وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان سے متصل خیبر پختون خوا کے اضلاع میں پچھلے چار ماہ کے دوران کالعدم ٹی ٹی پی کی مسلح کارروائیاں ان سے پہلے کے چار ماہ کے مقابلے میں پچاس فیصد بڑھ گئی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے لگ بھگ دو ہفتے قبل متصل افغان صوبوں میں جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں کابل انتظامیہ اور اسلام آباد کے مابین تعلق ٹھنڈے گرم کی حدود میں داخل ہو گیا ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ یہ امید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے کہ کابل انتظامیہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی روک تھام میں مدد کے لیے اگست دو ہزار اکیس سے پہلے کیا گیا وعدہ پورا کر پائے گی۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اس امید پر افغان طالبان کا علانیہ و غیر علانیہ ساتھ دیا کہ وہ اپنے ملک میں جو بھی کریں اس کے اثرات ان ہی تک محدود رہنے چاہئیں۔ یہ بالکل اس سے ملتی جلتی فرمائش ہے کہ چیتا اپنے جنگل میں جو چاہے کرے مگر مجھ سے معاملہ کرتے وقت ہرن کی سیرت اپنا لے۔ پھر بھی اسٹیبلشمنٹ اس تجربے سے کوئی منطقی سبق سیکھنے کے بجائے کابل انتظامیہ کی جانب سے ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں محدود کرنے میں عدم تعاون پر خفا ہے۔
کچھ ایسی ہی مایوسی و خفگی بلوچستان کی بدامنی کے تعلق سے بھی پائی جاتی ہے۔ آج تک فیصلہ سازوں کو یہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جب ہم نے اتنے تعلیمی ادارے کھول دیے ، اتنی سڑکیں بنا دیں ، صوبے کے طے شدہ حصے سے زیادہ ترقیاتی فنڈ الاٹ کر دیے۔ مراعات کے خصوصی پیکیجز کا اعلان کر دیا۔پھر بھی ہمارا شکریہ ادا کرنے کے بجائے بے چینی روز بروز بڑھ کیوں رہی ہے اور متشدد کارروائیوں میں پہلے کے مقابلے میں کیوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یقیناً بیرونی عناصر چند کچے ذہنوں والے بلوچوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر حالات اتنے ہی خراب ہوتے تو پھر شہزاد رائے کا نیا گیت ” واجا ” اس قدر وائرل کیوں ہوتا۔ جس میں ہر بلوچستانی کردار خوش اور مطمئن دکھائی دے رہا ہے۔
کہتے ہیں ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں سے زیادہ بچے کی نفسیات اور ضروریات بھلا کون سمجھ سکتا ہے۔ اگر یہی ماں بچے کے مسلسل رونے کے بنیادی اسباب معلوم کر کے ان کا حل ڈھونڈنے کے بجائے خود طے کر لے کہ بچہ اس لیے بے چین ہے تو پھر کیا ہو گا ؟
بچہ بھوک سے بلبلا رہا ہو اور ماں دودھ دینے کے بجائے اس کے کپڑے بدل دے۔ بچہ گیلے بستر کے سبب بے چین ہو رہا ہو اور ماں منہ میں فیڈر ٹھونس دے۔ بچے کا پیٹ خراب ہو اور ماں اسے تھپک تھپک کے سلانے کی کوشش کرے ، بچے کے سر میں درد ہو اور ماں اسے ہاضمے کا سیرپ پلا دے تو کیا بچے کا رونا اور مسلسل بے چینی ختم ہو جائیں گے ؟
بلوچستان میں بھلے انتہاپسند ہوں یا آئین پسند۔ سب کا اتفاق ہے کہ جبری گمشدگیاں ایک سنگین مسئلہ ہیں۔ اس کا حل نئی سڑکیں اور ہنر مندی کے ادارے کھولنا نہیں۔ صوبے کے وسائل پر مقامی لوگوں کا کتنا حق اور حصے داری ہو یہ دوسرا بڑا سنگین مسئلہ ہے۔
اس کا حل ایک کے بعد ایک ترقیاتی پیکیج کا اعلان نہیں بلکہ بیٹھ کے بات کرنے اور سننے اور پھر جو بھی طے ہو اس پر بنا حیل و حجت مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ صوبے کو دیگر وفاقی اکائیوں کی طرح ایک نارمل جمہوری قیادت درکار ہے۔ اس کا حل ریورس انجینئرنگ تو بالکل بھی نہیں ہے۔
ملک کو تیسرا اور شاید سب سے سنگین درپیش مسئلہ موجودہ سیاسی عدم اطمینان اور اتھل پتھل ہے۔ اب سے پہلے تک سیاسی لڑائی سیاسی شخصیات اور جماعتوں تک محدود تھی۔لیکن اب اس گولہ باری کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور معاملہ گالم گلوچ اور غدار سازی سے بڑھ کے فوجی قیادت ، اعلیٰ عدلیہ ، الیکشن کمیشن ، پارلیمنٹ اور آئین جیسے بنیادی ستونوں کو ہلانے کی کوششوں تک آ چکا ہے۔ لڑائی کی زد میں اب مکین ہی نہیں مکان بھی آ رہا ہے۔ کسی کو پرواہ نہیں کہ چھت گری تو ملبے کے نیچے کون کون دبے گا۔
لڑائی اب کچھ دو کچھ لو ، کچھ اپنی کہو کچھ ہماری سنو کی حدود سے ” یا تم ہمارے ساتھ ہو یا پھر غدار ہو“ کی سرحدوں میں داخل ہو چکی ہے۔ سنا ہے اس اسٹیشن سے آگے گھنا جنگل ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ پٹری کہاں لے جائے۔
یہ وہ بحران ہے جو ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر کوئی سیاسی و قانونی و عسکری افلاطون کنٹرول نہیں کر پائے گا۔ آئین اس سیلاب کے آگے آخری بند ہے اور یہ بند بھی ہل رہا ہے۔ جس انجینئر نے اس بند کا پلان اے بنایا تھا وہی بتا سکتا ہے کہ پلان بی اگر ہے تو کہاں رکھا ہے۔
یہ وہ بحران ہے جو بے قابو ہوگیا تو ٹی ٹی پی ، مذہبی انتہاپسندی اور بلوچ بے چینی بچوں کا کھیل نظر آئیں گے۔ اور آپ کا خیال ہے کہ یہ بحران صرف ریاستی حدود میں ہی رہے گا اور ہمسائے اس آگ پر اپنے ہاتھ نہیں تاپیں گے۔جو دوست ہیں وہ یونہی دوستی نبھاتے رہیں گے اور آپ کا اقتصادی و سفارتی بوجھ پہلے کی طرح اٹھاتے رہیں گے ؟
بے اعتدالیاں پر سطوت سلطنتِ روما سے لے کر پرشکوہ سوویت ایمپائر تک سب طرم خانوں کو کھا گئیں تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں ؟ مگر ان ایمپائرز اور آپ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ان سب نے اپنے منہ سے بڑا نوالہ لے لیا تھا اور جب تک احساس ہوا تب تک گلا چوک ہو چکا تھا۔آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنے زعم کے فرش پر نیند کی کیفیت میں چلے جا رہے ہیں اور آگے کوئی دیوار بھی نہیں روکنے کے لیے۔
ذرا تصور تو کریں اس تماشائی دنیا کا جو بائیس کروڑ کے ایک ملک کو نیند میں چلتا دیکھ رہی ہو ؟
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
( جون ایلیا )
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر