ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم الاعداد سے شغف رکھنے والے سات نمبر کے گن گاتے نہیں تھکتے اور خوشی سے ہم پھولے نہیں سماتے کہ سات تاریخ کو پیدا ہوئے تھے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے اس میں بھلا ہمارا کیا کمال تھا؟ اماں کو درد زہ ہی چھ ستمبر کو شروع ہوئے جو تین، چار پانچ کسی بھی تاریخ کو شروع ہو سکتے تھے۔ لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہم ہی ہٹ دھرم بن کر بیٹھے رہتے سات کے انتظار میں، اور اماں تڑپتی رہتیں۔
خیر چھوڑیے علم الاعداد کے حسابی کتابی سلسلے کو، ہماری سنیے کہ ہمیں چالیس نمبر نے بدحواس کر رکھا ہے۔ اور وہ بھی بچپن سے جب علی بابا چالیس چور پڑھ کر پہروں بیٹھے سوچتے رہے کہ آخر چور چالیس ہی کیوں تھے بھئی؟ بیس یا پچیس کیوں نہیں؟ ویسے کام تو پانچ سات سے بھی چل سکتا تھا۔
نوجوانی میں ادھر ادھر سے سنا کہ چالیس کی عمر مرد کے لئے خطرناک گنی جاتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔ بے نیازی سے سوچا کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ کتابوں کی دنیا سے خبر ملی کہ محبت کرنے کے بھی اصول ہوتے ہیں، وہ بھی ایک نہ دو پورے چالیس۔ باپ رے باپ، نہ بابا نہ، یہ بھی ہمارے بس کا روگ نہیں۔
ماں بننے پہ خبر ملی کہ چالیس دن کا چلہ یا چھلا کاٹنے کے بعد ہی زندگی کی ہما ہمی میں شامل ہونے کی اجازت ملے گی۔ چارو چار چالیس دن دنیا سے لاتعلق ہو کر وہ سب کہانیاں یاد کرتے رہے جس میں جادوگر چالیس دن کا چلہ کاٹ کر ایک ایسی میخ بناتا ہے جسے شہزادے کے سر میں ٹھونک کر کبوتر بنا دیا جاتا ہے۔ ایسی میخ بنانے کے وظیفے تک رسائی تو نہ ہو سکی البتہ بچپن میں پڑھی گئی وہ سب کہانیاں یاد آ گئیں جنہیں پڑھ کر نہ جانے کتنا عرصہ ہم کتنے ہی کبوتروں کو گھور گھور کر اندازہ لگانے کی کوشش کرتے رہے کہ ان میں سے کون سا والا شہزادہ ہو سکتا ہے؟ وہ جو زیادہ پھدک رہا ہے یا وہ جو دوسروں سے علیحدہ ہو کر دانہ چگ رہا ہے؟
چالیس برس کو پہنچے تو ماہواری نے آپے سے باہر ہو کر آنکھیں دکھانا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں آپریشن تھیٹر کی میز پر جا لیٹے اور بانس سے ہی فارغ ہو بیٹھے کہ بانسری کی بے وقت راگنی کون سنتا؟
چلیے ایک بات تو کھل گئی کہ سات کا ہندسہ تو خواہ مخواہ ہی مشہور ہے۔ خطرے کی گھنٹی بجانے والا عدد تو چالیس ہے اور بھی عورت کی زندگی میں۔ جی درست سنا آپ نے، چالیسواں برس عورت کی زندگی کا اہم ترین برس ہے۔
جونہی کوئی خاتون ہمارے سامنے بیٹھ کر ماہواری کی رام لیلا سنانا شروع کرتی ہیں، کمپیوٹر دیکھتے ہوئے ہم فوراً عمر کے عدد کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں۔
پچیس ہو یا پینتیس، بیس ہو یا اٹھائیس، چلے گی بابا چلے گی دوائیوں کے سہارے یہ ماہواری۔ ایک دوا نہیں تو دوسری، دوسری نہیں تو تیسری۔ آزمائیں گے ہم سب کچھ اس ماہواری کے جن کو قابو کرنے کے لیے۔
خطرے کی گھنٹی بج اٹھتی ہے جب عمر کے خانے میں چالیس یا اس سے اوپر کا ہندسہ نظر آتا ہے۔ اس عمر میں ماہواری کی کسی بھی بے قاعدگی کو دوا سے حل کرنا صاف انکار ہے بھئی ہماری طرف سے۔ اس وقت تک جب تک بچے دانی / رحم کے اندر سے بائیوپسی نہ لے لی جائے۔ بائیوپسی لینے کے طریقے کو عرف عام میں ”بچے دانی کی صفائی“ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ پرانے زمانے میں چمچ جیسا اوزار بچے دانی میں ڈال کر اندرونی دیواروں کو کھرچ کر صفائی کی جاتی تھی۔
سائنس نے موجودہ زمانے میں بچے دانی کو اندر سے کیمرے کی مدد سے دیکھنا ممکن بنا دیا ہے۔ پتلی تار سا کیمرہ بچے دانی کے اندر ڈال کر دیکھا جاتا ہے اور پھر بائیوپسی لے کی جاتی ہے۔ بائیوپسی کو لیبارٹری بھیج کر اس کا تجزیہ کروایا جاتا ہے۔
خطرے کی گھنٹی بجنے سے بائیوپسی تو ہو گئی لیکن خطرہ کس بات کا؟ جواب ہے بچے دانی کا کینسر!
چالیس کے بعد خواتین میں بچے دانی کا کینسر ہونے کی واحد نشانی ماہواری کا بے ترتیب ہونا ہے۔ اس نشانی کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ یا لوگ ماہواری دوست نہیں۔ اس اصطلاح کو ہم نے user friendly ہونے سے لیا ہے۔ والدین کو بچے جب کسی نہ کسی چیز کی افادیت پہ لیکچر دے رہے ہوں تو سننے کو یہ مل ہی جاتا ہے، آپ کے لیے یہ چیز مناسب ہے، بہت user friendly ہے۔ اشارہ در پردہ بڑھتی ہوئی عمر کی طرف ہوتا ہے، جس میں بوڑھے والدین کی سمجھ اکثر کم سمجھی جاتی ہے۔
تو ہم کہہ رہے تھے کہ اگر معاشرہ ماہواری دوست ہو جائے اور خواتین بتاتے ہوئے اتنی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں تو بچے دانی کا کینسر ابتدائی منازل پہ پکڑا جا سکتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے تو صرف اتنی کہ اگر چالیس برس کی عمر کے بعد ماہواری کا خون زیادہ ہو گیا ہے، یا رکتا نہیں یا مہینے میں دو بار آ جاتا ہے یا داغ لگتا رہتا ہے، یا ماہواری کے بعد لیس دار بو والا مادہ خارج ہو تا رہتا ہے تو آپ کو فوراً صفائی کی ضرورت ہے اور محض صفائی نہیں بلکہ لیبارٹری رپورٹ کی بھی جو بتائے کہ ستے خیراں!
چالیس کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
چھاتی کا کینسر دنیا بھر میں عورت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ ہر نو میں سے ایک عورت اس کا شکار بنتی ہے۔ آگہی کے لیے بہت باتیں کی جاتی ہیں مگر کیا کیجیے یہ وہی چھاتی ہے جس سے بچیوں کو اوائل عمری میں ہی شرم دلا کر خوفزدہ کر دیا جاتا ہے۔ تمام عمر وہ چھاتی کے متعلق بات کرنے سے شرماتی اور گھبراتی ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ عورت اس وقت ہسپتال پہنچتی ہے جب چھاتی کا کینسر پورے جسم میں پھیل چکا ہوتا ہے اور موت دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کا وقت سے پہلے سراغ لگانے کے لیے سائنس نے میموگرافی کی مشین تو ایجاد کر لی ہے لیکن عورت کو اس مشین تک پہنچانا چھاتی فرینڈلی خاندان کا کام ہے جو چالیس کی عمر کے بعد اپنی بہن، بیگم اور ماں کو کہیں، چلیے میں نے آپ کی میموگرافی کے لیے وقت لیا ہے۔
چالیس برس سے ستر برس تک ہر سال یا دو سال کے بعد میموگرافی کے ذریعے چھاتی کا معائنہ سب عورتوں کے لیے تو لازم ہے ہی لیکن جن کے خاندان میں چھاتی کا کینسر ہونے کی کہانی موجود ہو، وہاں اسے مذہبی فریضہ سمجھ لینا چاہیے۔
اگر کسی کی ماں یا بہن کو یہ کینسر پینتالیس کی عمر میں شروع ہوا ہو تو اصول یہ ہے کہ لواحقین کا معائنہ اس عمر سے دس برس پہلے یعنی پینتیس کی عمر میں شروع ہو گا تاکہ جب بھی کینسر کا آغاز ہو، پکڑا جا سکے۔
گائنی فیمینزم سمجھ کر عورت دوست بنیے اور عورت کو زندگی کی شاہراہ پر ساتھ چلنے کا موقع دیجیے۔ اگر مزا نہ آئے تو پیسے واپس!
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر