑا مرکز رہا ہے جس میں اس کے دیہات نے اگلے مورچوں کا کردار ادا کیا ہے۔ خلافت تحریک تھی یا ریشمی رومال، انگریزوں کے خلاف پیر پگارو، اس کے حروں کی بغاوت کہ سندھ اسمبلی میں سب سے پہلے قرارداد پاکستان، سابقہ مشرقی پاکستان یا مشرقی بنگال کے بعد ون یونٹ کے خلاف تحریک یا پھر ضیاالحق کے خلاف ایم آر ڈی کے دو رائونڈز جو پاکستان میں بحالی جمہوریت کا موجب بنے ان میں سندھ اور خاص طور پر دیہی سندھ ہمیشہ اگلے مورچوں پر رہا۔

سندھ ہی تھا جہاں کہتے ہیں کہ سبھاش چندر بوس نے اپنی روپوشی کے کچھ دن گزارے تھے۔ نیز انڈین نیشنل کانگرس کی انگریزوں کے خلاف ‘ہندوستان چھوڑ دو’ تحریک کے دوران اس کی قائم مقام سربراہ (کیونکہ گاندھی، نہرو سمیت قیادت گرفتار ہو چکی تھی) ارونا آصف علی نے اپنی روپوشی سندھ کے کراچی میں عبداللہ ہارون کے گھر پر گزاری تھی اور یہیں سے تحریک کو جاری رکھا تھا۔ خیر یہ ایک اور کہانی ہے۔ سندھ کے ہی ایک گوٹھ ڈینگان بھرگڑی سے انڈین نیشنل کانگرس کے انڈیا لیول کے رہنما اور جنرل سیکرٹری بیرسٹر غلام محمد بھرگڑی تھے۔ اور لاڑکانہ کے دھامراہ گائوں سے رئیس جان محمد جونیجو جنہوں نے ریشمی رومال تحریک میں افغانستان ہجرت کرنے والوں کے لئے پوری پشاور میل اپنی جیب سے بک کروائی تھی۔ ہاریوں یا کسانوں کی تحاریک ہوں کہ خواتین کا ملک اور سندھ کی سیاست میں نکل آنا، ان تحاریک اور تاریخی سیاسی شعور میں سندھ کے کئی گوٹھ آگے آگے رہے۔ آئیے کہ ایسے کئی گوٹھوں میں سے کن گائوں یا گوٹھوں کا ذکر کریں۔

کراچی کے سمندری مضافات میں ایک بڑی بستی ابراہیم حیدری ہے جس کے 99 فی صد لوگوں کا گزر ماہی گیری پر ہے۔ باقی پاکستانی بشمول سندھی سماجیات کے برعکس، پدرشاہی کے بجائے یہاں عملی طور پر مادرانہ نظام ہے۔ یہاں بچوں کے خاص طور پر بیٹوں کے نام والد سے نہیں ان کی ماں کے نام سے جانے اور پکارے جاتے ہیں۔ یہاں کاروبار کہ املاک ہوں یا گھر، وہ ناصرف عورتوں کے نام پر ہیں بلکہ روزمرہ کے معمولات میں بھی عورتوں کو رہنمایانہ اہمیت حاصل ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد ماہی گیر مچھلی کی تلاش میں دنوں اور ہفتوں اور بعض دفعہ تو مہینوں تک سمندر میں رہتے تو ان کے پیچھے گھر اور کاروبار زندگی عورتیں ہی سنبھالتیں۔

فطری طور پر یہاں سب سے پہلے ماہی گیروں کو منظم کرنے کی تحریک نے جنم لیا جو کہ نہ فقط ابراہیم حیدری کے ‘کھارے’ یعنی سمندر تک محدود رہی بلکہ ‘میٹھے’ یعنی سندھو دریا کے پانی اور مچھلی پر گزر کرنے والے مچھیروں یا ماہی گیروں یہاں تک کہ بڑی جھیلوں منچھر کینجھر سمیت کئی چھوٹے بڑے پانیوں کے مچھیروں کے حقوق کا بھی ایک متحدہ و نمائندہ پلیٹ فارم بن گیا۔ اس پلیٹ فارم کے بانی سید محمد علی شاہ کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا۔ انہوں نے ‘پاکستان فشر فوک فورم’ کی بنیادی رکھی جس نے ملک گیر اور عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ ابراہیم حیدری و دیگر سمندری پانیوں سے دانہ پانی کی تلاش میں نکلے ماہی گیروں کی لانچیں راستہ بھول کر بین الاقوامی پانیوں میں افریقہ اور انڈیا تک چلی جاتیں۔ اور کئی پاکستانی ماہی گیر جب انڈیا کی قید میں چلے جاتے (اور اب بھی ہیں) تو محمد علی شاہ اور اس کے ساتھی و تنظیم ان کی رہائی کے لئے سرگرم رہے اور بھارتی قید سے ماہی گیروں کو رہائی دلوائی۔ محمد علی شاہ کے ساتھ کام کرنے والوں میں مجید گبول، سامی میمن، مجید موٹانی، سعید بلوچ، خدا گنج اور زبیدہ بھروانی (اب ناول نگار) بھی شامل رہے۔ پاکستان فشر فوک فورم نے بدین ضلع میں بدین کی جھیلوں پر ٹھیکہ داری سسٹم اور رینجرز کے ہاتھوں مچھیروں سے زیادتیوں کے خلاف بھی تحریک چلائی جس میں خواتین آگے آگے رہیں۔ بلکہ مچھیروں کی تحریک کی ‘سورمی’ یا ہروئین بھی ایک عورت ہی ہے جو سمگلروں اور مقامی مافیا کے خلاف مچھیروں کی تحریک میں ہلاک ہو گئی اور مچھیروں کی تحریک کی شہید کہلاتی ہے۔ ابراہیم حیدری اور اس سے ملحقہ جزیرہ بستیوں ریڑھی میان، لٹھ بستی، بابا بھٹ وغیرہ پر بھی محمد علی شاہ، اس کے ساتھیوں اور ان کی پاکستان فشر فوک کی سرگرمیاں رہیں۔ مجید گبول جن کا تعلق بھی ابراہیم حیدری سے ہے آج کل نیویارک میں سکونت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "فشر فوک فورم تحریک سے قبل ہم نے 1977 سے ابراہیم حیدری ویلفیئر آرگنایزیشن کے نام سے تنظیم قائم کی تھی۔ لیکن یہ محمد علی شاہ کا تصور تھا کہ ماہی گیروں کو منظم کرنے کے لئے پہلے پہل ابراہیم حیدری اور اس سے ملحقہ جزیروں اور گوٹھوں کی سطح پر اور پھر کراچی سطح اور پھر سندھ سطح اور آخر میں ملک گیر سطح پر منظم کرنا تھا”۔

کراچی کے دیگر گوٹھ

اگرچہ کراچی کے مضافات اکثریتی طور پر ماضی قریب تک پی پی پی کا گڑھ رہے ہیں جن میں میمن گوٹھ، صفوراں گوٹھ، مرید بکک گوٹھ (جو کہ بلوچ رہنمائوں اور سرداروں سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے 1970 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی اور پھر سندھی قوم پرست تحریک کا مرکز رہا)۔ نامور سندھی شاعرہ اور اپنے کوہستانی سندھی زبان اور زندگی کو ادب میں لے آنی کی وجہ سے منفرد ناول نگار ج۔ ع۔ منگھانی اور سندھی قوم پرست الٰہی بخش بکک اور اس کی بیٹیاں بھی اسی گائوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاٹھوڑ، درسانو چھنو (جہاں سے پی پی پی اور پھر پی ایم ایل این میں عبدالحکیم بلوچ رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے)، فیض محمد گبول گوٹھ، سیاست کا گڑھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہی گوٹھوں کے لوگ بحریہ ٹائون کے خلاف تحریک اور دھرنوں میں انتہائی منظم اور متحرک رہے۔ ریکسر، حسن اولیا ولیج، جانو خاصخیلی، محمد باریچو، بھنڈ، ہاکس بے، ماروئڑا گوٹھ، بھنگوریا گوٹھ (جو متحدہ کے عروج کے زمانے میں بقول اس گوٹھ کی ایک قدیم باسی کے، نائن زیرو بنا ہوا تھا) سیاسی سرگرمیوں کے مرکز رہے ہیں۔ کراچی کے قدیم گوٹھ مرید بکک کے باسی اور سندھی زبان کی شاعرہ اور ناول نگار ج۔ ع۔ منگھانی کہتی ہیں کہ ان کے اندازے کہ کراچی کے چند سو گوٹھ ہوں گے کے برعکس ان کے والد بتایا کرتے تھے کہ 1800 گوٹھ ہوں گے جو اب 2000 کے قریب ہیں۔ ان کے والد سیٹھ علی محمد بکک ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سابقہ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کے بلوچ رہنمائوں کے قریب تھے اور اسی لئے ریاستی عتاب میں رہے تھے۔

جنگشاہی

یہ رسول بخش پلیجو کا آبائی گائوں تھا جہاں اس نے اپنی تحریک کی شروعات اپنے گھر، اپنے گھر کی خواتین، بچوں اور مردوں سے کی۔ پھر اپنے گائوں سمیت پورے سندھ میں اپنی مشہور زمانہ عوامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ عوامی تحریک کے ساتھ اس کے خواتین ذیلی سیاسی محاذ سندھیانی تحریک کی بنیاد بھی اسی گائوں میں رکھی گئی۔ بلکہ عوامی تحریک کا بچوں کا ذیلی محاذ سجاگ بار تحریک بھی ہے۔ یہاں سندھیانی تحریک کا مشہور کنونشن ہوا تھا جس میں خواتین و نوجوان لڑکیوں نے پلیجو کو ہتھیاروں سے سلامی دی تھی اور مارچ پاسٹ کیا تھا۔

یہ عوامی تحریک اور اس کے بانی رسول بخش پلیجو کا خاصہ تھا کہ 1960 کی ہی دہائی سے اس کے شانہ بشانہ اس کے گھر کی عورتیں بھی سندھ کے حقوق کی تحاریک میں جیلوں میں بھی گئیں۔ ان کی اہلیہ زرینہ بلوچ، زرینہ بلوچ کی بیٹی اختر بلوچ (جو پلیجو کی بھاوج اور سینیٹر سسی پلیجو کی والدہ ہیں)، رسول بخش پلیجو کی بہنیں حور پلیجو اور فاطمہ پلیجو، بھانجیاں بھتیجیاں اور پھر ان کی بھی اولادیں اٹھ کر آئیں۔ اختر بلوچ کی تو اپنی قید کے دنوں کے بارے میں ‘قیدیانی کی ڈائری’ کتاب بھی ہے جو سندھی اردو و انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے۔ ان کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو نے اپنی سیاست کی شروعات بھی بچوں کی تنظیم سجاگ بار تنظیم سے کی۔ عوامی تحریک سندھ میں ایم آر ڈی تحریک میں پیپلز پارٹی کے بعد سب سے سرگرم بڑی پارٹی تھی۔ رسول بخش پلیجو جنگشاہی کی پتھریلی سرزمین میں دفن ہیں۔ بر سبیل تذکرہ، یہ جنگشاہی ہی تھا جس کے قریب وہ طیارہ حادثے کا شکار ہو کر گرا تھا جو لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقی رپورٹ لیے جا رہا تھا۔

