عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید فقط دید سے ہے، شاعروں نے تو دید کو ہی عید کا نام دیا ہے کہ جب کوئی ہر دلعزیز پیارا مدتوں بعد نظر آ جائے تو گویا عید ہو جائے۔
عید کے اس دن بھی اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہوں یا بڑے شہروں کے چوک چوراہے، لاپتہ افراد کے لواحقین ہر روز کوئی نہ کوئی پیغام لیے بیٹھتے ہیں، وقت اور زمانے کی دھول میں اٹی پُرانی تصویریں، نئے کتبوں پر سجی اور سینے سے لگی تصویریں۔۔۔
مائیں اِن تصویروں کو کبھی چومتی ہیں اور کبھی روتی ہیں۔ احساس ملول ہے اور انتظار طویل۔ کوئی ان کا درد جان نہیں سکتا اور جانے بھی کیسے نہ زندگی کی خبر نہ موت کی تصدیق، یہ گمشدہ لوگ نہ زندہ ہیں اور نہ مردہ۔ بس منتظر ہیں اور انتظار کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
دکھ تو یہ ہے کہ ان لاپتہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان گمشدہ لوگوں کے بظاہر موجود مگر لاپتہ رشتے دار کبھی اسلام آباد کبھی کراچی اور کبھی کوئٹہ کے پریس کلبوں کے باہر کتبے اُٹھائے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کوئی لمحہ بھر کو رُک جاتا ہے اور کوئی سرسری سی نگاہ ڈال کر آگے نکل جاتا ہے۔ بہت ہو گیا تو ملک کے بڑے صحافی، دانشور کبھی کبھی فلاں فلاں کو رہا کرو کے ہیش ٹیگ گھما دیتے ہیں، ری ٹویٹ، ٹویٹ کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی سیاست دان بھولے بھٹکے سے کھوئے ہووں بلکہ لاپتہ ہووں پر ترس کھا کر بیان جاری کر دیتا ہے، کبھی کوئی شاعر چند اشعار لکھ بول دیتا ہے مگر مستقل غم کی آگ میں جھلسے ہوئے ان لوگوں کے غم کی تپش کو کوئی محسوس نہیں کر سکتا۔
گذشتہ کچھ دنوں سے سماجی رابطوں کے تمام پلیٹ فارمز پر ان لاپتہ لوگوں کے لواحقین کی تعداد یک دم بڑھ گئی ہے۔ معروف وکیل اور دردمند، ان بے آوازوں کی آواز ہماری ایمان زینب مزاری ایک عدالت سے دوسری اور ایک مظاہرے سے دوسرے تک جاتے جاتے بہت سوں کو آوازیں دیتی ہے۔
سیمی دین بلوچ اپنے والد ڈاکٹر دین بلوچ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بچپن سے نکل کر شعور کی منزل پر پہنچ گئی ہے یا یوں کہیے کہ اُس کا شعور بچپن کی دہلیز سے بڑھاپے تک پہنچ گیا ہے۔ تاج محمد سرپارہ کی اہلیہ ثالیہ مری اپنے شوہر کی واپسی کی آس میں آئے دن انتظار کی گھڑیاں ناپتی اور ہمیں جنھجوڑتی رہتی ہے۔
مدثر نارو کی والدہ کی اُمید کبھی زندہ اور کبھی دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ سچل، سیمی، ثالیہ، پنجاب یونیورسٹی سے اغوا شدہ امداد اُس کے اہلخانہ آمنہ مسعود جنجوعہ، حفیظ بلوچ اور بیبگر امداد کی مائیں اور کئی خاندان ہر روز دروازے پر نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں کہ نہ جانے کب اُن کے پیارے لوٹیں اور کب اُن کی عید ہو جائے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ انتہائی پریشان کُن ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک برس میں بلوچستان سے 1108 افراد لاپتہ ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا سے 1417 کیسز تاحال شُنوائی کے منتظر ہیں۔ لاپتہ سندھ سے بھی ہو رہے ہیں اور کراچی سے بھی اور یہ سب لاپتہ ایک لاپتہ معاشرے کا پتہ دے رہے ہیں۔
گذشتہ دور حکومت میں جبری گمشدگیوں سے متعلق قانون سازی ایوان بالا سے بالا ہی بالا غائب ہو گئی مگر اب دور بدل گیا، حکومت بدل گئی ہے بظاہر جمہوری لوگ ایوان اقتدار میں ہیں۔ کم از کم اُس بل کو ہی بازیاب کروا لیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ شہباز شریف کی مخلوط حکومت اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے، کیا ہی اچھا ہو کہ نیوٹرل ہوئی آئین پسند اسٹیبلشمنٹ اس مسئلے کو آئینی اور انسانی بنیادوں پر حل کرے۔ جو گنہگار ہیں اُنھیں عدالت میں پیش کرے جو معصوم ہیں اُنھیں پیاروں کو واپس کر دے۔ بس اتنا کر دیں کہ ان گمشدہ لوگوں کے لواحقین کو اُن کی عیدیں لوٹا دیں۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر