ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی میں راشد نے پہاڑوں میں محبت کی داستان کا راگ چھیڑا مگر راستہ طے ہو جانے اور لوگوں کے کانوں کے مخل ہونے کے سبب انجام یا قبل از انجام طے نہ ہو پایا کہ آیا عاشق یا معشوق یا دونوں کو قتل ہونا ہے، علاقہ بدر یا سرخرو۔۔۔۔۔ البتہ اس مداخلت سے مستفید ہوتے ہوئے ہم نے سڑک کے کنارے گاؤں کی دکان سے گلابی رنگ کے بوسیدہ سے کاغذ سے بنا ایک ٹوائلٹ پیپر رول ضرور لے لیا جس کے بعد میں ناک بند کیے گاؤں کے نالہ کا پل عبور کرکے راشد کے ہمراہ بمشکل سیڑھیاں چڑھ کے چوبارے پر پہنچا۔
جانے سے پہلے جب ہم چاندنی میں چوبارے کے صحن میں بچھائی چارپائی سے اٹھے تھے تو کسی نے کہا تھا کہ کمرے میں بستر دیکھ لیں۔ ساتھ ساتھ دو بستر لگائے گئے تھے۔ میں اکیلا سونا پسند کرتا ہوں بلکہ دوہرے پلنگ پر بیوی کی موجودگی بھی بمشکل ہی برداشت کر پایا عمر بھر مگر یہاں مہمان تھا چنانچہ زبان کیا کھولتا۔ راشد کے والد ہی بولے کہ طیب اور ناصر آپ کے ساتھ ہونگے۔ میں نے ہمت کرکے پوچھا کہ میرے ساتھ کیوں تو بولے نہیں وہ باہر برآمدے میں ہونگے۔
جب لوٹے تو میں نے راشد سے کہا کہ میرے ساتھ کمرے میں کوئی نہ ہو۔ اس نے کہا کہ کوئی نہیں ہوگا۔ میں نے پوچھا تو یہ دو بستر کیوں؟ کہنے لگا ایک کیے دیتے ہیں۔ اس کے بھائی نے گدا اور چادر ہٹا دیے اور کمبل صوفہ پہ رکھ دیا۔ راشد کے کہنے پر اس نے دوسرا گدا بھی میرے گدے کی چادر اٹھا کر اس پہ بچھا دیا اوپر چادر پھر سے ڈال دی تاکہ زمین نہ چبھے۔
پھر راشد گھر چلا گیا۔ خاموشی ہونے پر میں دیسی بیت الخلاء میں فراغت پانے کی مہم پہ کمرے سے نکلا تو باقی لڑکے شاید میرے کمرے سے ملحق اسی طول و عرض کے برآمدے، جسے برآمدہ نہیں کہا جاسکتا اور جہاں چار صوفہ کرسیوں کے علاوہ جو سامنے کی دیوار کے ساتھ جوڑ کے دھری گئی تھیں سے کافی ہٹ کر ادھر ادھر کی دیواروں کے ساتھ وہ خاص چھدرے بان والی دو چارپائیاں بچھی تھیں، کے دوسرے طرف بظاہر اس کمرے کے جو مجھے دیا گیا تھا سے بڑے کمرے میں سونے چلے گئے تھے۔
ٹوائلٹ میں کسی طرح اکڑوں بیٹھ تو گیا۔ فراغت دشوار، کچھ ہوئی بھی تو یوں جیسے براز کے اوپر بیٹھا ہوں۔ عادت بھی عجیب شے ہے جیسے پندرہ برس سے قلم کی بجائے کی بورڈ سے لکھنے کی وجہ سے قلم تھامنا دشوار لگتا ہے اسی طرح یورپی کموڈ استعمال کرنے کی چالیس سالہ عادت نے گھٹنوں کو اکڑوں بیٹھنے سے بیکار کر دیا ہے، اوپر سے عمر بڑھنے کی وجہ سے گھٹنوں میں عروق الشعری کا درد۔ پہلے تو طہارت کی سمجھ نہ آئے۔ جیسے کیسے کی مگر اٹھنا اونٹ کا پہاڑ کی اترائی جیسا رہا۔ بلند ہو کر ایک منٹ تک گھٹنوں میں درد کے کرب اور چڑھی سانس کو سنبھالتا رہا۔
میں نے ویگن سے اتر کر اسحاق کی کار میں بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ہی راشد سے کہا تھا کہ اگر گاؤں میں دستیاب نہ ہوں تو اس قصبہ سے ہی ہینڈ واش ( یہ نام پاکستان میں ہی ہے ویسے بھی واش ہینڈ ہونا چاہیے تھا، دوسرے ملکوں میں تو اسے لیکویڈ سوپ کہتے ہیں ) ٹوائلٹ پیپر رول اور ٹشو پیپر خرید لے چلتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ آج کے دور میں ہر جگہ ہر شے دستیاب ہے۔ رات کو رف پیپر کا ٹوائلٹ پیپر تو مل گیا تھا مگر ہینڈ واش تھا ہی نہیں۔
باتھ روم سے نکل کر واش بیسن پہ ہاتھ دھونے کی کٹھنائی تھی۔ ایک تو وہی صابن کی پرانی چکتی تھی جس سے نجانے کن کن نے اپنے اپنے گندے ہاتھ دھوئے ہونگے۔ اس سے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں ہاتھ دھوتا۔ دوسرا میرے لیے لایا گیا نیا صابن کا کیک تھا جسے میں غلیظ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ بائیں ہاتھ پہ پانی بہا کر کے دائیں ہاتھ سے صابن تھام بائیں ہتھیلی کے آخر پہ ملا۔ پھر اسی ہاتھ کی انگلیوں سے صابن پھیلا اور ایک ہی ہاتھ سے مل کے ہاتھ دھو اس الجھن سے نکلا۔
سونے کے لیے چوکور تکیے کی بجائے گاؤ تکیے چھوڑ گئے تھے۔ پہلے تو لیٹ گیا مگر غیر آرام دہ۔ چوکور تکیے باہر چارپائیوں پہ پڑے تھے مگر وہ میلے تھے چنانچہ میں نے صوفہ پر دھرے دوسرے کمبل کو تہہ کرکے تکیہ بنایا اور کچھ دیر کے بعد نیند نے آ لیا۔
تین بجے راشد نے آ کر سحری کھانے کو اٹھایا۔ میرے بستر کو ایک جانب کرکے راشد کے بھائی طیب نے دستر خوان بچھایا۔ سحری کا سامان چن دیا جن میں رات والے سالنوں کے ساتھ ایک ایک فرائی انڈا اور بڑے بڑے پراٹھے اضافی تھے مگر وقت کی کمی کے سبب چائے کھانے کے دوران ہی پیالیوں میں انڈیل دی گئی تھی۔
سحری تمام ہونے پر راشد یہ کہہ کر کے کہ ہم گیارہ بجے علاقہ دیکھنے کو نکلیں گے ، گھر چلا گیا۔ مجھے تلاوت قران کرتے اور نماز ادا کرتے کوئی پانچ بج گئے۔ پہلے ساتھ والے گھر کے مرغ نے بانگ دینا شروع کی پھر پرندے چہکنے لگے۔ میں کوئی ساڑھے سات بجے ہی بیدار ہو گیا۔ انٹر نیٹ چلتا نہیں تھا کیونکہ میرے پاس جاز اور یوفون کی سمیں تھیں جبکہ یہاں زونگ اور ٹیلی نار چلتے تھے۔ راشد نے رات متعلقہ سم لا کے فون میں نصب کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اپنی عادت کے مطابق بھول گیا تھا۔
دس بجے سے میں نے راشد کو فون کرنے شروع کیے مگر اس کا فون بند مل رہا تھا۔ میں نیچے اترا تاکہ شیونگ کریم خرید سکوں مگر نیچے والی دکان بند ملی بس کچھ بچے گلی میں آ جا رہے تھے۔
کیا کرتا۔ صابن کی مدد سے شیو بنائی۔ مجھے جلدی نہانے کی عادت ہے۔ پانی بھی ٹھنڈا تھا کیونکہ ٹنکی کا تھا ویسے تو دھوپ خوب چمک رہی تھی اور حدت بھی تھی۔ واش بیسن کے شیڈ پہ بڑا تولیہ دھرا دیکھا۔ میں نے رات راشد سے کہا تھا کہ نہانے کو صاف بڑا تولیہ منگوا دو۔ شک پڑا کہ اسی نے منگا کے رکھوایا ہوگا، پھر سوچا ممکن ہے دوسرے کمرے میں سوئے لڑکوں میں سے کسی کا ہو۔
گیارہ تو بج ہی چکے تھے۔ اس کمرے کا در کھٹکھٹایا۔ مگر لگتا تھا جیسے کمرے میں کوئی ہو ہی نہ۔ سب گہری نیند سوئے ہوئے تھے چنانچہ مجاہدہ کرنے کی ٹھانی۔ پہلے بیت الخلاء کی صعوبت اور بیٹھنے اٹھنے کی اذیت سے گذرا۔ پھر وہی میلے کناروں والی بالٹی اور اس سے زیادہ میلا مگا دھویا اور بالٹی بھرنے کے لیے نل کھول کر جس میں سے پانی کی ہلکی سی دھار گرتی تھی، کمرے میں لوٹ گیا۔ دس منٹ بعد واپس گیا، بالٹی بھر گئی تھا۔ میلے کپڑوں پر اپنے کپڑے اتار کر ٹانگے جن کے اوپر وہی منہ صاف کرنے والا تولیہ ٹانگا۔ صابن رکھنے کو دوسرے کونے میں پڑی ڈھکنے دار بالٹی کھینچ، ڈھکنے پر صابن دھرا اور اشنان سے فارغ ہو کے، اسی تولیے سے بدن پونچھ، رات پہنے کپڑے پھر سے پہن کے باہر نکلا اور کمرے میں جا، صاف شلوار قمیص پہن کر کے بیٹھا راشد کا انتظار کرنے لگا۔
جاری ہے
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر