ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیات اللہ خان نیازی ادب نواز دوست ہے، اس کے شعری مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں ، گزشتہ روز اس کا فون آیا کہ علامہ اقبالؒ کی یاد میں تقریب منعقد کر رہے ہیں، آپ میانوالی آئیں ، میں نے ازراہ مذاق کہا کہ آپ کا علامہ اقبالؒ سے کیا تعلق ؟، آپ ابھی عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے صدمے سے تو باہر آئیں، میانوالی بھی آ جائیں گے، حیات اللہ نیازی اپنی عادت کے مطابق جذبات میں آکر کہنے لگا کہ تاریخ پڑھ کر دیکھیں ، علامہ اقبالؒ پر سب سے زیادہ تحقیقی کام میانوالی کے جگن ناتھ آزاد نے کیا ،حیات اللہ نیازی نے غصے میں یہ بھی کہا کہ علامہ اقبالؒ کی فکر خودی کے فلسفے پر صرف عمران خان چل رہا ہے باقی سب چور ہیںاور ساتھ ہی یہ شعر پڑھا خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے 21اپریل مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا یوم وفات ہے، مشاہیر کے تہوار ان کی فکر اور فلسفے پر تجدید کے حوالے سے منائے جاتے ہیں، اگر یہ نہ ہو تو پھر خالی تہوار منانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا، کچھ ناقدین علامہ اقبالؒ کے نظریہ جہاد کو مذہبی انتہا پسندی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں، لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے قطعی طور پر عدم برداشت ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حالات سے زخمی زخمی پاکستان کا خواب نہیں دیکھا تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے افغانستان کے پہاڑوں کی تعریف کی ، ہندو مسلم تضاد کے حوالے سے اُس وقت کی بات تھی مگر بعد ازاں براستہ افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کے عذاب آج تک بھگت رہے ہیں ، آج بھی کوئی دن ایسا خالی نہیں جاتا جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہوا ہو،اس دہشت گردی سے وزیرستان سے ملحقہ سرائیکی علاقے ٹانک ، ڈی آئی خان ، بنوں اور لکی مروت زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔
اقبال اور اس کا عہد ،ا قبال اور مغربی مفکرین ، اقبال اور کشمیر ، اقبال کی کہانی ، محمد اقبال ( ایک ادبی سوانح ) Iqbal, his Potery and Philosophy ، فکر اقبال کے اہم پہلو، مرقع اقبال، اقبال کی زندگی ،شخصیت اور شاعری ، Iqbal, mind and art۔جی ہاں ! یہ تمام کتابیں اس ہستی کی ہیں،جو 5 دسمبر 1918ء کو وسیب کی مردم خیز خطے عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے،اس کے والد تلوک چند نے اس کا نام جگن ناتھ رکھا ، ادب کے میدان میں قدم رکھا تو ’’ آزاد ‘‘ ہو گیا ۔
آزاد سے مراد آج کے آزاد نہ سمجھا جائے بلکہ جگن ناتھ تعصب ، تنگ نظری اور مذہبی کینہ پروری سے ’’ آزاد ‘‘ تھے ۔جگن ناتھ کے والدمشہور ادیب اور لکھاری تھے ،آزاد صاحب کو ادبی ماحول گھر سے ملا ، والد نے پڑھنے کیلئے لاہور بھیجا تو وہاں کی ادبی فضا نے ان کے ذہن پر اچھا اثر ڈالا۔ علامہ اقبال سے ملا قاتیوں سے ذہن کے دروازے کھل گئے ، سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے ایس اے وی کا امتحان پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں نوکری کی ۔آزاد صاحب نے علامہ اقبال کی نصیحت کے مطابق پڑھائی سے دوستی کر لی اور مختلف امتحانات پاس کئے،1942ء میں انہوں نے منظوم پڑھنا شروع کر دیا، ان کو اپنی مٹی سے پیار تھا، جگن ناتھ نے قیام پاکستان سے قبل ایک ملی نغمہ لکھا جس کا نام تھا ’’ ذرتے ہیں تیرے ستاروں سے تابناک ،ا ے سر زمین پاک ‘‘ ۔
1992ء میں پہلی عالمی سرائیکی کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں ہم دہلی گئے تو ملاقات کے دوران میں نے جگن ناتھ آزاد صاحب سے پوچھا کہ ’’ آپ سندھ دریاکے کنارے پیدا ہونے والے سرائیکی ہیں ، آپ نے اقبالیات پر بہت کام کیا مگر سرائیکی بارے آپ کا کا م دیکھنے کو نہیں ملتا،اس کی وجہ کیا ہے ؟ ‘‘ جگن ناتھ صاحب نے جواب دیا کہ ’’ میں نے اپنی مادری زبان میں بہت لکھا ہے مگر کم۔ ‘‘ میں نے ڈاکٹر جگن ناتھ سے سوال کیا کہ ’’ آپ نے مسلمانوں کے ایک فلسفی شاعر ( علامہ اقبالؒ ) پر اتنا کام کیا ، آپ کو ہندوستان میں کسی نے کچھ نہیں کہا اور یہ کہ ہندوستان میں اردو کو اچھا نہیں سمجھا جاتا جبکہ آپ نے دہلی میں انجمن ترقی اردو بنائی۔ کیا ہندو ادیب اور دانشور آپ کو یا آپ کے کام کو اچھا سمجھتے ہیں ؟ ‘‘ ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد نے جواب دیا کہ ’’جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو علامہ اقبال کو مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستان کا فخر سمجھتا ہوں ، اس لئے میں نے اپنی زندگی کو اقبالیات کا محور بنایا ہے ۔تاریخی حوالے سے یہ حقیقت ہے کہ جگن ناتھ آزاد ہجرت کے وقت میانوالی سے بھارت چلے گئے اور وہاں علامہ اقبال بارے پہلی تنقیدی کتاب 1960ء میں شائع کرائی، اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ۔
آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ علامہ اقبالؒ کا ریاست بہاولپور کے نواب سر صادق محمد خان عباسی سے گہرا تعلق تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست بہاولپور کی طرف سے علامہ اقبالؒ کو باقاعدہ وظیفہ بھیجا جاتا تھا ، اس سلسلے میں مورخہ 13مارچ 1928ء کو علامہ اقبالؒ نے ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ مسٹر شمس الدین نے میجر شمس الدین کی زبانی مجھ سے کہا تھا کہ سرکار عالی وقار (نواب بہاولپور ) کو ایک قانونی مشیر کی ضرورت ہے ، مجھے یہ شرف بخشا جائے تو میرے لیے یہ بات باعث اعزاز ہوگی‘‘۔
واضح ہو کہ اسی موقع پر ایک درخواست قائد اعظم محمد علی جناح کی بھی آئی ہوئی تھی ،چنانچہ لیگل ایڈوائزری کا فیصلہ محمد علی جناح کے حق میں ہوا ۔ ایک اور خط بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے جو علامہ اقبالؒ نے 5مئی 1929ء کو لاہور سے نواب صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر شمس الدین کو بھیجا اور جس میں انہوں نے لکھا ’’ شکریہ مجھے آپکا بھیجا ہوا الائونس برابر مل رہا ہے‘‘۔ ایک اور تاریخی واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ 1903ء میں بہاولپور میں تاج پوشی کی تقریب تھی، واسرائے ہند کے علاوہ ریاست ہائے متحدہ ہندوستان کے والیان کی کثیر تعداد بھی آئی ہوئی تھی ، علامہ اقبالؒ نے بھی وہاں پہنچنا تھا لیکن وہ نہ آ سکے ، اس موقع پر انہوںنے دربار بہاولپور کے نام سے ایک طویل قصیدہ بھجوایا ، قصیدے کے 46 اشعار ہیں۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا کہ ’’ زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روایتیں ۔ اے تاجدار سطوت اسلام زندہ آباد ‘‘۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر