ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اپنی تحقیقی کتاب ” محبت ۔۔۔ تصور اور حقیقت ” سے اقتباس )
مرد اور عورت نہ صرف افعال بدن کے حوالے سے مختلف ہیں بلکہ ان کے جذبات بھی مختلف ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جذباتی اختلافات وقت اور ماحول کی دین ہیں یعنی اکتسابی ہیں اور کچھ لوگ ان کو حیاتیاتی نوعیت کا گردانتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان دونوں کے بدن کے کچھ اعضاء اپنی حیثیت اور فعل میں مختلف ہیں۔ اس بنا پر ان دونوں کی تربیت مختلف طرح سے کی جاتی ہے اسی لیے ان کے جذباتی میلانات میں بھی فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق وققے وقفے کے بعد بھی ظاہر ہو سکتے ہیں اور ایک تسلسل میں بھی۔ یہ ہیجان ، ذہن و جسم کو جکڑ سکتا ہے۔ محبت کرنے والی لڑکی کی خواہش ، یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت "اس” کے ساتھ رہے۔ ایک کا میلان کم مدت کا، جھٹکے دار اور شدید ہوتا ہے جبکہ دوسرے فریق کا طویل، وسیع اور مسلسل۔ لڑکی لڑکے کی طرح اس کے ساتھ چند گھنٹے نہیں گذارنا چاہتی بلکہ سارا ہی وقت اس کے ساتھ بتانا چاہتی ہے۔ اس کا خیال ہمہ وقت اس کے گرد گھومتا ہے جبکہ لڑکا محض فارغ اوقات میں ہی لڑکی کے بارے میں سوچتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے سے مایوس ہونے کا پیمانہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ مرد کی مایوسی شدید اور دھوکہ کھانے والے کی سی ہوتی ہے جبکہ عورت کی مایوسی مدھم مدھم مگر دکھ بھرے تحیر کے سارے رنگ سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔
محبت کے بیاہ میں ایک دوسرے کے چھوڑنے کا خوف جاگزیں ہوتا ہے۔ اس کے معاشرتی پہلو ہیں۔ مشرقی سماج میں یہ سوچ ہوتی ہے کہ دوسرا فریق کسی دوسرے کی محبت میں بھی اسی طرح گرفتار ہو سکتا ہے، جس طرح وہ دونوں ہوئے تھے اور مغربی سماج میں اختلاط کے وسیع مواقع اور کھلا ماحول، اس کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس خوف کی حقیقی بنیادیں بھی کم از کم عورتوں میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہیں اور عورتوں کی بے وفائی سے پوری انسانی تاریخ میں آدمیوں نے بھی بہت صدمے سہے ہیں۔ جذباتی اختلاف کا اظہار مجامعت کے عمل میں بھی واضح ہوتا ہے۔ آدمی فراغت کے بعد دور ہونے کو ترجیح دیتا ہے اور عورت چمٹے رہنے کو، کیونکہ مرد کے لیے یہ عمل ختم ہو چکا ہوتا ہے لیکن عورت کے لیے یہ عمل ایک نئی تجسیم و تخلیق کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ عورت کی 90% توجہ بچے کی جانب ہو جاتی ہے مگر مرد اسی محبت اور توجہ کا خواہاں رہتا ہے جس کا نہ صرف وہ عادی ہو چکا ہوتا ہے بلکہ اس نے تو محبت کی ہی اس لیے تھی کہ اس کی مسلسل تسکین ہو مگر عورت اپنی ممتا کی جبلت کا کیا کرے؟ وہ چھوٹے سے بچے پر توجہ کم نہیں کر سکتی ہے۔ آدمی تلملاتا ہے مگر باپ ہونا بھی دکھانا پڑتا ہے۔ اپنے اندر ہی اندر وہ اس عورت کے خلاف ہو جاتا ہے اور دوسری محبت ڈھونڈنے میں لگ جاتا ہے یا اپنی عورت پر توجہ کم کر دیتا ہے۔ عورت نے بھی محبت اس لیے کی تھی کہ اس کی مثالی انا یعنی Ego Ideal کی تسکین ہو۔ بچہ ہونا تو ایک فطری نتیجہ ہے۔ عورت صرف جنسی خواہشات کی خاطر محبت کی بہ نسبت بہ مشکل ہی بے وفا ہوتی ہے اور جب اسے آدمی کی بے وفائی ( جو دراصل بے وفائی نہیں ہوتی، بے توجہی کا نتیجہ ہوتی ہے ) کا معلوم ہوتا ہے تو اسے اپنے نہ چاہے جانے اور دھتکارے جانے کا اس قدر شدید احساس ہوتا ہے کہ وہ نسبتا” مضبوط بازووں ، زیادہ چاہنے والے اور چوڑے چکلے شانوں والے شخص کو چاہنے کی خواہش میں جلنے لگتی ہے اور اس طرح محبت کے نتیجے میں ہوئے بیاہ میں پہلی دراڑ پڑ جاتی ہے۔
محبت کے ہاتھوں شوہر بیوی کا روپ اختیار کرنے والوں میں ” بدکاری ” کی وجوہ بھی مختلف ہوتی ہیں۔ عورت دوسرے آدمی سے اس کی توجہ، تعریف اور تحفظ کی امید باندھتی ہے جو محبوب شوہر دینے میں ناکام رہا۔ مرد میں یہ وجوہات نہیں ہوتیں بلکہ وہ تجسس اور جنسی عمل کے تنوع کی تلاش میں یہ عمل کرتا ہے۔ عورت کی بے وفائی ایک طرح سے اس کا اپنے آپ سے بدلہ ہوتا ہے۔ وہ توہین ذات اور اہانت آمیز رتبہ حاصل کرکے شوہر کی بے وفائی کو بھولنا چاہتی ہے۔ عورتوں میں وفا کی شدت کی وجہ حیاتیاتی ہے، جس طرح مادہ جانور حاملہ ہو کر کسی بھی نر کو نزدیک نہیں آنے دیتے۔ اسی قدیم رویے کی باقیات عورت کی وفاداری میں ڈھل گئی ہیں، چاہے وہ حاملہ نہ بھی ہو۔ عورت کو چاہے جانے کی چاہ ہوتی ہے اور محبوبہ رہنے کی خواہش۔ جب اسے مایوسی ہوتی ہے تو وہ دوسری محبت پہ آس لگا بیٹھتی ہے۔
حسد اور رقابت کے جذبے کے نفسیاتی پہلو بھی مرد اور عورت میں مختلف ہوتے ہیں۔ حسد کو یاس ، جارحیت اور رشک کا ملغوبہ کہا جا سکتا ہے۔ آدمی کے حسد میں رنجش زیادہ پنہاں ہوتی ہے جبکہ عورت کے حسد میں رشک کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ عموما” لگتا یہ ہے کہ مرد کو اپنے رقیب کے ہاتھوں اپنی ملک لٹ جانے کا رنج ہوتا ہے مگر درحقیقت عورت میں یہ احساس کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی ملک واپس لینے کی خاطر پنجوں اور ناخنوں تک سے لڑتی ہے۔ اسے خاوند کی جذباتی محبت، جنسی لگاؤ یا شہوانی تعلق کی بہ نسبت زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ آدمی کا حسد اس کی متاع چھن جانے کا رنج نہیں ہوتا بلکہ اس کا لگاؤ، اس کی عادات جو بیوی کی وجہ سے مرتب ہو جاتی ہیں اور اس کی سہولت داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ اس کا کنبہ ٹوٹ رہا ہوتا ہے اور اس کی جگ ہنسائی ہو رہی ہوتی ہے۔ مختصرا” یہ کہ اس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
گھر کے معنی وقت کے ساتھ خاصے بدل گئے ہیں۔ آج گھر نہ تو مرد کے لیے قلعہ ہے اور نہ ہی عورت گھر میں خود کو ملکہ تصور کرتی ہے۔ لیکن اس کے کچھ لاشعوری معنی آج بھی باقیات کے طور پر موجود ہیں۔ گھر لاشعوری طور پر، آدمی کے لیے اپنے پہلے مکان یعنی رحم مادر کی طرح ہے جہاں اسے غذا سے تحفظ تک فراہم تھا اور عورت کے لیے گھر اس کے جسم کے ایک حصے کے مترادف ہے جس کی تزئین اور دیکھ بھال اسے کرنی ہی چاہیے۔ سماجی تبدیلیاں اس رویے کو تب تک نہیں بدل پائیں گی جب تک عورت بچے کو پیٹ میں رکھنے اور پیدا کرنے کی اہل ہے۔ اسی لیے عورت کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا گھر نہ صرف آرام دہ بلکہ خوبصورت بھی ہونا چاہیے کیونکہ وہ گھر پر ہو نہ ہو، جو بھی اس گھر میں داخل ہوگا ، اسے لگتا ہے کہ وہ اس کی موجودگی میں داخل ہوتا ہے۔ عورت گھر کو مسلسل صاف کرتی رہتی ہے۔ جھاڑتی پونچھتی رہتی ہے۔ گھر کی ہئیت میں تبدیلیاں لاتی ہے، تزئین کرتی ہے۔ مرد یہ چاہتا ہے کہ گھر میں موجود چیزیں آرام دہ، کارآمد اورمناسب ہوں جبکہ عورت چاہتی ہے کہ ان خصائص کے علاوہ وہ خوبصورت اور دیدہ زیب بھی ہونی چاہییں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں مرد اور عورت کے تصورات و کیفیات مختلف ہوتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بچے کو نو ماہ عورت ہی اپنے پیٹ میں رکھتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ پانچ بنیادی جبلتوں یعنی بھوک ، پیاس، جنسی عمل کی خواہش، حفاظت خود اور ممتا میں ممتا عورت میں ہی ہوتی ہے اور مرد میں مفقود۔ عورت کے لیے بچہ اپنے شوہر سے محبت کے اظہار یا ہونے والے باپ کی تعریف کرنے کا طریقہ ہوتا ہے جبکہ باپ اس نوع کی بات سوچ ہی نہیں سکتا البتہ ادھیڑ عمری میں آدمی میں بچے کی خواہش ابھرتی ہے جو آدمی میں زنانہ کیفیت کی موجودگی کی مظہر ہوتی ہے۔ محبت کے دوران دونوں ہی بچے کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن یہ پہل کم و بیش مرد ہی کرتا ہے کیونکہ اس طرح اس کی لگن کے تسلسل کا اظہار ہوتا ہے جبکہ اس میں باپ بننے کی خواہش نہیں ہوتی۔ عورت اس موضوع میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرتی ہے، شرم سے لال ہو جاتی ہے، ماں بننے کے امکان سے نہیں بلکہ ماں بننے کی خاطر کیے جانے والے فعل کے بارے میں سوچ کر۔
آدمی استقرار حمل میں اپنے حصہ سے کما حقہ آگاہ ہوتے ہوئے بھی، اگر عورت کا حاملہ ہونا اسے نہ بھائے تو عورت کو ہی الزام دیتا ہے۔ عورت کے لیے اپنے محبوب مرد سے ٹھہرنے والا حمل ایک حقیقی آرزو ہوتی ہے۔ جو عورت اسقاط حمل کی اذیت سہہ لینے کا تہیہ کر لیتی ہے، وہ دراصل اپنے محبوب سے بے حد مایوس ہونے کے بعد ہی کرتی ہے۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ اللہ نے تم دونوں کو بچے سے نوازا ہے۔ اس کے برعکس ایک آدمی جو مطلب براری کے لیے محبت کرتا ہے اور عورت کے حمل کے جھنجھٹ سے بچنا چاہتا ہے، اس کے لیے اسقاط حمل محض ایک معمولی آپریشن ہے، جو "اسے” پریشانی اور ذمہ داری سے نجات دلا دے گا۔ عورت کے لیے پیٹ میں موجود بچہ اس کے محبوب کی تجسیم ہوتا ہے جس کو پھر سے جنم دینے کے عمل سے وہ گذرنا چاہتی ہے۔ اس کی آس ہوتی ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ، بیٹی ہو یا بیٹا وہ سب کچھ کر سکے گا جو کرنے کا اس نے خواب دیکھا تھا مگر کرنے میں ناکام رہی۔ فارسی کے ایک محاورے ” اگر پدر نہ تواند پسر تمام کند ” کے مطابق ممکن ہے یہ خواہش باپ میں بھی ہو لیکن اس کی شدت اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ ماں میں۔
بچہ پیدا کرنے کی خواہش اور جنسی خواہش اکثر ایک دوسرے سے منسلک نہیں ہوتیں۔ کسی حد تک لاشعور میں ہو سکتی ہے۔ بچے کے بارے میں سوچ اس کے خالق یعنی مرد سے جڑی ہوتی ہے۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ آدمی عورت کو دیکھے اور سوچے،” اے کاش، میں اس سے بچہ پیدا کر سکتا” ایسی آرزو ہو سکتی ہے لیکن جسمانی تعلق کی خواہش کے بعد ہی۔ ایک عورت میں کسی بھی مرد سے بچہ پیدا کرنے کی خواہش، جنسی خواہش سے علیحدہ بھی ہو سکتی ہے۔
مرد اور عورت کی سوچ میں فرق کی کچھ مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ باہمی ارتباط کا وہ عمل جو محبت کو عشق میں ڈھال سکتا ہے، واضح ہو جائے۔ ارتباط باہمی دراصل مصالحت پر مبنی ہوتا ہے لیکن چونکہ محبت کرنے والے دو افراد اپنی انا کی تکمیل کے لیے بھی اس کیفیت میں مبتلا ہوتے، اس لیے اگر ان کی انا کو تھوڑی سی ٹھیس پہنچے تو وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ سماج کا خوف کہ زمانہ کیا کہے گا، تھوڑے عرصہ انہیں آپس میں باندھے رکھے گا بالآخر وہ رسہ تڑوانے لگیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی بیاہ صرف جسمانی تعلق اور تعیش کا ہی نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل سماجی ادارہ ہے جس کے اپنے اصول و ضوابط اور اپنے تقاضے ہیں۔ یہ ادارہ پورے سماج سے جڑا ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ بیاہ اور محبت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے جب محبت کے تقاضے آپس میں خلط ملط ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو دونوں میں سے ایک کی چولیں پہلے ڈھیلی پڑنا شروع ہوتی ہیں۔ چونکہ محبت ایک کیمیائی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے اور یہ سماج کے عمومی اصولوں سے مطابقت بھی نہیں رکھتی اس لیے یہ پہلے کمزور پڑنے لگتی ہے۔ معاشرے کے سامنے محبت کرنے والے دونوں افراد اپنی حقیقی شخصیت کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ افراد Ego-Ideal کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کو تخیلی طور ر منطبق کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ سماجی تقاضوں کے دباؤ کے دوران، تمثیل کے پردے حقیقت سے ہٹنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے کے سامنے محبت کرنے والوں کے لباس سرک کر گر پڑتے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی ہار ماننے کی خاطر تیار نہیں ہوتا۔ انا پرستی کا یہ جھگڑا عمومی جھگڑوں میں بدل جاتا ہے۔ ہر ایک دوسرے پر الزام دھرتا ہے۔ محبت پیاز کے چھلکوں کی مانند کچھ چھوڑے بغیر اتر جاتی ہے۔ لیکن نجات یہ پھر بھی نہیں ہوتی۔ قلق اضطراب میں بدل جاتا ہے۔ جب تک اس محبت کی جگہ دوسری محبت نہیں لے لیتی، انسان مضطرب رہتا ہے اور اگر بچے بھی محبت کی کیچڑ میں پھول بن کر اگ آئیں تو وہ بھی چھینٹوں سے محفوظ نہیں رہتے۔ محبت کی شادی چونکہ محبت ہوتی ہے، شادی کا تو محض اس پہ غلاف ہوتا ہے اس لیے یہ انجام کار نہ محبت رہتی اور نہ شادی۔ محبت کے ادوار کی سیڑھیاں سنبھل سنبھل کے عقل مندی اور مہارت سے چڑھنے والا ہی اس کے بہتر انجام کو پہنچ پاتا ہے، جو کم افراد ہی ہوتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر