ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جب سوئی سے ٹانکہ بھریں تو آپ کو علم ہونا چاہیے کہ سوئی کی نوک کہاں سے گزرتے ہوئے، کس کس عضو کو چھید کے کہاں نکلے گی؟ سرجن کے لیے سوئی اور دھاگہ ایسا ہی ہتھیار ہیں جیسا کسی سپاہی کے لیے بندوق۔ اپنے ہتھیار کا استعمال اور اس پہ کنٹرول ہی آپ کو اچھا سرجن بناتا ہے۔
رحم/ بچے دانی کے منہ یعنی cervix پہ ٹانکہ لینا مشکل اس لیے ہے کہ بچے دانی کی شکل الٹی لٹکی ہوئی ناشپاتی کی طرح ہے۔ ناشپاتی کے پھولے ہوئے حصے میں بچہ ہوتا ہے اور ناشپاتی کی گردن یا بچے دانی کا منہ ویجائنا میں کھلتا ہے۔ ویجائنا کے آخیر میں انتہائی تنگ جگہ پہ پہنچنے میں ریاضت درکار ہے۔ چاند کی شکل جیسی سوئی کو رحم کے منہ کے چاروں طرف گھما کر ٹانکہ اس احتیاط سے لگانا کہ مثانہ بھی بچ جائے اور ویجائنا بھی زخمی نہ ہو، تکنیکی طور پہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے ”
”لیکن یہ ٹانکہ کیوں لگاتے ہیں؟“
پاس کھڑی ایک طالبہ نے سوال کیا۔
”آہ۔ بٹیا رانی اس سوال کا جواب تو بہت گمبھیر ہے۔ فی الوقت ہمیں ٹانکے سے نبٹ لینے دو“ ہم نے ہاتھ میں تھامے سوئی دھاگے سے دو دو ہاتھ کرتے ہوئے کہا۔
یہ ہمارا آپریشن تھیٹر تھا، جہاں ہم چومکھی لڑ رہے تھے۔ میز پہ لیٹا ہوا مریض، ہمارے پیچھے کھڑے ہوئے میڈیکل کے طلبہ و طالبات، سپیشلائز کرنے والے تربیتی ڈاکٹر اور اسسٹنٹ کے طور پہ جونئیر ڈاکٹر۔
فارغ ہو کر ہم نے ان طلبا و طالبات کو بتانا شروع کیا۔
”رحم کے منہ پہ لگنے والا ٹانکہ ایک ایسا علاج ہے جس کا فائدہ سو میں سے چار مریضوں کو پہنچتا ہے اور شاید ضرورت بھی انہی چار مریضوں کو ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بے شمار میں سے کون چار؟
بار بار اسقاط حمل سے گزرنے والیاں یا وقت سے پہلے چھٹے یا ساتویں مہینے میں بچہ جننے والی ہر خاتون اس ٹانکے کو لگوانا چاہتی ہے کہ ان کے کانوں تک اس طرح کی باتیں پہنچتی ہیں
میرا بچہ بار بار ضائع ہو جاتا تھا۔ ٹانکہ لگوایا تو بچہ ٹک گیا۔
بچے دانی کا منہ کمزور ہے، اسی لیے بچہ ٹھیک سے پکڑتی نہیں۔
دوران حمل اگر بچے دانی کا منہ کھل جائے تو ٹانکہ ہی علاج ہے۔
پانچویں مہینے میں اچانک خون آنا شروع ہوا اور پھر بچہ ضائع ہو گیا۔
ویجائنا سے بو دار گندا پانی آتا تھا، بس پھر درد شروع ہوئے اور بچہ باہر نکل آیا۔
پانچویں مہینے میں پیٹ کے نچلے حصے میں وزن پڑتا ہوا محسوس ہوا، پھر درد شروع ہوئے اور بچہ پیدا ہو گیا
مجھے پانچویں مہینے ایمرجنسی میں ٹانکہ لگایا گیا، لیکن کامیاب نہیں ہوا۔
مجھے چھٹا مہینہ تھا میں اپنے روزمرہ کام میں مصروف تھی۔ مجھے کسی قسم کا کوئی درد یا بلیڈنگ نہیں تھی۔ میں باتھ روم گئی اور یک دم بچہ باہر نکل آیا۔
اسقاط حمل کے اسباب ہزار ہا ہیں لیکن جو بات مشکل میں مبتلا کرتی ہے وہ یہ کہ زیادہ تر اس بات کا سراغ نہیں ملتا، یہ بچہ ضائع کیوں ہوا؟
ہر اسقاط کے بعد وجوہات پہ بھرپور غور کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن حتمی جواب زیادہ تر نہیں ملتا۔ سائنس دانوں نے اسقاط پہ ریسرچ کے بعد کچھ اسباب کی فہرست بنائی ہے جو ڈاکٹر اپنے مریض کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹری زبان میں حمل کے نو ماہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر حصے میں ضائع ہونے والا حمل یا وقت سے پہلے ہونے والی زچگی کے اسباب مختلف ہوتے ہیں۔
پہلے تین ماہ یا فرسٹ ٹرائمسٹر میں ہونے والے اسقاط قدرت کے اس انتظام کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ ناکارہ مال فیکٹری سے نکلنے ہی نہ دیا جائے اور اسے رد کر دیا جائے۔ یہ اسقاط زیادہ تر بچے میں کروموسومز کی گڑبڑ اور جنیاتی کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسے اسقاط میں اس ٹانکے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔
چار ماہ سے چھ ماہ یا سیکنڈ ٹرائمسٹر میں ضائع ہونے والے حمل میں جنیاتی کمزوریوں یا کروموسومز کی گڑبڑ کا احتمال کم ہو جاتا ہے۔ لیکن کسی اور وجہ سے رحم سکڑنا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں سروکس کھل جاتا ہے، بلیڈنگ ہونی شروع ہو جاتی ہے، بچے کے گرد موجود پانی خارج ہو جاتا ہے اور بعد میں رحم بچے کو بھی باہر نکال پھینکتا ہے۔
وجوہات میں نامعلوم کے علاوہ انفیکشن، آنول کا نیچے ہونا، ماں کو شوگر اور تھائیرائڈ کا مرض ہونا، خون میں جمنے کی صلاحیت زیادہ ہو جانا، بچے دانی میں رسولیاں ہونا، اور بچے دانی کا منہ کمزور ہونا ہیں۔
سات سے نو ماہ یا تھرڈ ٹرائمسٹر میں پیدا ہونے والے بچے کو اسقاط حمل کی کیٹیگری میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ وقت سے پہلے ہونے والی زچگی کہلاتی ہے۔
چوتھے سے چھٹے مہینے میں ہونے والے اسقاط میں زیادہ تر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بچے دانی کا منہ یعنی cervix کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ کھوج لگانا کہ بچے دانی کا منہ اس میں موجود کمزوری کی وجہ سے آپ ہی آپ کھل گیا، یا کسی اور وجہ نے cervix کو کھلنے پہ مجبور کیا، ڈاکٹروں کو ناکوں چنے چبواتا ہے۔ بے شمار اور وجوہات میں سے وہ وجہ تلاش کرنا بھوسی میں سے سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔
ایک اہم نشانی یہ ہے کہ جب سروکس یا بچے دانی کا منہ اپنی کمزوری کی وجہ سے کھل جائے، ایسی صورت میں حاملہ کو نہ درد ہو گا، نہ بلیڈنگ، نہ پانی کا خروج ہو گا اور نہ ہی کوئی اور تکلیف۔ حاملہ روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہو گی اور بچہ اپنی جھلی سمیت باہر نکل آئے گا۔
دوسری صورت جب سروکس یا بچے دانی کا منہ کمزور نہ ہو، تب حاملہ خاتون کو کوئی نہ کوئی ایسی تکلیف ہو گی جس کے نتیجے میں بچے دانی سکڑ کر سروکس کو کھولتے ہوئے باہر نکال دے گی۔ ایسی صورت میں درد اور / یا بلیڈنگ دیکھی جا سکتی ہے۔
اس صورت حال سے کیسے نمٹا جائے؟
پانچویں ماہ میں اسقاط کا شکار ہونے والی آپ کے سامنے بیٹھی شدید اضطراب کا شکار ہے۔ وہ سمجھنا چاہتی ہے کہ اس کا حمل ضائع کیوں ہوا؟ وہ اگلے حمل کے بارے میں پریشان ہے کہ اگر پھر سے ایسا ہوا تو؟
یہ وہ مسئلہ ہے جو گائناکالوجسٹ کی زندگی میں تقریباً ہر دوسرے دن نظر آتا ہے۔ عام چلن یہ ہے کہ چوتھے سے چھٹے مہینے کا حمل اگر ضائع ہو چکا ہو تو اگلے حمل میں چوتھے مہینے کی ابتدا میں بچے دانی کے منہ یا سروکس پر ٹانکہ لگوانے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ منہ جب بھی من مانی کرتے ہوئے کھلنے کی کوشش کرے، یہ ٹانکہ اسے پکڑ کر روک دے۔
اس ٹانکے کا سفر انیس سو پچپن میں شروع ہوا اور مختلف ناموں سے وابستہ ہوتا ہوا آج Cervical cerclage بن چکا ہے۔ سر کلاج فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہک کے ہیں۔
انیس سو پچپن میں ایک ہندوستانی ڈاکٹر شروڈکار نے اس کی تکنیک وضع کی اور اسے شروڈکار ٹانکے کا نام دیا گیا۔ دو ہی سال بعد آسٹریلین ڈاکٹر میکڈانلڈ نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں اور تبدیلی زدہ ٹانکہ میکڈانلڈ بن گیا۔ آج اکیسویں صدی میں اس ٹانکے کا آسان اور فائدہ مند روپ سامنے آ چکا ہے جس کا ہم نے ذکر کیا۔
اس ٹانکے کے لیے ایک خاص طرح کا دھاگہ بنایا گیا ہے جسے مرسیلین ٹیپ کہا جاتا ہے ۔
چودہ سے سولہ ہفتے کے حمل میں مریض کو آپریشن تھیٹر میں لے جا کر یہ ٹانکہ لگایا جاتا ہے۔ بے ہوشی کے لیے کبھی کمر میں ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور کبھی مکمل بے ہوشی دی جاتی ہے جس کی مدت بہت مختصر ہوتی ہے۔ آپریشن تھیٹر کی تیز روشنیوں میں ویجائنا میں اوزار ڈالتے ہوئے بچے دانی کے منہ کو پکڑا جاتا ہے۔ پھر مرسیلین ٹیپ سے سروکس کے گرد گھومتے ہوئے تین یا چار ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔ ٹانکوں کی پوزیشن کو عموماً گھڑی کی سوئیوں کی پوزیشن سے واضح کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ نو بجے، چھ بجے، تین بجے اور بارہ بجے والی پوزیشن۔ چاروں طرف ٹانکہ لگا کر اسے مضبوطی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ سروکس یا بچے دانی کا منہ نہ کھل سکے۔
ٹانکے کی کامیابی اس بات پہ ہے کہ اگر سروکس واقعی کمزور ہو اور اسے ٹانکے کی ضرورت ہو۔ اگر سروکس کمزور نہ ہو اور وہ کسی اور وجہ سے کھل جاتا ہے، تب مرسیلین ٹیپ سروکس کو بند رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
کبھی کبھار یہ ٹانکہ ایمرجنسی میں بھی لگایا جاتا ہے جب سروکس پوری طرح نہ کھلا ہو مگر کھلنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہو۔ ایسی صورت میں نڈھال اور نحیف سروکس پہ لگائے گئے ٹانکے کی کامیابی کافی مشکوک ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز اسے آخری حربے کے طور پر لگاتے ہیں کہ شاید۔
یہ بلاگ ایک بہت ہی پیاری لڑکی پہ پڑی بپتا کے لیے ہم نے لکھا ہے۔ وہ ہماری تحریر کو گھول کر پینے کی عادی ہے۔ ویسے تو ہم لکھتے ہی عورت کے لیے ہیں کہ یہی ہمارا گائنی فیمنزم ہے لیکن یہ بلاگ رائٹر اور قاری کے بیچ موجود رشتے کو نباہنے کی ایک کوشش ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر