رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر گزشتہ روز خدا خدا کر کے عدالت عالیہ اسلام آباد نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی مکمل تفصیل فراہم کرنے کا حکمنامہ جاری کر ہی دیا، اسلام ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے آرڈر لکھوایا کہ ”اس بابت عدالت عالیہ نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے ( 27 جنوری 2021 کے ) فیصلے پر عملدرآمد روکنے کا کوئی حکم جاری نہیں کر رکھا، سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ دو ہفتے کے اندر درخواست گزار (رانا ابرار خالد) کو وزیر اعظم عمران خان کے غیر ملکی تحائف کی تفصیل فراہم کرے۔
علاوہ ازیں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے ریمارکس میں قرار دیا کہ تحائف اپنے پاس رکھنے کی پالیسی ہونی ہی نہیں چاہیے، کیا یہ کوئی لوٹ سیل چل رہی ہے کہ تھوڑے سے پیسے دے کر قیمتی تحائف خود رکھ لو۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ بیس سال کے دوران جن جن حکومتی عہدیداروں نے تحائف لیے سب سے واپس لے کر عجائب گھر میں رکھے جائیں۔ تحفہ وزیر اعظم کا نہیں بلکہ ریاست کا ہوتا ہے، امریکہ میں مجھے جو شیلڈ پیش کی گئی تھی وہ اپنے گھر نہیں لے جاؤں گا بلکہ دفتر میں ہی لگی رہے گی“ ۔
عدالت عالیہ کے مذکورہ بالا حکمنامے سے جہاں ایک جانب یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ اب یہ دنوں کی بات رہ گئی ہے کہ جب (سابق) وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی مکمل تفصیل کابینہ ڈویژن سے مجھے فراہم کر دی جائے گی اور وہ جلد ہی پاکستانی عوام کے سامنے ہو گی۔ دوسری جانب یہ بھی واضح ہو گیا کہ (سابق) وزیر اعظم عمران خان کا ’میرا تحفہ میری مرضی‘ والا موقف منہ کے بل گر گیا ہے۔ کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کے دوران واضح کر دیا ہے کہ تحفہ وزیر اعظم کا نہیں بلکہ ریاست کا ہوتا ہے، لہٰذا ریاست کا تحفہ اور ریاست کا قانون چلے گا۔
نیز عدالت عالیہ کے اس نتیجے پر پہنچنے سے یہ امید بھی پیدا ہو چلی ہے کہ معزز عدالت مقدمے کے حتمی فیصلے میں گزشتہ 20 سال کے دوران خود رکھ لیے گئے تمام تحائف واپس لیے جانے کا حکم بھی جاری کرے، اس طرح غیر ملکی سربراہان سے ملنے والے تحائف کی لوٹ سیل کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا اور جن حکومتی عہدیداروں نے انڈر پرائسنگ کے ذریعے بد دیانتی کر کے مالی فوائد حاصل کیے ان کو بھی کٹہرے میں آنا پڑے گا خاص طور تحائف کو اندرون و بیرون ملک کی مارکیٹوں میں فروخت کرنے والے حکومتی عہدیداروں کے خلاف قانون کا گھیرا تنگ ہو گا کیونکہ انہوں نے پاکستان کے بیرونی مفادات کو صریحاً نقصان پہنچایا، صرف مالی فائدہ حاصل کرنے کے لئے!
دراصل یہ محض اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کا معاملہ نہیں بلکہ قانون کی سنگین خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت نے 2019 میں ہی دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف غیرملکی تحائف کی انڈر پرائسنگ کے حوالے سے نیب میں تحقیقات شروع کروائی اور ریفرنس احتساب عدالت میں بھجوایا تھا جو تا حال زیر سماعت ہے۔ اگر پچھلے حکمرانوں کے خلاف توشہ خانہ میں خیانت کا ریفرنس بن سکتا ہے تو بلاشبہ (سابق) وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی غیر ملکی تحائف کے حصول میں انڈر پرائسنگ کے ذریعے مالی فوائد حاصل کرنے کے معاملے کی نیب تحقیقات ہو سکتی ہیں۔
نتیجتاً عدالت عظمیٰ سے تصدیق شدہ صادق و امین کی صداقت کا نہ صرف از سر نو تعین ہو گا بلکہ پاکستان میں فسطائی سیاست کے لئے بھی یہ مقدمہ ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اٹھارہ ماہ کے دوران راقم نے (سابق) وزیر اعظم عمران خان کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی معلومات کے حصول کی جدوجہد میں جو تکالیف اور دباؤ برداشت کیا وہ ایک الگ کہانی ہے، کیا معلومات تک رسائی کے قانون میں دیے گئے حق کو استعمال کرنے کا خمیازہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ درخواست گزار کی ستر سالہ بوڑھی والدہ کو ہراساں کیا جائے، اسے بیروزگار کروا دیا جائے اور میڈیا ہاؤسز کے دروازے اس کے لئے بند کر دیے جائیں، اس پر جان لیوا حملہ کروانے کی کوشش کی جائے، سر عام دھمکیاں دی جائیں اور درخواست گزار کی حب الوطنی کو چیلنج کیا جائے! یہ ایک ایسی دردناک داستان ہے جس پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، جبکہ میرا عزم ہے کہ (سابق) وزیر اعظم عمران خان کے غیر ملکی تحائف کا مقدمہ منطقی انجام تک پہنچنے کے بعد اس پر کتاب ضرور لکھوں گا۔
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کا گزشتہ روز کا حکمنامہ حبس کے موسم میں تازہ ہوا کا جھو نکا ہے اور امید ہے کہ تازہ ہوا کے یہ جھونکے مستقبل میں بھی جاری رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر