نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سالگرہ اور طوق و دار کا موسم (دل میں سنبھالی نوٹ بک سے)|| حسن مجتبیٰ

بھٹو کے ایصال ثواب میں مجالس عزا و غائبانہ جنازہ نمازیں بھی قابل تعزیر تھیں۔ لیکن پھر بھی اننت ناگ و بارہ مولا سے لے کر بدین اور بھیرہ تک پڑھی گئیں اور فرش عزا بچھائی گئی تھیں۔

حسن مجتبیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 6 جنوری 1971 کی سرد رات تھی۔ میں دس سال کا تھا اور اپنے گھر کے ہال میں اپنے ابا کے ساتھ بخارے (فائر پلیس) کی آگ کے پاس بیٹھ کر اخبار مساوات (شاید محمد حنیف رامے کی زیر ادارت) کا 5 جنوری 1971 کا شمارہ پھیلائے بیٹھا ‘کچہری’ (مجلس) کر رہا تھا۔ یہ شمارہ ذوالفقار علی بھٹو کا بلیک اینڈ وائیٹ سالگرہ ایڈیشن تھا۔ بھٹو اور بھٹو فیملی کی کئی تصاویر چھپی تھیں جو ہم باپ بیٹا پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو کی بچپن کی بوائے سکائوٹس والی تصویر اور ایک برکلی کیلیفورنیا میں دوران تعلیم والی تصویر مجھے سب سے اچھی لگی تھیں۔ ایک تصویر اس کی اپنے والدین کے ساتھ بھی تھی۔ ان دنوں میرے ابا آخری بار پی پی پی ووٹر (کہ اس نے پھر کبھی پی پی پی کو ووٹ نہیں دیا) اور میں ایک ننھا جیالا تھا۔ جسے اس کے شہر کے لوگ (جن میں زیادہ تر بھٹو اور اس کی پارٹی کے مداح تھے) ‘مجاہد’ کہا کرتے۔

اس جنوری کی سرد رات اچانک میرے گھر کے باہر محلے میں ایک شور مچ گیا۔ لگتا تھا کوئی ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہو۔ ابا نے کہا "جا کر دیکھو تو باہر کیا ماجرا ہے؟” میں نے کچھ پس و پیش کی لیکن بابا کے تھوڑے سے اصرار پر میں شور کا معلوم کرنے گھر سے باہر چلا گیا۔ گھر سے بمشکل چند سو قدموں پر جا کر دیکھا کہ میرے پڑوسی تحصیلدار کی اوطاق ( بیٹھک جو کہ جوئے کی ٹکری یا اڈا بنی ہوتی تھی) پر جھگڑا ہو رہا تھا۔ میں بھی اوطاق جو کہ اوپر چند سیڑھیوں پر بنی ہوئی تھی سے ذرا ہٹ کر سامنے سرکاری نلکے کے پاس کھڑے ہو کر تماشہ دیکھنے محلے کے دیگر بچوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ پڑوسیوں کا حسب معمول ایک ہجوم جمع تھا۔ تحصیلدار اور اس کے سالے ایک طرف اور اس کا بھائی دوسری طرف گتھم گتھا تھے۔ فری سٹائل لاتیں گھونسے گالی گلوچ چل رہے تھے۔ اچانک کوئی کانچ کی چیز آ کر جہاں میں کھڑا تھا وہاں دیوار سے ٹکرا کر لگی اور مجھے لگا میری ایک آنکھ میں چمکتی کوندتی بجلی آ کر لگی ہے۔ میں انتہائی درد سے بلبلا اٹھا اور آنکھ سے خون بہنے لگا اور تقریباً بیہوش ہو چلا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا یہ چائے کی ساسر یا چائنہ پلیٹ تھی جو تحصیلدار کے بھائی نے اپنے بھائی اور سالوں کے چنگل سے خود کو چھڑاتے ہی اٹھا کر ان کی طرف پھینکی جو ان کے بجائے جس دیوار کے نیچے میں کھڑا تھا اس سے ٹکرائی اور اس کے ٹکڑے میری آنکھ میں جا کر لگے۔

بس پھر مجھ پر اور میرے گھروالوں پر جو بیتی سو بیتی لیکن میرے گھر والوں سمیت تمام شہر میں لوگوں نے کہا اس کو نظر لگ گئی ہے۔ جب سے اس نے ذوالفقار علی بھٹو کے جلسے میں نظم پڑھی تھی۔ آج تک اس زمانے سے اب تک زندہ لوگ جن کو میرے ساتھ ایسا ذاتی حادثہ یاد ہے اس کو ‘نظر’ سے تعبیر کرتے ہیں۔

ہوا یہ تھا کہ اس سے بمشکل ایک ماہ قبل قبل 1970 کے عام انتخابات کے انعقاد سے چند روز پہلے ذوالفقار علی بھٹو میرے شہر میں اپنی انتخابی مہم کے جلسہ عام سے خطاب کرنے آیا تھا اور میں نے اس کے جلسے میں پتہ نہیں کس کی لکھی نظم  جو سندھی روزنامہ ‘ہلال پاکستان’ میں شائع ہوئی تھی ایک ولولہ انگیز انداز میں پڑھی تھی:

“مرحبا صد مرحبا شان گلستان ذوالفقار
مرحبا اے شمع زینت فروزاں ذوالفقار”

سب نے کہا ”سوہنے لڑکے کو بھٹو کے جلسے میں نظم پڑھنے پر نظر کھا گئی”۔

محلے کی بات تھی یا سامنے والے تحصیلدار اور اس کا بھائی تھے، میرے ابا نے میری آنکھ پر ضرب کی کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔

میں حیدرآباد میں زیر علاج رہا۔ اپنے وقت کے مشہور ماہر امراض چشم ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر نے میری آنکھ کے دو آپریشن کیے۔ افسوس صد کہ کئی سال ہوئے کہ ایسے فرشتہ سیرت ڈاکٹر عقیل کو قتل کر دیا گیا کہ ان کا تعلق احمدی عقیدے سے تھا۔

ہاں، تو دوران علاج بھی میں کہ ٹھہرا ننھا جیالا۔ مکمل سیاسی بچہ۔ میری ایک آنکھ پر سفید پٹی بندھی رہتی لیکن بابا مجھے روز اخبارات پڑھ کر سناتے۔ بھٹو یحییٰ خان کی لاڑکانہ میں شکار کی دعوت اور مذاکرات۔ جنرل پیرزادہ، جنرل عمر۔ سندھ کا گورنر رحمان گل اور اس کا دورہ سندھ اور اس کا نافذ کرہ کوٹا سسٹم۔

ان دنوں وہ توے یا گرامو فون والا سندھی گیت بہت مشہور ہوا تھا:

جیے بھٹو سدا جیے
ذوالفقار علی بھٹو سائیں
سدائیں جیے

مجھے یاد ہے میں آنکھ کے ایکسرے کو ایمبولنس میں سول اسپتال جا رہا ہوں لیکن راستے میں لگے پی پی پی کے امیدواروں کے سہ رنگے بینر جو اب بھی ہیرآباد اور ٹنڈو ولی محمد جیسے علاقوں میں آویزاں ہیں پڑھ رہا ہوں۔ لال بن یوسف۔ میر اعجاز علی تالپور۔

ان دنوں کی بلیک اینڈ وائیٹ فلم کی طرح چلنے لگی ہے:

سابقہ مشرقی پاکستان، نام نہاد بنگلہ دیش، بھٹو کا کتابچہ (جسے میں کتا، بچہ پڑھا کرتا)۔ ان دنوں ایک دوسرے کے مخالفین دو نعرے بڑے مشہور ہوئے تھے:

"پاکستان کے تین شیطان- بھٹو بھاشانی مجیب الرحمان”

اور

"پاکستان کے تین یزید مودودی نصراللہ اور فرید”

یحییٰ خان کے وہسکی میں ڈوبے لہجے میں قوم سے خطاب "یہ جنگ کھیتوں میں لڑی جائے گی۔ یہ جنگ کارخانوں میں لڑی جائے گی۔ دشمن جہاں بھی ملے اس کا پیچھا کرو اور اسے تہس و نہس کر دو”۔ پھر آدھا کلمہ اور آدھا ملک۔ ‘اُدھر تم، اِدھر ہم’ والی جعلی سرخی بھٹو سے منسوب عباس اطہر شاہ نے کیا ڈالی گویا آج تک ملک کے اکثر شہری مڈل کلاس کے حلق کے ذریعے جا کر نہ جانے کہاں سے اب تک نہیں نکلی۔ لیکن یہ تو میں نے بھی سنا جب بھٹو نے لاہور کے جلسے میں کہا تھا "اگر میرا کوئی پارٹی کا رکن ڈھاکہ گیا تو میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا”، پھر "خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا”۔ بھٹو نے ڈھاکہ سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر کہا۔

Zulfikar-Ali-Bhutto

پھر میں نے بھٹو کا 20 دسمبر کو ملک کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا منصب سنبھالتے قوم سے خطاب پڑوسیوں کے مرفی ریڈیو پر سنا۔ "پولیس کی لاٹھیوں کے نشانات آج تک میری پیٹھ پر موجود ہیں”۔ "آؤ کہ ایک نئے پاکستان کی تعمیر کریں۔ ایک نیا پاکستان۔ قائد اعظم کا پاکستان”۔

میرا کلاس فیلو اور دوست پروانہ عبدالعزیز بھٹو مجھے مبارکباد دینے آیا تھا۔ اس صبح جب دسمبر کی خوشگوار برسات ہوئی تھی اور بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کی عنان اقتدار سنبھالی تھی۔ یہی پروانہ عبدالعزیز بعد میں ان 9 جیالوں میں سے تھا جنہوں نے بھٹو کے قید ہونے اور دوران مقدمہ اس کی رہائی کے لئے خود کو آگ لگائی تھی۔ پروانے عبدالعزیز کو بچا لیا گیا تھا۔ پر تب سے اس کے نام کے پیچھے پروانہ لگا دیا گیا تھا۔

تو پس عزیزو، میرا بھٹو کے ساتھ عشق اس دن کافور ہو گیا جس دن الفتح جریدے کے ٹائٹل پر کراچی میں لانڈھی کورنگی کے صنعتی علاقوں میں مزدوروں پر بہیمانہ پولیس فائرنگ اور آپریشن کی تصاویر خون کے چھینٹوں والے رنگوں سے شائع ہوئیں۔

"اے رہبر ملک و قوم بتا یہ کس کا لہو ہے کون مرا”

لیکن جیسے جام ساقی نے کہا تھا: "5 جولائی 1977 سے پہلے والے بھٹو اور بعد والے بھٹو میں محض رات دن کا فرق نہیں تھا۔”

1978 کی 5 جنوری آنے دو۔

یہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد ہے۔ ایک پروگرام کی نشریات چلتے آخری 5 منٹ باقی بچتے ہیں اور سٹاف آرٹسٹ انور سولنگی کو نشر کرنے کو کوئی چیز نہیں ہے کہ محض اتفاق سے فلم ‘زندگی’ کا گانا براڈ کاسٹ کرتا ہے:

جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے،
سب نے یہ شور مچایا ہے،
سالگرہ کا دن آیا ہے

ضیا الحق کا مارشل لا۔ گانا کیا چلنا تھا۔ بس ایک شور مچ گیا۔ سٹیشن پروگرام مینیجر اسحاق جان سرہندی نے سٹاف آرٹسٹ انور سولنگی کی شکایت کی۔ اس پر انکوائری چلی، انور سولنگی نوکری سے برطرف ہو گیا۔ جی ہاں، وہی انور سولنگی جو پاکستان ٹیل یوژن پر بعد میں سندھی اور اردو کا چمکتا ستارہ اداکار بنے۔ اسی دن حیدرآباد میں عبدالشکور منشی پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان سندھی روزنامے کے پہلے سابق مدیر نے ساتھی وکلا کے ساتھ بھٹو کی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ لال بخش میمن و دیگر ساتھی وکلا گرفتار ہوئے، جیل گئے، گاڑی کھاتہ میں حیدرآباد میں کن لوگوں نے سندھ یونیورسٹی کی پوائنٹ بس کو آگ لگا دی۔

تلک چاڑہی پر نوجوانوں نے اسی شام جلوس نکالا۔ یہ نوجوان تھے جن کی نسل نے بمشکل بھٹو دیکھا تھا۔ کوڑے، چھاؤنیوں میں تشدد۔ دار و رسن و افغانستان، دمشق کا سفر موت کا سفر۔

سعیدہ گزدر نے اپنی کہانی ‘کوئل اور جنرل’ میں کچھ اس طرح لکھا: میجر نے میز پر پڑے گلدستے کے پھولوں کو دیکھا اور جنرل سے  کہا "سر نہ جانے ان دبلے پتلے لڑکوں کو کوڑے لگانے پر ان میں  اتنا خون کس طرح آ جاتا ہے۔ بالکل ان سرخ پھولوں جیسا”۔ انہی دنوں سندھی ناول نگار منیر احمد مانک نے اپنے ناول ‘ساہ مٹھ میں’ (سانس مٹھی میں) میں لکھا: میں بالکونی سے دیکھ رہا ہوں ٹکٹکی میدان میں سجی ہے۔ ہر پانچ منٹ کوڑوں کے بعد ڈاکٹر آ کر نبض دیکھتا اور کہتا یہ ہے انسانیت۔

ان دنوں یہ ناول بھارت میں شائع ہوا تھا اور اس کے پش لفظ میں سندھ و ہند میں معروف سندھی فکشن نگار موہن کلپنا نے لکھا: پاکستان جیسا ایٹمی ملک بھی اس ناول کا دھماکہ نہیں سہہ سکا اسی لئے مانک کا یہ ناول ہندوستان میں شائع ہو رہا  ہے۔

انٹرنیشنل ہاسٹل سندھ یونیورسٹی کا کمرہ اور میرے کچھ دوست مانک کے اس ناول کی پہلی قسط اپنے زیر زمین جریدے میں چھاپنے پر بحث کر رہے ہیں۔

اس سے قبل، جب ابھی بھٹو اقتدار میں نہیں آیا تھا: ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے سندھ کے گوٹھوں میں انتہائی مقبول پروگرام ‘جمہور جو آواز’ یا ‘فتح خان کی کچہری’ جو اپنے دور کا مقبول ترین صداکار صالح محمد شاہ بطور فتح خان پرفارم کیا کرتا تھا، کی نشریات کے دوران  ایک سٹاف آرٹسٹ محمد خان لغاری ‘جیے بھٹو’ کا نعرہ لگاتا ہے۔ اپنی نوکری گنوا بیٹھتا ہے۔ جب بھٹو اقتدار میں آیا تو بھٹو کے خاص اور چہیتے ملازم نور محمد مغل عرف نورو نے محمد خان لغاری کو بھٹو سے ملوایا اور اسے ساری اس کی بپتا سنائی۔ محمد خان لغاری کو بھٹو کے احکامات پر بحال کر کے پروڈیوسر بنا دیا گیا۔

Zulfikar-Ali-Bhutto-with-General-Zia

1970 کے ہی انتخابات کے دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو بذریعہ ٹرین سفر کر رہے تھے تو ان دنوں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید غلام مصطفیٰ شاہ نے حکم جاری کیا کہ سندھ یونیورسٹی کا کوئی بھی ملازم ذوالفقار علی بھٹو کے استقبال کو جامشورو ریلوے سٹیشن پر نہیں جائے گا۔ سندھ کے نامور مصور اور قلندر طبعیت آدمی ظفر کاظمی جو ان دنوں این جے وی ہائی سکول کراچی سے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ملازم تھے اور سندھ یونیورسٹی کالونی میں اپنے سرکاری گھر میں اپنے خاندان سمیت رہائش پذیر تھے، بھٹو کے استقبال کو گئے۔ اس کی پاداش میں وائس چانسلر سید غلام مصطفیٰ شاہ نے ظفر کاظمی سے سرکاری گھر خالی کروایا تھا جس گھر پر پی پی پی کا ترنگا بھی لہراتا تھا۔ یہ بات زبان زد عام تھی اور مجھے خود ظفر کاظمی نے بتائی تھی۔ ظفر کاظمی اب حیات نہیں لیکن کل پھر میں نے ان کے نیو جرسی میں رہنے والے داماد اور سندھی زبان کے جدید نظم کے شاعر جانی ابڑو سے دہرائی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ یہی سید غلام مصطفیٰ شاہ تھے جن کو بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایم این اے کا ٹکٹ دے کر منتخب کروایا، اور پھر وفاقی وزیر تعلیم بھی مقرر کیا تھا۔ ظفر کاظمی کون تھے؟ وہ جنہوں نے انڈس میوزیم کی بنیاد رکھی۔ وہ الن فقیر کے دودھ شریک بھائی تھے۔ امر جلیل کے دیرینہ لنگوٹیے دوست۔ امر جلیل کے ایک افسانے میں وہ مرکزی کردار بھی ہیں۔

ضیاالحق کا مارشل لا ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے سٹیشن پر ان کے سینیئر عملدار معروف سندھی ادیب آغا سلیم اور ارشاد پٹھان و دیگر ساتھی آپس میں حالت حاضرہ پر نجی گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ بات ایک سینیئر پروڈیوسر مارشل لا اختیاریوں کو رپورٹ کرتا ہے۔ آغا سلیم، ارشاد پٹھان اور دیگر ساتھی گرفتار ہو کر تین ماہ تک جیل جاتے ہیں۔

تو قصہ مختصر، ملک پر ضیاالحق بیٹھا ہے۔ بھٹو ابھی پھانسی نہیں چڑھا۔ پر ان کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

حیدرآباد میں ایک نوجوان جام حامد علی سہتو ٹھنڈی سڑک پر فوٹو سٹیٹ کی دکان پر آتا ہے اور وہ وہاں سے بھٹو کی کتاب ‘اِف آئی ایم اسیسینیٹڈ’ (اگر مجھے قتل کیا گیا) کی فوٹو کاپی کرواتے پکڑا جاتا ہے اور فوجی عدالت سے اسے سزائے قید ہوتی ہے۔ یہ اکثر وہ نوجوان تھے جنہوں نے نہ تو اس سے قبل کبھی بھٹو کو دیکھا تھا نہ ہی سیاست میں تھے۔

یاد ہے بھٹو پھانسی چڑھایا جا چکا تو کئی گھروں میں چولہا نہیں جلا۔ اس کے سوئم پر میرے دوست ذوالفقار شاہ پپو شاہ والوں کی امام بارگاہ میں زیر زمین مجلس عزا منعقد ہوتی ہے کیونکہ بھٹو کے ایصال ثواب میں مجالس عزا و غائبانہ جنازہ نمازیں بھی قابل تعزیر تھیں۔ لیکن پھر بھی اننت ناگ و بارہ مولا سے لے کر بدین اور بھیرہ تک پڑھی گئیں اور فرش عزا بچھائی گئی تھیں۔

About The Author