نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎مجھے تنگ کردو؛ ڈاکٹر بے۔ ۔ ۔کی ڈائری!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

”ساری زندگی شوہر کی کمائی کھا کھا کے بھینس جتنی ہو کے اتنا احساس کمتری۔ بی بی مرنا سب نے ہے مگر یہ بات گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ جیسی عورتوں کی قبر آپ کو اس میں ڈالنے سے پہلے جل اٹھے گی“ ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر میرا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے، پلیز میری مدد کریں!
اڑی اڑی رنگت اور بکھرے بالوں والی خاتون ہمارے سامنے تھیں۔

ہائیں، یہ کیسی فرمائش ہوئی؟ کیا ہم نے شادی کروانے کا ادارہ کھول رکھا ہے جہاں بے چین شوہروں کی دوسری شادی خدا کے فضل و کرم سے انجام پاتی ہو، کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے ہم نے سوچا۔

دیکھئیے میں اس سلسلے میں بھلا کیا مدد کر سکتی ہوں آپ کی؟ آپ اپنے ماں باپ کو بتائیے، ساس سسر کو بھی کہئیے کہ وہ آپ کے شوہر سے بات کریں، ہم نے انہیں سمجھایا۔

نہیں وہ میری مدد نہیں کر سکتے۔ سب کچھ تو آپ کے ہاتھ میں ہے، وہ التجا آمیز لہجے میں بولیں۔
جی چاہا سر کے بال نوچ ڈالیں پھر متوقع گنج نے اس ارادے سے باز رکھا۔
بی بی بتائیے کھل کر کہ مسئلہ کیا ہے؟ ہم نے زچ ہو کر کہا۔
وہ اٹک اٹک کر بولیں، جی انہیں مجھ سے شکایت ہے کہ میں تنگ نہیں ہوں۔
ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ ان سے تنگ نہیں ہیں۔ وہ تو بہت اچھے شوہر نکلے بھئی۔

نہیں ڈاکٹر صاحب، یہ بات نہیں، تنگ مطلب کچھ اور۔ وہ آہستہ سے بولیں۔
کیا مطلب بھئی؟ پلیز پہیلیاں نہ بھجوائیے۔
جی وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔
ہاں ہاں کہیے
جی نیچے سے۔ ۔ ۔

لاحول ولا قوۃ، بی بی آپ صاف صاف کیوں نہیں کہتیں، ہم تھک چکے تھے۔
وہ جی نام لیتے ہوئے شرم آتی ہے نا، وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے بولیں۔

لیکن شرم سے ہی تو اس کا نام رکھا گیا ہے شرم گاہ۔ معلوم ہو گیا نا سب کو کہ شرم اور شرمندگی کی جگہ ہے تو تھوڑی دیر شرم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرم گاہ کو جو بھی تکلیف ہے وہ بتا دیجیے۔ ہم نے صبر پہ تین لفظ بھیجتے ہوئے چڑچڑاہٹ کا مظاہرہ کیا۔

جی میری شرم گاہ تنگ نہیں ہے، بالآخر وہ دبے لہجے میں بولیں۔
آپ کو کیسے علم ہوا؟
وہ جی میاں کہتے ہیں۔ ۔ ۔
کیا کہتے ہیں؟
جی کہتے ہیں کہ اب تم ٹائٹ نہیں رہیں جیسی شروع میں تھیں، انہوں نے ٹھنڈی سانس بھری۔

آپ کے کتنے بچے ہیں؟ ہم نے پوچھا۔
چار۔
نارمل پیدا ہوئے یا سیزیرین؟
جی شکر ہے سب بچے نارمل پیدا ہوئے۔

تو بتائیے اپنے شوہر کو کہ جس جگہ سے چار بار انسانی بچہ گزرے اور بچے کا سر نکالنے کے کیے اسے کاٹا بھی جائے، وہ اپنی اصلی حالت میں کیسے رہ سکتی ہے؟ ہم نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔

جی میں نے کہا تھا کہ بچوں کی پیدائش سے فرق پڑ گیا ہے مگر وہ نہیں مانتے۔ وہ دوسری شادی کرنے پر تلے بیٹھے ہیں، ان کی آنکھیں نم تھیں۔

یہ بتائیے کیا وہ بھی شادی کے شروع جیسے ہیں؟ ہم نے پوچھا۔
نہیں، ویسے تو نہیں ہیں۔

تو سمجھ لیجیے کہ وقت، زمانہ اور حالات کسی بھی چیز کو ویسا نہیں رہنے دیتے جیسی وہ شروع میں ہوتی ہے۔ تبدیلی ہر جسم اور ہر چیز کے لیے ناگزیر ہے۔

جی لیکن ڈاکٹر صاحب اگر آپ مجھے تنگ کر دیں تو۔ ۔ ۔
ان کی سوئی ابھی تک تنگ پہ اٹکی ہوئی تھی۔

ہم نے ماحول بدلنے کے لیے کہا، ہم کیسے آپ کو تنگ کر سکتے ہیں بھئی؟
جی لیکن میں نے تو سنا تھا آپ کے متعلق کہ آپ بہت اچھا تنگ کر دیتی ہیں، وہ روہانسی ہو رہی تھیں۔

اب مشکل تھا کہ ہم اپنا قہقہہ روک سکتے لیکن انہیں مزید بے چینی سے بچانے کے لیے کہا،
ٹھیک ہے ہم آپ کی ویجائنا عرف شرم گاہ تنگ کر دیں گے لیکن آپ کو تنگ نہیں کریں گے۔

ہماری شرارت سمجھ کر وہ بھی ہلکے سے مسکرا دیں۔

لیکن آپ کو یہ بتا دیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح جسم کے تمام رگ پٹھے کمزور ہوتے ہیں اسی طرح ویجائنا عرف شرم گاہ بھی پھر سے ڈھیلی پڑ جائے گی۔

ویسے ایک بات بتائیے؟ ہم نے پوچھا۔
جی۔
انہیں یہ خیال کیسے آیا؟
جی وہ کہتے ہیں کہ اب پہلے جیسا محسوس نہیں ہوتا۔
کیا انہیں شوگر ہے؟
جی ہاں، بہت سالوں سے۔

تو انہیں بتائیے کہ شوگر کی وجہ سے محسوس کرنے والی نروز یا اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں۔ جیسے آپ پہلے جیسی نہیں رہیں، ویسے وہ بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔
اچھا ایک اور بات بتائیے؟ یہ دوسری شادی کا کیا سلسلہ ہے؟ ہم نے پوچھا۔

وہ جی۔ وہ دوسری شادی کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں، اگر میں تنگ نہ ہوئی۔ میرا مطلب ہے میری شرم گاہ۔ وہ دوسری شادی کر لیں گے اور مجھے طلاق دے کر میکے بھیج دیں گے۔ بچوں کا کیا ہو گا؟ بس اسی لیے میں بہت پریشان ہوں۔ وہ سر جھکا کر بولیں۔

آپریشن تھیٹر میں وہ لیٹی تھیں اور ہم انہیں ”تنگ“ کرتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ حوا کی بیٹی تمام عمر کس کس صلیب پر مضروب ہوتی ہے۔

اداسی کے ان لمحات میں بے اختیار یہ خیال آیا کہ کیوں نہ آپ کو یہ تنگ ہونے کا قصہ سنایا جائے۔ بلکہ ان لوگوں کو تنگ کیا جائے جو ان بے شرم قصوں سے تنگ ہیں اور منہ بھر بھر کے ہمیں کوستے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گائنی کے مسائل لکھ لکھ کر ہم عورتوں میں جنسی خواہش ابھار رہے ہیں۔

دیکھئیے کیا کچھ سننا پڑتا ہے ہمیں!

” اس کی اس اور دیگر سبھی پوسٹس میں شرم گاہ سیکس سیکس اور بس سیکس ہوتا۔ اور حیرت کی بات کہ ہر عورت یس یس بولتی، آل موسٹ 99.99 % اس کے ساتھ ہوتی۔“

”اب نتیجہ یہ تو یہ ہے کہ آج کی عورت کی سیکس وش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ یا ان کے پاس شرم گاہ کے علاوہ کوئی ٹاپک نہیں۔“

”ساری زندگی شوہر کی کمائی کھا کھا کے بھینس جتنی ہو کے اتنا احساس کمتری۔ بی بی مرنا سب نے ہے مگر یہ بات گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ جیسی عورتوں کی قبر آپ کو اس میں ڈالنے سے پہلے جل اٹھے گی“ ۔

ارے واہ صاحب، آپ تو میری اماں کے ہم خیال نکلے! وہ کہا کرتی تھیں، سچ بولنے والے ہمدرد انسان کی قبر پہلے سے ہی روشن ہوتی ہے۔

رہی بات شرم گاہ کا ذکر کرنے کی تو بھیا قسم لے لو، ہم تو موئے ”تنگ“ آپریشن کے حق میں ہی نہیں۔ بس کچھ آپ جیسے بھائیوں کے طفیل ہمیں یہ زبردستی کا کام کرنا پڑ جاتا ہے، ان عورتوں کے لیے جنہیں شوہر کی کمائی کھانے کا طعنہ قبر تک ملتا ہے لیکن جواب میں شوہر کیا وصول کرتا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا سوائے ہمارے۔

چلیے نظم پڑھیے جو شعیب کیانی نے خون جگر سے لکھی ہے اور جسے پڑھ کر سوچا ارے یہی تو ہیں ہم، ڈاکٹر بے!

”بے حیا“
ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ ان کے جسموں پہ کس کا حق ہے
ہمیں تو ہیں وہ
جو طے کریں گے
کہ کس سے ان کے نکاح ہوں گے
یہ کس کے بستر کی زینتیں ہیں
وہ کون ہو گا جو اپنے ہونٹوں کو
ان کے جسموں کی آب دے گا

بھلے محبت کسی کے کہنے پہ
آج تک ہو سکی، نہ ہو گی
مگر یہ ہم طے کریں گے
ان کو کسے بسانا ہے اپنے دل میں
ہم ان کے مالک ہیں
جب بھی چاہیں
انہیں لحافوں میں کھینچ لائیں
اور ان کی روحوں میں دانت گاڑیں
یہ ماں بنیں گی
تو ہم بتائیں گے
ان کے جسموں نے کتنے بچوں کو ڈھالنا ہے
ہمارے بچوں کے پیٹ بھرنے

اگر یہ کوٹھے پہ جا کے اپنا بدن بھی بیچیں
تو ہم بتائیں گے
کس کو کتنے میں کتنا بیچیں
ہمیں کو حق ہے
کہ ان کے گاہک (جو خود ہمیں ہیں ) سے
ساری قیمت وصول کر لیں
ہمیں کو حق ہے کہ ان کی آنکھیں،
حسین چہرے، شفاف پاؤں،
سفید رانیں، دراز زلفیں
اور آتشیں لب دکھا دکھا کر
کریم، صابن، سفید کپڑے، اور آم بیچیں
دکاں چلائیں، نفع کمائیں

یہ کون ہوتی ہیں
اپنی مرضی کا رنگ پہنیں
سکول جائیں، ہمیں پڑھائیں
ہمیں بتائیں
کہ ان کا رب بھی وہی ہے جس نے ہمیں بنایا
برابری کے سبق سکھائیں
یہ لونڈیاں ہیں یہ جوتیاں ہیں
یہ کون ہوتی ہیں اپنی مرضی سے جینے والی؟

بتانے والے ہمیں یہی تو بتا گئے ہیں
جو حکمرانوں کی بات ٹالیں
جو اپنے بھائی سے حصہ مانگیں
جو شوہروں کو خدا نہ سمجھیں
جو قدرے مشکل سوال پوچھیں
جو اپنی محنت کا بدلہ مانگیں
جو آجروں سے زباں لڑائیں
جو اپنے جسموں پہ حق جتائیں
وہ بے حیا ہیں۔
~شعیب کیانی

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author