جھمپیر

کینجھر کے نیلے پانیوں اور کوہستانی علاقے میں کراچی پشاور ریلوے لائن پر یہ چھوٹا سا شہر نما گائوں بنیادی طور پر سندھ کی قوم پرست تحریک اور سندھی ادبی تحریک کا ایک طرح کا مرکز رہا ہے جس کے بانی رسول بخش درس تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہو گیا ہے۔ پیشے کے لحاظ سے ایک استاد اور پھر محکمہ تعلیم سے وابستہ رسول بخش درس بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے جو رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک سے انحراف کر کے جی ایم سید کی جیے سندھ تحریک کا حصہ بنے۔ رسول بخش درس نے نوجوان سندھی ادیبوں، شاعروں کی پوری ایک دو نسلیں نظریاتی طور پر تیار کیں۔ ان کے علاوہ سندھی ادیب اور شعرا میں عزیز سولنگی، اعظم گوپانگ، کوی علی (جنہوں نے اپنی ایک نظم مریم نواز شریف پر بھی لکھی جسے میں نے پنجابی میں ترجمہ کیا ہے)، ننگر درس کا تعلق بھی جھمپیر ہی سے ہے۔ لیکن پھر اسی جھمپیر میں پارہ چنار کے صوفی عارب شاہ اور اس کے نوجوان بھانجے کا قتل ہوا تھا جسے عید نماز کے اجتماع کو اشتعال دلا کر اکسایا گیا تھا۔ اور ہجوم نے اس کوہستانی علاقے میں پتھروں سے “سنگسار” کر کے قتل کر دیا تھا۔ صوفی عارب شاہ جس نے جھمپیر میں مئخانہ علی کے نام سے اپنا مرکز کھول کر بغیر کسی مذہب، عقیدے اور زبان و طبقے کی تفریق کے جھمپیر کے کئی لوگوں خاص کر خاکروبوں سمیت بچھڑے ہوئے طبقوں کے لوگوں کو اپنے حلقہ اثر کی طرف کھینچا تھا۔

اسی شہر کے ایک ہندو نوجوان گھنشیام کو ابراہیم حیدری سے رینجرز نے اٹھا کر غائب کر دیا تھا۔ اور کچھ دنوں بعد اسے تب وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور اس وقت کے سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ کی پریس کانفرنس کے فوری بعد ‘اعترا ف’ کرتے دکھایا گیا تھا کہ اس نے مبینہ طور پر بھارت سے تربیت لی تھی۔ اور اس کو بنیاد بنا کر وزیر اعظم نے کراچی میں بھارتی قونصل خانے کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا جو تاحال بند ہے۔ اور پھر بھارت نے جواب آں غزل ممبئی کا پاکستانی قونصل خانہ بند کر دیا۔

بعد میں جب بھی ان دنوں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو جھمپیر کے لوگ پی ٹی وی پر اس طرح کے ‘اعترافات’ کرتا دیکھتے تو ازراہ تفنن ایک دوسرے سے پوچھتے واقعی یہ سچے اعترافات ہیں کہ گھنشیام والے۔ کیونکہ سب کو یقین تھا کہ ان کے شہر کا نوجوان گھنشیام ایسا نہیں ہو سکتا۔ پھر ایک سال کے قریب غائب رہنے کے بعد پی پی پی ایم این اے بابو غلام حسین کی کوششوں سے گھنشیام کو رہا کر دیا گیا تھا۔

سندھ ترقی پسند پارٹی کا دائود آتھو بھی اسی گائوں سے ہے تو شیخ ایاز کا دوست اور اپنے دور کے مشہور ترقی پسند غلام نبی بہرانی کا تعلق بھی جھمپیر سے تھا۔ جھمپیر شیخ ایاز اور حسن درس کی شاعری اور نثر کا بڑا موضوع بھی رہا ہے۔

یہاں مشہور ‘سادات کالونی’ ہے جو تقسیم کے دوران ہندوستان سے نقل وطنی کر کے آنے والے اہل تشیع حضرات کی ہے جو دو لسانی یعنی اردو اور سندھی بولنے والے ہیں۔ سادات کالونی جھمپیر نے اساتذہ، مصنف و شاعر، انجنیئر اور ڈاکٹر بھی پیدا کیے ہیں۔

بنوں

ٹھٹہ ضلع میں جنگلات اور دریائے سندھ کے کنارہ آب ایک بڑے زمیندار اور پلیجو برادری کے سربراہ ارباب نور محمد پلیجو ہو کر گزرے ہیں۔ ارباب نور محمد پلیجو جی ایم سید کے دوست اور اپنی اوطاق پر ایک بہت بڑی لائبریری کے مالک تھے۔ یہ 1960 کی اوائل دہائی تھی اور جی ایم سید اپنی قائم کردہ بزم صوفیائے سندھ کے پلیٹ فارم پر سرگرم تھے۔ ان دنوں ادبی محافل اور بزم صوفیائے سندھ کے اجلاس ارباب نور محمد پلیجو کی دریائے سندھ کے کنارے جنگلات میں بنی اوطاق پر چاندنی راتوں میں ہوتے اور سما باندھ دیتے۔ یہ اجتماعات اور سید کے خطبوں نے بنوں کے نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا۔ اور خود رباب نور محمد پلیجو کے بیٹے عبدالحئی پلیجو جی ایم سید کی جیے سندھ طلبہ تحریک میں سندھ یونیورسٹی میں مرکزی عہدیدار رہا۔ عبدالحئی پلیجو اب ایک سیاح لکھاری ہے جس نے کئی سفرنامے لکھے ہیں۔

بنوں شہر سے ایک اور درویش صفت کامریڈ سیف بنوی (اصل نام محمد رحیم سومرو) ابھر کر آئے جنہوں نے بائیں بازو کی سیاست اور ادب سے وابستہ نوجوانوں کی نسلیں تیار کی۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے شاہ جو رسالو کے حافظ سیف بنوی کا تعلق سیاسی طور پہلے جی ایم سید اور پھر جام ساقی کی بائیں بازو کی انقلابی سیاست سے رہا۔ وہ صاحب طرز ادیب اور شاعر بھی تھے۔ پیشے کے لحاظ سے سیف بنوی صحافی تھے لیکن وہ اپنی سیلاںی اور انتہائی آزاد طبعیت کے سبب ایک جگہ ٹک کر نہیں رہے۔ وہ شہر شہر گائوں گائوں جایا کرتے اور ایک زمانہ متاثر کیا ہوا تھا۔

اپنی زندگی کے پچھلے دنوں میں وہ صوفی خیالات کے قریب ہو تھے اور وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ صوفی سماع میں اٹھایا جائے۔ اور اسی طرح ان کا آخری سفر ہوا۔ اور اب قمری سال کی ہر ماہ تیرہویں شب کو سیف بنوی کی مرقد پر محفل صوفی راگ ہوا کرتی ہے۔

جنہان سومرو

ٹنڈو محمد خان کے نزدیک گائوں جنہان سومرو، زیادہ تر سندھ کے عوامی شاعر ابراہیم منشی کے نام سے جانا جاتا ہے جنہیں سندھ کا حبیب جالب بھی کہا جاتا ہے۔ شیخ ایاز کی طرح ابراہیم منشی بھی دو چند ایسے سندھی شاعروں میں سے تھے جو محض اپنی شاعری کے سبب طویل مدتوں جیلوں میں رہے۔ وہ قید و بند بھی ذوالفقار علی بھٹو کی ‘عوامی حکومت’ میں۔ ترنم میں اپنی شاعری ابراہیم منشی سندھی قوم پرستوں اور بائیں بازو کے سیاسی اجتماعات میں سناتا رہتا جس کی پاداش میں اسے بدنام زمانہ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ دوران قید ابراہیم منشی کا بیٹا بیماری میں فوت ہو گیا لیکن ابراہیم منشی کو حکومت نے اپنے بیٹے کا آخری دیدار کرنے کو پیرول پر بھی رہا کرنا گوارا نہ کیا۔ ابراہیم منشی کی آواز اور ترنم غضب کے تھے کیونکہ اس کی وجہ تھی کہ وہ پہلے زبردست مولود خواں (نعت خواں) تھے۔ ان کا منشی نام اس لئے پڑا کہ وہ اسی گائوں کے بااثر اور وڈیرے ایم پی اے عبدالخالق سومرو کے ٹھکیداری کے کاروبار پر کبھی منشی رہے تھے۔

جنہان سومرو میں اکثریت دیوبندی عقیدے کے ہونے کی وجہ سے جے۔ یو۔ آئی ایف کا بھی اس گائوں میں بہت اثر رہا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ یہاں مدارس کے نوجوان طلبہ افغانستان طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کو گئے تھے۔ ان میں سے ایسے بھی نوجوان تھے جب ‘جہا’ سے گائوں لوٹے تو وہ اپنے ساتھ وہ ایسی کہانیاں لائے تھے کہ کس طرح انہوں نے کابل کے صدارتی محل اور اقوام متحدہ کے کمپائونڈ میں پناہ لیے سابق صدر افغانستان نجیب اللہ اور اس کے بھائی کے قتل میں بھی حصہ لیا تھا۔ ایسے طالبوں کی کہانیاں تب مقامی سندھی پریس میں بھی شائع ہوئی تھیں۔

ڈینگان بھرگڑی

ڈینگان بھرگڑی نام کا گائوں میرپور خاص کے قریب ہے جس کو تمام برصغیر میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس گائوں میں رئیس غلام محمد بھرگڑی بیرسٹر نے جنم لیا جو آل انڈیا کانگرس کا مرکزی جنرل سیکرٹری بنے تھے۔ غلام محمد بھرگڑی بامبے لیجیسلٹو کائونسل کے رکن منتخب ہو کر گئے تھے اور 1936 میں سندھ کی بمبئی سے آزادی کے لئے بھی زبردست کوشاں رہے تھے۔ رئیس غلام مصطفیٰ بھرگڑی نے اپنی 200 ایکڑ سے زائد زمین گائوں میں سکول قائم کرنے کو دی۔

اسی طرح ان کے بیٹے غلام مصطفیٰ بھرگڑی پاکستان بننے کے بعد جی ایم سید کے قریبی دوست اور ملکی پارلیمانی سیاست میں انتہائی سرگرم رہے تھے۔ رئیس غلام مصطفیٰ بھرگڑی ان تین اراکین اسمبلی میں سے تھے جنہوں نے ون یونٹ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ وہ پارلیمان کے اندر اور باہر ون یونٹ مخالف تحاریک میں بھی پیش پیش رہے۔ سر پر ہمیشہ ترکی ٹوپی پہنے رئیس غلام مصطفیٰ بھرگڑی یوسف تالپور کے نانا تھے۔ فیض احمد فیض نے حیدرآباد سنٹرل جییل میں اپنے ایام اسیری کے دوران ایلس فیض کو اپنے خطوط ‘صلیبیں میرے دریچے’ میں جس بیگم بھرگڑی کا ذکر کیا ہے وہ رئیس غلام محمد بھرگڑی کے ایک اور بیٹے غلام رسول بھرگڑی کی اہلیہ تھی۔ اس گائوں نے حیدر بھرگڑی سمیت کئی دانشور و سول سوسائٹی کے اراکین پیدا کیے ہیں۔

ٹنڈو جام

تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد ٹنڈو جام کو اگر سندھ کی سیاست کا بہت بڑا مرکز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ ٹنڈو جام ہی تھا جہاں بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں سندھ ہاری کمیٹی کی داغ بیل رکھی گئی تھی۔ جی ایم سید، جمشید نسروانجی، عبدالقارد ایم خان، عبدالقادر بلوچ سندھ ہاری کمیٹی کے بانیوں میں تھے۔ جن کے بعد حیدر بخش جتوئی، کامریڈ غلام محمد لغاری، غلام حیدر لغاری، قاضی فیض محمد اور کامریڈ میر محمد تالپور سندھ ہاری کمیٹی کے آنے والی دہائی میں انتہائی فعال رہنما رہے۔ کامریڈ میر محمد تالپور اپنی حس مزاح اور بذلہ سنجی کے لئے بہت مقبول ہیں اور یہ ان کی تقاریر اور تحریروں میں بھی عیاں ہوتا۔

1980 کی دہائی میں کامریڈ میر محمد تالپور بھارت کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے ارونا آصف علی سے بھی ملاقات کی تھی۔ کامریڈ میر محمد اس ملاقات کا بتایا کرتے تھے کہ ارونا آصف علی عبداللہ ہارون کے گھر پر گزارے ہوئے دن یاد کرتی تھی۔ عبداللہ ہارون کے بیٹوں محمود ہارون اور چھوٹے بیٹے سیعد ہارون (حمید ہارون اور حسین ہارون کے والد) کو بھی یاد کرتی تھی۔ کہتیں چھوٹا بیٹا ان کا بہت شرارتی ہوا کرتا تھا۔ وہ ان کے پرس سے پیسے چرا جایا کرتا تھا۔ انہوں نے جب محمود کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ارونا آصف علی کو بتایا کہ وہ اب ضیاالحق کا وزیر داخلہ ہے اور بھٹو کی پھانسی کے بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے والا۔ تو اس پر ارونا آصف علی نے تاسف میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے زانوئوں پر مارے۔

ٹنڈو جام کی زرعی یونیورسٹی جیے سندھ تحریک کا اہم گڑھ رہا ہے۔ زیادہ تر جی ایم سید کی حامی جیے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن ماضی قریب میں جیے سندھ قومی محاذ (جسقم) کے چیئرمین بشیر قریشی کا تعلق بھی زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام سے تھا۔

اشرف میمن بینظیر بھٹو کے پہلے سیاسی سیکرٹری کا تعلق بھی ٹنڈو جام سے تھا۔ ٹنڈو جام ویسے تو اکثریتی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ یہ گمشدہ شہریوں کا ذکر تو اب ہو رہا ہے لیکن 1986 میں فوجی آمر ضیاالحق اور اس کی آمریت کے خلاف ایم آر ڈی یا تحریک بحالی جمہوریت کے دنوں میں ٹنڈو جام کے قریبی گائوں کھیسانو موری مایوں بیٹھی نوجوان لڑکیاں غائب کر دی گئی تھیں۔

ٹنڈو قیصر

ٹنڈو جام کے قریب یہ بڑا گائوں ٹنڈو قیصر سندھ سمیت ملک میں بائیں بازو اور قوم پرستی اور کسان مزدور تحاریک کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ایک تو جیسا کہ میں اپنے پچھلے ایک کالم میں اس گائوں کا کامریڈ عزیز سلام بخاری کے حوالے سے ذکر کر چکا ہوں کہ انہوں نے نہ فقط یہاں اور باقی سندھ میں انقلابی اور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی نسلیں تیار کیں بلکہ مدفون بھی ٹنڈو قیصر کی سرزمین پر ہیں۔ دوسرا جدید بلوچ قوم پرستی کے ایک نظریہ دان قادر بخش نظامانی کے جنم کا گائوں بھی یہی ہے۔ قادر بخش نظامانی پر پورا ایک باب امریکی محقق و مصنف سیلگ ہیریسن کی بلوچستان پر کتاب In Afghanistan’s Shadow: Baloch Nationalism and Soviet Temptation میں بھی ہے۔ قادر بخش نظامانی 1973 میں بلوچستان میں بغاوت کے نام پر ‘عراقی اسلحہ سکینڈل’ کیس کے بعد برطانیہ خود ساختہ جلاوطنی میں چلے گئے تھے جہاں وہ تاد دم آخر رہے اور اب میوہ شاہ لیاری کے قبرستان میں دفن ہیں۔ اسی قبرستان میں کہیں بلوچ ہیرو ‘قادو مکرانی’ قادر بخش بلوچ کی قبر بھی ہے۔

ٹنڈو قیصر رسول بخش پلیجو اور اس کی عوامی تحریک کے قریبی ساتھیوں کا بھی گڑھ رہا ہے جب کہ اب نئی پود پاکستان عوامی ورکرز پارٹی سے بھی وابستہ ہے۔ اپنے دور کے سرگرم سیاسی کارکنان مقبول نظامانی، مشتاق نظامانی، فیض نظامانی کا تعلق بھی اسی گائوں سے ہے۔

کرم خان نظامانی

ہالا کے قریب گائوں کرم خان نظامانی ایم آرڈی تحاریک میں زیریں سندھ میں اگلے مورچوں پر رہنے والے گوٹھوں میں سے ایک تھا۔ اس گوٹھ کے کسان مزدور بھی جیل گئے تو رئیس علی احمد نظامانی بھی۔ کرم خان نظامانی نے سندھ کے معروف ہاری حقوق کے لیجنڈری سرگرم کارکن دادا علی بخش کا تعلق بھی اسی گائوں سے ہے جس نے پورے سندھ میں پیدل جا کر ہاری تحریک کا پیغام پہنچایا۔ گوٹھ کرم خان نظامی نے علم، ادب، شاعری و سیاست میں سندھ سمیت ملک کے معروف نام پیدا کیے ہیں جن میں دادا علی بخش، معروف شاعر لکھا ڈنو خاصخیلی باالمعروف کلال، معروف شاعر، افسانہ نگار و صحافی جان خاصخیلی، تعلیم دان و مصنف حیدر نظامانی، اپنے دور کے سیاسی کارکن علی نواز نظامانی اور عطا محمد نظامانی بھی شامل ہیں۔

چمبڑ

ٹنڈو اللہ یار کے قریب چمبڑ ایک ایسا گائوں ہے جہاں ہاری متنازع انقلاب لائے تھے کہ انہوں نے زمینداروں اور وڈیروں کی زیادتیوں کے خلاف ‘ہاری کورٹس’ یا ہاری عدالتیں قائم کی تھیں۔ ہاری یا کسان رہنما جو ان عدالتوں کے جج تھے، ہاریوں کی فریاد پر مدعا علیہان زمینداروں اور وڈیروں کو ‘ہاری کورٹ میں پیش ہونے کو نوٹس’ بھیجتے۔ ایک ہاری رہ نما احمد خان لغاری ان ‘ہاری کورٹس’ کا خود مقرر کردہ ‘چیف جسٹس’ تھا۔ جب کہ پھوٹو رستمانی و دیگر اس کے ساتھ تھے۔ یہ ‘ہاری کورٹس’ خود آپس میں تنازع کا باعث بنیں کیونکہ کامریڈ عزیز سلام بخاری، کامریڈ عثمان لغاری، باقر سنائی و دیگر نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ ‘ہاری کورٹس’ قائم کرنے پر اختلاف کیا تھا۔ بعد میں ایک بڑے پولیس ایکشن کے ذریعے یہ ہاری کورٹس ختم ہوئیں اور رہنمائوں کو جیل اور سزائیں بھی ہوئیں۔ لیکن چمبڑ اور اس کے ہاری رہنما اور حقوق کے سرگرم کارکن آج بھی مذکورہ ‘بغاوت’ کے حوالوں سے جانے جاتے ہیں۔

سرِہاڑی

یہ سانگھڑ اور نوابشاہ اضلاع کے درمیان ایک تاریخی گائوں ہے جہاں 1950 کی شروعات میں ملک گیر ہاری کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں خان عبدالغفار خان باچا خان جیسے رہنما اور حسن ناصر جیسے بائیں بازو کے انقلابی شریک ہوئے تھے اور آگے چل کر اسی کانفرنس میں کچھ قراردادوں اور فیصلوں کی روشنی میں ملک میں وسیع حزب مخالف پارٹی نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ حیدر بخش جتوئی، قاضی فیض محمد، محمود الحق عثمانی اس کانفرنس کے میزبانوں میں سے تھے۔

طیب خان تھہیم

ضلع سانگھڑ میں شہداد پور کے قریب پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے رہنما عبدالسلام تھہیم کا یہ گائوں پیپلز پارٹی اور تحریک بحالی جموریت کا گڑھ تھا اور 1983 میں ضیا آمریت کے فوجی آپریشن سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔

پنہل خان چانڈیو اور قیصر خان چانڈیو

ستمبر 1983 نوابشاہ ضلع میں سکرنڈ کے قریب پنہل خان چانڈیو گائوں ایم آر ڈی تحریک میں اگلے مورچوں پر تھا۔ جب اس گائوں اور اس کے قریبی علاقوں کے قومی شاہراہ پر نہتے پر امن، قرآن خوانی کرتے لوگوں کے اوپر ٹرک چڑھا دیے گئے تھے اور ریاستی اداروں نے سب مشین گنوں سے فائرنگ کر کے کئی افراد کو ہلاک، زخمی اور گرفتار کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور رکن صوبائی اسمبلی رہنے والے غلام قادر چانڈیو کا تعلق بھی پنہل خان چانڈیو جب کہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف کے سابق چیئرمین اور اپنے دور کے معروف طالبعلم رہنما امداد چانڈیو کا تعلق بھی قریبی گائوں قیصر خان چانڈیو سے ہے۔ قیصر خان چانڈیو غلام مصطفیٰ جتوئی کے اثر میں تھا۔

مینگھو فقیر شر

خیرپور میرس کے ٹھری میر واہ کے قریب گائوں مینگھو فقیر شر سندھ میں بائیں بازو کی سیاست و تحریک کی اہم ‘نرسری’ رہا ہے۔ ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد ہو کہ ایم آرڈی تحریک، یہاں کے مرد، عورتیں، بچے آگے آگے رہے ہیں۔ اسی گائوں کی لڑکیاں سابقہ سوویت یونین کے دنوں میں ماسکو کی یونیورسٹیوں سے گریجویشن کر کے ڈاکٹر بن کر لوٹی تھیں۔ غلام حسین شر، ان کے بھائی، بہنیں، بیٹیاں اور بیٹے مذکورہ تحاریک کا حصہ رہے۔ شبیر شر مشہور جام ساقی کیس میں سابق ملزم رہے تھے۔ جب کہ ان کے دوسرے بھائی لیاقت شر جو کہ اب پیپلز پارٹی میں ہیں بھی سرگرم رہے۔ اس کے علاوہ شر قبیلے سے تعلق رکھنے والے دیگر نوجوانوں کا تعلق جیے سندھ تحریک سے بھی رہا ہے۔

سن

سابقہ ضلع دادو اور اب جامشورو ضلع میں یہ مشہور گائوں سن کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ ایک بڑا تاریخی حوالہ اس گائوں کا یہ ہے کہ یہ سندھی قوم پرست رہنما اور کبھی تحریک پاکستان کے رہنما جی۔ایم سید کی جائے پیدائش اور آبائی گائوں ہے۔ اسی گائوں کو سندھی قوم پرست اور جی ایم سید کے پیروکار یا مداح سندھ کا سیاسی قبلہ کہتے ہیں۔ کبھی اس گائوں میں تقسیم سے قبل جی ایم سید کی اوطاق (ڈیرے) پر حکومتیں گرانے اور بنانے کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ اسی گائوں کے ریلوے سٹیشن پر چودہ سالہ نوجوان جی۔ایم سید کی ملاقات گاندھی سے ہوئی تھی جب وہ بذریعہ ٹرین لاڑکانہ جا رہے تھے۔ اسی گائوں میں اتنی چھوٹی عمر میں جی۔ایم سید نے دوسری خلافت کانفرنس کی میزبانی کی تھی اور اس کمسن نوجوان کا استقبالیہ خطہ سنکر کر خلافت و کانگرس کے بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے تھے۔ سن میں خان عبدالغفار باچا خان، ولی خان، عبدالصمد اچکزئی اور بھٹو سے لے کر شیخ مجیب تک کئی رہنما جی۔ایم سید کے مہمان رہ چکے تھے۔ اس گائوں میں جی۔ایم سید کی لائبریری تھی جہاں ان کی بانی پاکستان محمد علی جناح سے خط و کتابت فائلوں کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ شاہنواز بھٹو کا جی۔ایم سید کو پوسٹ کارڈ پر ذوالفقار علی بھٹو کے ختنے کی تقریب کا دعوت نامہ بھی موجود ہے۔ جب کہ جنرل ضیاالحق نے پھانسی کے بعد بھٹو کے جسم کو ننگا کروا کر ان کے عضوہ تناسل کے فوٹو بھی منگوائے تھے یہ یقین کرنے کو کہ ان کا ختنہ تھا کہ نہیں؟ نہ ہونے کی صورت میں وہ ان کے عقیدے کی تشہیر کروا سکتے۔ یہ وہ گائوں ہے جہاں جی۔ایم سید نے اپنی بالغ زندگی کے اکثر برس اپنے گھر پر نظربندی میں گزار دیے، قطع نظر اس کے کہ پاکستان میں حکومتیں فوجی ہوں کہ سویلین۔ ان کا انتقال بھی بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ہوا۔ ان کی میت ان کے گائوں سن آئی لیکن آخری سانسیں بھی بحالی قید میں لینے کے بعد۔

جی ایم سید کے اس گائوں سے تعلق حکیم محمد صالح کاندھڑو، ہاری حقوق کے معروف علمبردار باقر سنائی اور لکھاری اور پبلشر اس سے قبل سندھ میں جی۔ایم سید کے نظریات سے وابستہ بچوں کی تنظیم کے بانی ناز سنائی کا بھی تعلق ہے۔ ناز سنائی کو جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کے دوران کسی کتاب یا جریدے کی اشاعت پر کووڑں کی سزا بھی ملی تھی۔

علامہ آئی آئی قاضی کی یہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی جو انہوں نے 1930 کے عشرے میں جی۔ایم سید کو ایک خط میں کی تھی کہ وہ وقت آئے گا جب تمہاری مٹی پر میلے لگیں گے۔ جی۔ایم سید کا گائوں سن ان کی زندگی اور بعد میں ان کی سالگرہ اور برسی والے دنوں میلوں کا سماں پیدا کرتا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سندھ کے ہزاروں لاکھوں گوٹھوں کی طرح سن کے لوگ بھی غربت و مفلوک الحالی کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بھنبھو چانڈیو گوٹھ

یہ بھنبھو چانڈیو برصغیر میں جیّد مذہبی سکالر اور سندھی عالم و ادیب علامہ غلام مصطفیٰ قاسمی کی جائے پیدائش کے حوالے سے مشہور ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اس گائوں نے مشہور صحافی و سیاسی کارکن پیدا کیے ہیں جن میں اپنے دور کے نیک شہرت اور دانشور امان اللہ بلوچ اور ان کے صاحبزادے اور قوم پرست دانشور کارکن و لکھاری استاد خالد چانڈیو کا تعلق بھی اسی گائوں سے ہے۔ گائوں بھنبھو چانڈیو نے اس وقت تک سات پی ایچ ڈی اور گیارہ ایم فل پیدا کیے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

بخشو لغاری

حیدرآباد کے قریب یہ گائوں بخشو لغاری سندھی قوم پرست سیاست کی ایک اور آماجگاہ رہا ہے۔ اس گائوں میں سندھ کی ہاری تحریک اور جیے سندھ تحریک کے اثرات دہائیوں سے پہنچے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر جاوید لغاری جو ماضی قریب تک پیپلز پارٹی کے سینیٹر بھی تھے اور پھر ہائر ایجوکیشن کائونسل یا ہیک کے سربراہ بھی بنے کا تعلق بھی اسی گائوں سے ہے۔ اس سے زیادہ ڈاکٹر جاوید لغاری اور ان کے بھائی خالد لغاری کی شہرت سندھ کے حقوق کے لئے سرگرم تارک وطن سندھیوں کی تحریک کے حوالے سے ہے۔ خالد لغاری لندن سے اور جاوید لغاری امریکہ میں سندھی اسوسیشن نارتھ امریکہ سے۔ لیکن ان کے علاوہ آدم خان لغاری تھے اور امید لغاری بھی ہیں جو ورلڈ سندھی کانگرس میں سرگرم ہیں اور اس کے مرکزی عہدیدار بھی رہے ہیں۔ گائوں بخشو لغاری پر عبدالواحد آریسر کی سندھی قوم پرستی کی تقریریں اور تحریریں نوجوانوں تک پہنچیں۔ اسی گائوں سے تعلق رکھنے والے محمد علی لغاری اور ان کی اہلیہ فاطمہ لغاری کی جدوجہد کی عجب داستان ہے۔ یہ جوڑا بنیادی طور پر مزدور پیشہ اور ہاری تھے لیکن انہوں نے اپنی اولاد جو کہ دو بیٹے تھے کی تعلیم کے لئے اپنا گائوں چھوڑا۔ ان کے دو بیٹے تھے انور لغاری اور منور لغاری جن کو ان کے ان ماں باپ نے حیدرآباد شہر میں رہنے والے ایک رشتہ دار وڈیرے کے ہاں چھوڑا۔ جہاں یہ بچے وڈیرے کے گھر رہائش و کھانے کے عوض اس وڈیرے یا رئیس کے گھر کا کام بھی کرتے پر پڑھائی بھی جاری رکھی۔ پہلے کو ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور دوست بیٹے کو انجنیئرنگ کی ڈگری دلوائی۔ لیکن سندھ کے تمام سیاسی لوگوں کے پاس چاچا محمد علی اور چاچی فاطمہ کے ناموں سے جانے جانے والے اس جوڑے اور خاندان نے اپنی زندگیاں سیاست کو وقف کر دیں۔ چچا محمد علی اور چاچی فاطمہ ہاری تحریک اور پھر اپنے چھوٹے بیٹے سمیت قادر مگسی اور اس کی سندھ ترقی پسند پارٹی سے منسلک رہے۔ ان کا گھر قادر مگسی سمیت ان کی پارٹی کے کئی کارکنوں کی پناہ گاہ رہا۔ یہ بھی انہونی بات ہے کہ کسی سندھی مرد نے اپنی اہلیہ کی زندگی پر کتاب لکھی ہو۔ محمد علی لغاری نے اپنی اہلیہ کی زندگی پر سندھی زبان میں کتاب ‘سندھ جی فاطمہ’ (سندھ کی فاطمہ) لکھی ہے۔ چچا چچی اور منور لغاری نے قادر مگسی سے اپنی راہیں الگ کر لیں۔ ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر انور لغاری کا تعلق سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے تھا اور وہ 2015 میں قتل ہو گئے۔ کچھ عرصے انور لغاری کا اکلوتے بیٹے جواں سال انجنیئر اسد لغاری کی بھی پراسرار حالات میں موت واقع ہوئی۔ جب کہ منور لغاری بالمعروف صوفی لغاری گذشد چوتھائی صدی سے امریکہ میں سندھ کے حقوق کے نام پر واشنگٹن سے سرگرم ہے۔

بنڈی

دریائے سندھ کے کنارے اور موہن جو دڑو (یہ موہن جو ڈارو نہیں موہن جو دڑو ہے) کے نواح میں واقع اس چھوٹے سے گائوں اور اس میں جنم لینے والے سوبھو گیانچندانی کے بارے شیخ ایاز نے لکھا تھا "آج سوبھو اپنے گائوں بنڈی میں اپنے دن گزار رہا ہے گویا کہ چوہے کے بل میں ہمالیہ بند کر دیا گیا ہے”۔ اس گائوں سے سندھ میں ترقی پسند سوچ کا سورج ابھرا تھا، یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ روبیندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور) کی شانتی نکیتن سے تعلیم یافتہ سوبھو جسے ٹیگور ‘مین فرام موہن جو دڑو’ کہا کرتے تھے برصغیر ترقی پسند تحریک کی تاریخ کا ایک اہم ترین نام ہے۔ وی وی گری اور اندر کمار گجرال کے ہمعصر سوبھو نے سندھ سمیت ملک میں نظریاتی طور پر ترقی پسند سیاست اور ادب میں کئی نسلیں تیار کی تھیں۔ ان میں انور پیرزادو اور ہدایت منگی بھی تھے۔ سوبھو 1935 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بھمڑی (انڈیا) میں پہلی بنیادی کانفرنس میں بھی شریک عمل تھے، 1985 میں کراچی میں ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی میں بھی۔

بلہڑیجی، ‘لٹل ماسکو’

موہن جو دڑو کے بازو میں یہ گائوں بلہڑیجی (جس کی اصل وجہ شہرت یہ تھی کہ اس گائوں کے لوگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کے ازبر یاد حافظ ہیں) آج تک ‘لٹل ماسکو’ کی عرفیت سے مشہور ہے۔ کیونکہ سندھ کے معروف شاعر، ادیب، محقق اور صحافی انور پیرزادو وہ پہلے آدمی تھے جو سوبھو گیانچندانی کی صحبت میں کمیونسٹ نظریات سے وابستہ ہوئے اور پھر ان سے متاثر گائوں کے کئی لوگ جن میں اکثریت پیرزادوں کی ہے ان کے ہم خیال نظریاتی ساتھی بنے۔ آگے چل کر یہ گائوں ملک بھر میں کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں کی آمد و رفت کی ایک طرح کا سٹیشن بھی بنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دائیں بازو کے ایک سندھی دانشور اور نقاد قربان علی بگٹی (جنہیں میں کمیونسٹوں کا دانا دشمن کہتا ہوں) نے اس گائوں پلہڑیجی کو ازراہ تففن ‘لٹل ماسکو’ کہا تھا لیکن گائوں والوں اور ان کے دوستوں نے اسے اعزاز سمجھا۔

محب پیرزادو، لطف پیرزادو، گلاب پیرزادو اور صفت پیرزادو اس گائوں کے معروف سرگرم سیاسی کارکن تھے جو ضیا فوجی آمریت میں جیل بھی گئے۔ لطف پیرزادہ کو تو قید و کوڑوں کی سزا بھی ملی۔ ان دنوں بائیں بازو کے کئی سرگرم لیکن زیر زمین لوگوں کی یہ گائوں پناہ گاہ بھی رہا۔

لیکن سیاست کے علاوہ اس گائوں کے جو اور اصل مظاہر ہیں وہ یہاں عورتوں کی تعلیم اور ان کا با اختیار (ایمپاورڈ) ہونا ہے۔ انور پیرزادو نے گائوں کی کئی خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنا اور جاری رکھنے پر راغب کیا۔ کئیوں کو خود بھی تعلیم دی۔ انور پیرزادو اس سے قبل سندھ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے استاد بھی تھے۔ بعد میں 1971 میں پاکستان فضائیہ میں زیر تربیت پائلٹ تھے جب انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں اپنے ایک ساتھی کو سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے متعلق اپنا تبصرہ کیا تھا۔ خط پکڑا گیا اور انور پیرزادو کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ رہائی پر انور پر سرکار نوکریوں کے دروازے بند تھے۔ وہ پرائیویٹ ہائی سکول ٹیچر بنے اور پھر صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ضیاالحق کی فوجی آمریت میں ان گنے چنے صحافیوں میں سے تھے جو محض ایم آر ڈی تحریک کو کور کرتے اپنی رپورٹنگ پر جیل گئے۔ جیل میں بھی انہوں نے کئی نئے نظریاتی ساتھی تیار کیے۔

بلہڑیجی گائوں سے خواتین سمیت کئی ادیب شاعر اور صحافی پیدا ہوئے۔ شاہ محمد پیرزادو، اقرار پیرزادو، فیض پیرزادو، میر محمد پیرزادو، عجیب پیرزادو، ستار پیرزادو، انور کے بیٹے (امر پیرزادو، زید پیرزادو، زرار پیرزادو)، مسرور پیرزادو، لطف پیرزادو، شعور پیرزادو۔ جب کہ خواتین میں میراں پیرزادو، ملکہ پیرزادو، سندھو ستار پیرزادو، خالدہ پیرزادو، مصورہ باکھ پیرزادو اور طلبہ تحریک میں سرگرم ورشا پیرزادو ہیں۔

بلہڑیجی کی خواتین لکھارنیوں اور شاعرائوں نے اپنی ادبی تنظیم بھی بلہڑیجی میں قائم کر رکھی ہے جہاں ان کے ادبی اجلاس ہوا کرتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انور پیرزادو کی تعلیم و تربیت میں کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ ہاتھ ان کے بڑے بھائی کا تھا جو کراچی میں معروف وٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ انور کے بڑے بھائی کی وجہ سے انور پیرزادو سمیت بلہڑیجی کے اکثر پیرزادوں کا دوسرا گھر کراچی ٹھہرا۔

لیکن سابقہ سوویت یونین ٹوٹنے اور خود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ٹوٹنے کی وجہ سے بلہڑیجی عرف ‘لٹل ماسکو’ بھی نظریاتی انحطاط کا شکار ہوا۔ اب کمیونسٹوں کی جگہ قوم پرست سیاست اور وہ بھی ملیٹنٹ سیاست نے کئی نوجوانوں کو متاثر کیا۔ شفی برفت کے گروپ جیے سندھ متحدہ محاذ جسمم سے تعلق یا شبے کی بنا پر نوجوانوں کو ریاستی اداروں ںے غائب کر دیا جس میں ایک نوجوان سرویچ پیرزادو کی مسخ شدہ لاش اس کے گھروالوں کو ملی۔ جواں سال سرویچ پیرزادو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری کے ازبر یاد حافظ فقیر و صوفی و سیاسی سوجھوان لطف پیرزادو کا بیٹا تھا۔ بیٹے کے صدمے میں لطف زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے۔

About The Author