ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان سے قبل توشہ خانہ سے متعلق عام آدمی کی معلومات نا ہونے کے برابر تھیں اور شاز ونادر ہی کوئی توشہ خانہ سے متعلق خبر آتی تھی ۔یہ عمران خان ہی تھا جس نے توشہ خانہ سے متعلق عوام کے اندر بات کرنا شروع کی اور حکمرانوں پرمہنگے تحائف کی کم قیمت پر خریداری پر سوالات اٹھانے شروع کیئے۔ عمران خان کے سوال پر میڈیا کو جیسے کوئی کھلونا ہاتھ لگ گیا اور اس دن کے بعد سے توشہ خانہ کی تفصیلات بھی سیاسی مکس اچار کا لازمی جزو سمجھی جانے لگیں ۔مگر کسی کو کیا معلوم تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد یہ کپتان ہی ہوگا جو توشہ خانہ کی تفصیلات جاری کرنے سے اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ انکار کردے گا کہ اس سے دوست ممالک ناراض ہوجائیں گے۔
اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا مگر کپتان کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ ان کا اقتدار جلدی ختم ہوگیا وہ اپنی مدت ہی پوری نہیں کرسکے اور آج ان کے مخالفین برسراقتدار ہیں اور نتیجے میں توشہ خانہ کی تفصیلات کپتان کے دوستوں سمیت ہر سیاسی مخالف کے ہاتھ میں موجود ہیں ۔کپتان اپنے ہی توشہ خانہ کے جال میں پھنس چکے ہیں اور اب تحفوں کی فروخت کے بعد حاصل ہونےوالی رقم سے متعلق بھی وضاحتیں پیش کررہے ہیں ۔کبھی جوش میں آکر کہتے ہیں میرے تحفے میری مرضی اور ان کے مخالفین ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ریاست کے تحفوں پر ریاست کی مرضی چلتی ہے نا کہ فرد واحد کی۔
جب تحفوں کا زکر چل ہی نکلا ہے تو کیوں نا تاریخ کے توشہ خانے سے ان تحفوں کا بھی زکر کرلیا جائے جن کو ملک وقوم کا مسیحا بنا کر مسلط کیا گیا۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے عطا کیئے جانے والے یہ کوئی معمولی تحفے نہیں تھے ۔بلکہ اپنے عہد کے گوہر نایاب ، بیش قیمت اور اپنی نوعیت کے لمٹیڈ ایڈیشن تھے ۔ہرتحفہ اپنی مثال آپ تھا نا اس سے پہلے کوئی تحفہ ایسا ہوتا تھا اور نا بعد میں عطا ہونے والے تحفوں کے معیارمیں کوئی کمی تھی ۔مگر ستم یہ کہ کوئی بھی تحفہ زیادہ دیر نا چل سکا اور اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس وقت کپتان جیسے نادر ونایاب تحفے کے ساتھ ہورہا ہے۔
ملک وقوم کے لیے پہلا تحفہ گورنر جنرل غلام محمد تھے جو نا تو مسلم لیگی تھے اور ناہی سیاسی کارکن تھے بلکہ بیوروکریٹ تھے اور موصوف نے ناصرف وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو گھر بھیج دیا بلکہ اسمبلی کو بھی ختم کردیا۔اس تحفے کی قدر ومنزلت کا اندازہ لگایا ہی جارہا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں تعینات سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم نامزد کردیا ۔یوں قوم کو یہ دوسرا تحفہ ملا ۔بالآخر اختیارات کی جنگ فیصلہ کن مرحلے پر پہنچی اور گورنر جنرل نے اپنے لائے ہوئے وزیراعظم کے خلاف ایگزیٹو پاور کو استعمال کرتے ہوئے 1954 میں دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا۔
وہیل چئیر پر براجمان فالج زدہ گورنر جنرل علاج کے لیے لندن گئے اور جاتے جاتے گورنر جنرل کا عہدہ توشہ خانے کے تحفے کی طرح میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا کو ہدیہ کرگئے ۔اسکندر مرزا نے محمد علی بوگرہ کو وزارت عظمی سے معزول کرکے واپس امریکہ سفیر بنا کربھیج دی گویا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔اسکندر مرزا نے سول سروس میں گوہر نایاب ڈھونڈ نکالا اور بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو 1955 میں وزیراعظم بنا دیا۔
دلچسپ امریہ ہے کہ سیاسی توشہ خانے کے تحفوں کی بھی تفصیلات منظر عام پر نہیں لائی جاسکتیں کہ دوست ممالک کی طرح کچھ دوستوں کے ناراض ہونے کا اندیشہ ہے ۔اسکندر مرزا کے بعد ایوب خان ، یحیحی خان ، ضیاالحق ، پرویز مشرف جیسے ہیروں کی قدر ہم جیسے ناعاقبت اندیش کیسے جان سکتے ہیں یہ تو جوہریوں کا ہنر ہے کہ وہ ان جیسے ہیروں کی قدرومنزلت اور قیمت سے واقف ہوتے ہیں۔ لہذا ملک وقوم کی تین دہائیاں ان ہیروں کی چکا وچوند کی نظر ہوگئیں ۔ان کے عہد زریں میں کیا بننا تھا اور کیا سے کیا بن گئے ۔
ایک دہائی سکون سے گذری مگرپھرشوق ہوا کہ نیا تجربہ کیا جائے بہت مدت ہوگئی وقوم کو ایک نیا بیش قیمت تحفہ دیا جائے ایسے میں ایک پتھر کی تراش خراش شروع کی گئی اور ماہرترین کاریگروں نے پتھر کو قیمتی ہیرے میں ڈھال دیا۔اس پتھر کی چمک دمک ، تراش خراش کاریگری کا شاہکار اور دیدنی تھی۔اس شاہکار کی کی تخلیق پر جوہری بے اختیار بول پڑے کہ کیا شاہکار ہے۔قوم کو اتمام حجت کے طورپر تبدیلی کے نام پر یہ ہیرا سونپ دیا گیا گویا اپنی محبت اور حجت تمام کردی گئی ۔اور بڑے فخر سے کہا گیا کہ قوم کس کس ہیرے کو جھٹلائے گی
تبدیلی کا یہ کوہ نور تاج شاہی میں تو سج گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے موتی بھی باہر سے منگوا کر تاج کی زینت بنائے گئے جس سے اس ہیرے کی شان وشوکت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔جیسے جیسے وقت گذرتا گیا ہیرے کی چمک دمک ماند پڑنے لگی۔پہلی بار ایسا ہوا کہ سیاسی توشہ خانے کے اس تحفے کی تفصیلات بھی منظر عام پر آنے لگیں۔چارسال میں اس ہیرے کی چمک دمک کیا ماند پڑی کہ کاریگروں کے ہنر پر سوالیہ نشان لگ گئے ۔سیاست کے حقیقی بازار میں اس ہیرے کے نرخ آئے روز گرنے لگے ۔تاج شاہی میں ایک اور ہیرا ایسے اپنی جگہ بنا چکا ہے کہ جیسے اسی کا انتظار تھا۔جبکہ تبدیلی کے نام کا یہ ہیرا گلی کوچوں میں لوگوں کو اکٹھا کرکے دہائی دیتا پھررہا ہے کہ شان وشوکت میرے دم سے تھی قدرومنزلت میرے سبب تھی اور تاج شاہی میں فقط میں ہی جچتا ہوں ۔مگر اس کو کون سمجھائے کہ ریاست کے تحفوں پر ریاست کے قوانین اور ریاست کی مرضی چلتی ہے
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر