ملک خلیل الرحمان واسنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیام پاکستان سے لیکر اب تک راجن پورکے 25 لاکھ سے زائد ہجوم یعنی عوام کو بھی کئی جمہوری ادوار،مارشل لاء دیکھنے کو ملے چاہے جمہوری ادوار ہوں یا فوجی ڈکٹیٹروں آمروں کے دور ہوں یا مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی کی متعدد بار باریاں ہوں یاں تحریک انصاف کا بمشکل پونے چار سالہ دور حکومت ہو یا اب مسلم لیگ ن کی متحدہ اپوزیشن کی مکمل مدد و معاونت اور بقول عمران خان کے عالمی طاقتوں کی مدد و معاونت سازش و مداخلت سے تشکیل پانے والی تحریک عدم اعتماد کی صورت میں بننے والی حکومت جس میں یہاں کےمٹھی بھر چند سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشینوں جنہوں نے یہاں کے علاقہ مکینوں کو ہردور میں یرغمال بنائے رکھا اور آج بھی یہاں کے مکین ان سے مرعوب اور انکے یرغمال ہیں وہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہیں مگریہاں کی 25لاکھ سے زائد آبادی یعنی ہجوم / عوام سے سوال ہے کہ
ہر برسر اقتدار پارٹی کا حصہ مارشل لاء کے ادوار کاحصہ یہ سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشین ان 75 سالوں اور راجن پور کے ضلع بننے کے کم و بیش 43،44 سالوں میں یہاں کی 25 لاکھ سے زائد آبادی کے لیئے ماضی سے لیکر آج تک بھی کچھ نہ کرپائے……؟ جس سے یہاں کی محرومیوں اور پسماندگیوں کا خاتمہ ہوسکے حمزہ شہباز پنجاب کے 21 ویں وزیراعلی منتخب ہوچکے مگر بدقسمت پنجاب کا آخری ضلع راجن پور چاروں صوبوں کا سنگم جہاں دریا،پہاڑ،جنگل،ریگستان،معدنی ذخائر،کھیت،کھلیان،نہریں،جفاکش ،محنتی وفاکاپیکر لوگ اور سب سے بڑھ کر 15 لاکھ سےزائد نوجوان عمر پر مشتمل آبادی وہ بھی ٹیلنٹ سے بھر پور مگر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے سبب وسائل ہونےکے باوجود مسائل کاآج بھی شکار جس کا کوئی بھی پرسان حال نہیں جہاں چوکوں چوراہوں کی تزئین وآرائش کے لیئے فنڈز میسر ہیں مگر تعلیم کے لیئے نہیں …… اور سب سے بڑھ کر ظلم کہ
لاکھوں انسانوں،جانداروں،کو پینے کا پانی فراہم کرنے والی اور ہزاروں ، لاکھوں ایکڑ رقبوں کو کاشت کے لیئے پانی فراہم کرنے والی ڈی جی کینال،داجل کینال،لنک تھری کینال،قادرہ کینال آج بھی سالانہ نہ ہوسکیں آج بھی سہ ماہی یا ششماہی بنیادوں پر پانی کی فراہمی آخر کیوں…..؟ جبکہ یہی سے کئی منتخب نمائندے مختلف ادوار میں وزیر آبپاشی رہے؟ زیر زمین پانی کڑوا،مضرصحت واحد ذریعہ یہی کینالزمگر…….. اگر ٹیوب ویلز کی بات کریں تو بجلی اور ڈیزل مصنوعات کے ریٹس عام آدمی کی قوت خرید سے کہیں زیادہ سولر سسٹم اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی بھی آسان نہیں…..
روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سفر کرتے لوگ ہزاروں کی تعداد میں مسافروں اور مال برداری کے لئے قاتل سنگل خونی روڈ انڈس ہائی وے روجھان تا ڈی جی خان سفر کرتی گاڑیاں اور آئے روز حادثاتی دہشت گردی کاشکار ہوتے عوام یعنی کیڑے مکوڑے جن کی محتاط اندازے کمیطابق سالانہ اوسط 12 سو سے 14 سو کے قریب تڑپتی لاشیں کٹے پھٹے جسم اس سے کہیں زیادہ زخمی اور زندگی بھر کے لیئے معذور ہوتے لوگ لاکھوں کروڑوں کے مالی نقصانات اور سب سے بڑھ کر انتہائی قیمتی جانوں کاضیاع سابقہ دور میں وزیرمواصلات بھی اسی ضلع کےڈویژن ڈی جی خان سے مگر اسکے باوجود اسکو ون وے دو رویہ کیوں نہ کیا جاسکا آخر ایسی کونسی روکاوٹ ہے کہ بارہا متعدد بار جھوٹے وعدے ،دعوے،طفل تسلیاں،لولی پاپ مگر آج تک کیوں کچھ نہ ہوسکا…..؟ اور یہاں کے منتخب عوامی نمائندے ایم این اے ایم پی اے عوام کو بےوقوف بناتے ہوئے آج کل وزیراعظم عمران خان کو لاکر افتتاح کرارہے ہیں کہتے تھکتے نہیں تھے اور حکومت تبدیل ہوگئی اور عمران خان سابق وزیراعظم ہوگئے…….
صحت سہولیات کا یہ عالم ہے کہ نئے ہسپتال بننے کی بجائے پرانے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال کی حالت ابتر ہے دور جدید اور جدید سہولیات کے باوجود ریفر ہسپتال مشہور ہے بہترین قسم کے ٹراما سینٹر اور میجر آپریشن تھیٹر کی سہولت میسر نہیں بیماریوں کی جلد اور بہترتشخیص کے لئے مکمل طور پر فعال اور سہولیات وسٹاف سے مزیئن لیب تک موجود نہیں بہترین علاج معالجے کی فوری سہولت کےلیئے عام مریضوں اورزخمیوں تک کو بھی نشتر ملتان یا بہاول پور وکٹوریہ ہسپتال یا پھر رحیم یارخان کا رخ کرنا پڑتا ہے 200 بستر پر مشتمل مدر اینڈ چائیلڈ کیئر ہسپتال،نرسنگ کالج ، نرسنگ ہسپتال تاحال آج بھی صرف فائلوں تک محدود ہے.اسکا عملی قیام نامعلوم کب ہوگا. اور میڈیکل کالج کے قیام کے لیئے بھی کچھ ہوپائے گا یا نہیں….
ہر ضلع میں یونیورسٹی بنی یا یونیورسٹیوں کے سب کیمپس بنے مگر اس بدقسمت ضلع میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کے باوجود تخت لاہور اورتخت اسلام آباد کی بھر پور ذہنی و جسمانی غلامی کے ثبوت کے طور ہر اس یونیورسٹی کو اسلام آباد منتقل کردیاگیا مگر 25 لاکھ سے زائد ہجوم یعنی عوام کو اپنے مستقبل اور اپنے بچوں و بچیوں کے بہتر مستقبل کا ذرا بھی خیال نہ آیا ذرا بھی پروا نہ ہوئی اور ان مسلط شدہ اور ہمارے مقدر و نصیب پر جھاڑوپھیرنے والے سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشینوں سے اس ظلم اور تعلیمی قتل عام پر مقدر کالکھا سمجھ کر خاموش رہنے پر آج بھی بے بس و مجبورہیں ………..
پھر خدا خدا کرکے یونیورسٹی آف راجن پور/انڈس یونیورسٹی کے قیام کی بازگزشت سنائی دی اعلانات ہوئے مگر تین سال گزر گئے کریڈٹ / نام کی تختی ، میرے حلقہ علاقے میں تمھارے حلقہ علاقہ کے چکر میں عملی قیام اور سنگ بنیاد سے آج بھی محروم مگر فائلوں کی حد تک ہم خوش ہیں کہ بہت کام ہورہا ہے لیکن میرے وسیب کے نوجوان بچے بچیاں آج بھی ملک کے دیگر بڑے شہروں کے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے دھکے کھانے اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر قسم کی مشکلات مصائب آلام برداشت کرنے پر مجبور مگر یہ مٹھی بھر سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشینو جن کے بچے پیدا ہوتے ہی لکھ پتی،کروڑ پتی،ارب پتی فیکٹریوں،انڈسڑیوں اور کمپنیوں کے مالک اعلی عہدوں کے مالک اعلی سرکاری عہدے انکا مقدر اور اسکے برعکس میرے بدھلے،خدلے،ڈیوائے،نتھو،پتھو،نورن،پیرن کے بچے آج بھی مال مویشیوں کے ریوڑ ہانکنے پر مجبور اور مجبوریوں بے بسیوں لاچاریوں کی تصویربننے پر مجبور اور آج بھی اکتفاء کیئے ہوئے ہیں کہ شاید ہمارا مقدر یہی لکھا گیا اور ان ہی کا مقدر ہے کہ یہ چند سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشین ہم پرہر دور میں حکمرانی کریں اور مسلط رہیں…..
حالانکہ ڈی جی خاں میں غیر ملکیوں کا قیام اور کھلے عام آنا جانا مشکل ہے تو راجن پور میں کیوں نہیں ایک عالمی سطح کی انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کیجاتی یہاں پر غیر ملکی معاشی مستحکم بزنس مین اور کاروباری اداروں کو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لیئے کیوں نہیں متوجہ کیاجاتا انہیں کیوں نییں مواقع فراہم کیئے جات یہ صرف لاہور،کراچی،اسلام آباد،لاہور،فیصل آباد اور گجرانوالہ کا ہی مقدر کیوں ہے ؟اور یہاں کے نوجوان مڈل ایسٹ،عرب و خلیجی ممالک کی ریاستوں میں نوکر بننے پر کب تک مجبور رہیں گے اور ہم کب تک دوسری اقوام اور ممالک کے غلام بننے پر مجبور ہوتے رییں گے حالانکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے بہترین عالمی معیار کی کپاس ہمارے ضلع میں کاشت ہوتی ہے،گوشت کی عالمی منڈی کےلئے چھوٹے اور بڑےگوشت کی پیداواری صلاحیت ہم رکھتے ہیں جانوروں کی افزائش نسل کے لیئے اور مویشیوں کو پالنے کے لئے یہاں پر بہت بڑے مواقع ہیں،ہینڈ میڈ کرافٹ بہت بڑا فن ہے خوردنی تیل کے لئے سرسوں کی بہترین فصل اور سرسوں کاتیل یہاں کے قدیمی اور مثالی و روایتی اور سستےترین طریقوں سے تیار شدہ اپنی مثال آپ ہے،پوری عالمی مارکیٹ کے لئے تمباکو کی پیداوار کے لئے بھی یہ علاقہ مشہور ہے،لکڑی کے دیدہ زیب اور جداگانہ فرنیچر مٹی کے برتنوں کی تیاری سلائی کڑھائی میں اپنی مثال آپ یہ علاقہ اور نوجوان ٹیلنٹ سے بھر پور مگر پھر بھی ہم بنیادی سہولیات سے محروم کیوں………
مڑنج/ مرنج ڈیم کی تعمیر ایک خواب جس سے ہزاروں خاندانوں کا معاشی مستقبل جڑا ہے جس کی تعمیر سے لاکھوں ایکڑ بنجر رقبہ سیراب ہوسکتا ہے ہر سال لاکھوں کیوسک پانی ذخیرہ ہونے کیبجائے یا لاکھوں انسانوں ، جانداروں کی پیاس بجھانے کی بجائے سمندر کی نظر ہوجاتا ہے حالانکہ اس ڈیم کی تعمیر سے کئی سو میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے جو اس علاقے کے لئے معاشی گیم چینجر اور ملکی معیشت کو استحکام دینے اور یہاں کے احساس محرومی کو ختم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتا ہے مگر بدقسمتی سے یہاں کے سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشین نامعلوم اس طرف توجہ دینے کیوں قاصر ہیں…….
سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلند قدرتی حسن سے مالا مال ٹھنڈک سے بھر پور انتہائی صحت افزاء مقام اسلام آباد کے مری ڈی جی خان کے فورٹ منرو سے کسی بھی صورت کم نہیں مگر یہاں کے سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشین اور 25 لاکھ سے زائد ہجوم یعنی عوام اسے عملی طور پر سیاحتی مقام کا درجہ مکمل سہولیات دلانے سے محروم و مجبور کیوں…….. اگر عملی طور پر سیاحتی مقام کا درجہ دیا جائے مکمل سہولیات فراہم کی جائیں،پختہ سڑکیں،صحت،تعلیم،کاروباری سہولیات،ریسٹ ہائوسز کاقیام پینے کے پاک صاف میٹھے پانی کی فراہمی بجلی، سیرگاہیں ، تفریحی مقامات حکومتی اور پبلک و پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ہی فراہمی اور انکا قیام عمل میں لایا جائے تو ملک بھر سے سیاحت کے شوقین اور سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے افراد اور سیاح اس طرف کا رخ کریں گے جس سے تہذیب و تقافت اور سوچوں ،خواہشوں ضرورتوں اور ترجیحات کا تبادلہ ہوسکے گا اور ہم ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی فہرست میں شامل ہوسکے گیں،ٹی بی ایک مہلک بیماری ہے مگر اسکے بہتر علاج معالجہ اور صحت کی فراہمی کے لئے بہترین قسم کا سینی ٹورریم بھی قائم کیاجاسکتا ہے جوکہ مریضوں کو صحت فراہم کرنے کیساتھ ساتھ ملک و قوم کی ایک بہترین خدمت ہوگا………
علاقہ پچادھ کوہ سلیمان بنیادی انسانی ضروریات زندگی سے آج بھی محروم لاکھوں علاقہ مکین آج کےدور جدید کے باوجود پتھر کے دور کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں بارشیں نہ ہونے کے سبب خشک سالی کا سماں ہے انسان،جاندار،چرند،پرند اور جانور پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ٹوبھے،تالاب،چشمے،جوہڑ ،پانی کے ذخیرےخشک ہوچکے ہیں،کوہ سلیمان ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی اسطرف توجہ دینے سے شایدقاصر ہے متعلقہ قبائلی علاقہ کے پولٹیکل اسسٹنٹ بھی اس معاملے کو شاید نظرانداز کررہےہیں اس لیئے بہتر ہےکہ ضلع راجن پور کے علاقہ پچادھ تمن گورچانی اور کوہ سلیمان کے لیئے علیحدہ ماڑی ڈویلپمنٹ / پچادھ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ جہاں صورتحال یہ ہے کہ آج بھی انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں انکا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ بلوچ ہیں اور ہمارے سابق وزیراعلی پنجاب سردارعثمان بزدار بھی بلوچ تھے مگر یہاں کے اپنےبلوچ بھائیوں کےلئے ماسوائے زبانی جمع خرچ کے عملی طور پر شاید کچھ نہ کرسکے
ماڑی کیڈٹ کالج کا قیام آخر خواب کیوں کیا سرائیکی وسیب کا اتنا بھی حق نہیں ہے جوکہ مستحکم بلوچستان کی طرف بھی پہلا قدم ثابت ہوگا کیونکہ چند کلومیٹر کے فاصلے پر یہاں سے پنجاب اور بلوچستان کی سرحدیں ملتی ہیں.لاء ان آرڈر کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر ختم ہوجائے گا اور یہاں کے ملک و قوم کے دشمن عناصر اور گینگز کا عملی طورپر قلع قمع بھی ہوپائےگا جو کہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں…..
بلوچستان سوئی کے مقام سے چند کلومیٹر کے فاصلے سے نکلنے والی سوئی گیس کی سہولت سے ضلع راجن پور آج بھی محروم ہے جس سے یہاں کے جنگلات ختم ہورہے ہیں……
جام پور ضلع آج بھی خواب نامعلوم یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا حالانکہ پاکستان بھر کی بہت بڑی آبادی اور رقبے کے لحاظ اور ذرائع آمدن کےحساب سے یہ تحصیل ہرلحاظ سے ضلع بننے کی حقدار ہے …….مگر ………..؟
ریلوے اسٹیشن آج بھی ویران ہیں مسافر اورمال بردار ریل گاڑیوں کی آمد و رفت آج بھی بند ہے حالانکہ یہ آسان ترین اور سستے ترین ذرائع نقل و حمل میں سے ایک ہے مگر یہاں کے سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشین اس پر بھی خاموش اور یہاں کی 25 لاکھ سے زائد کی آبادی تو ویسے بھی ہجوم ہی ہے.
اور شاید….ہم آج بھی انہی سرداروں ،جاگیرداروں ،تمن داروں،وڈیروں،سرمایہ داروں اور خانقاہوں کے گدی نشینوں کی حسب سابق،حسب روایت،حسب دستور نالی،سولنگ،کھمبا،بجلی،میٹر،ٹرانسفر،پوسٹنگ،خوشی غمی میں شرکت یا پھر تعزیت کی سیاست تک محدود رہیں گے.اور اسے ہی اپنے قیمتی ووٹ کابدلہ سمجھیں گے جس سے یہ مرکز و صوبوں کے اعلی ایوانوں کے ممبر منتخب ہوکر ہمیں بھول ہی جاتے ہیں.
یا شاید نئی تاریخ رقم ہوکہ اب جبکہ پنجاب کے 21 ویں وزیراعلی کی حیثیت سے شریف خاندان کے حمزہ شہباز تخت لاہور وزیراعلی پنجاب کی مسند پر فائز ہیں جوکہ یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ انکی خاندانی مسند ہے جس پر برسوں سے انکے تایا سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور والد موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اس منصب پرفائز رہے جو اس ترقی سے محروم ضلع راجن پورکی تعمیروترقی کے لیئے کوئی بڑا اور قابل ذکر سنہری کردار ادا نہ کرسکے اور ہم کہنے پر مجبور ہوئے کہ "اساں قیدی تخت لہور دے” اب وقت ہے یہ داخ دھو ڈالیں اگر یہ چاہیں تو وزرات عظمی بھی اور وزارات اعلی بھی اب انکے یعنی انکے خاندان کے پاس ہے اور ویسے بھی پی پی 247 پر یہاں کی عوام نے انکے والد صاحب کو جتوایا تھا مگر انہوں نے یہاں کے عوام کے بھاری مینڈیٹ کے باوجود اس سیٹ کی بجائے اپنے لاہور کے حلقہ کوترجیح دی تھی مگر اب وقت ہے اختیارات ہیں تو اس محروم اور احساس کمتری کا شکار پیروں،فقیروں اولیاء اللہ اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین کے مدفن کی دھرتی سرائیکی وسیب اور کئی تہذیبوں اور ثقافتوں کی گزرگاہ ضلع راجن پور کے لیئے چاہیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں اور تاریخ رقم کرسکتے ہیں کیونکہ ہر دور کے برسر اقتدار حکومتی پارٹیوں کے حصہ دار اور اقتدار با اختیار کاحصہ سردار،جاگیردار،تمن دار،وڈیرےسرمایہ دار اور خانقاہوں کے گدی نشین ایک مرتبہ پھر سےآج آپکےساتھ بھی ہیں.
فیصلے لمحوں کے ہوجاتے ہیں صدیوں پر محیط
اک ذرا سی لغزش کئی نسلوں کو سزا دیتی ہے
تاکہ ہم پھر یہ کہنے پر مجبور نہ ہوں کہ
"اساں قیدی تخت لہوردے”
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی