نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صاحب! سلیکشن کا معیار بہتر کیجیے|| راناابرارخالد

یعنی سیاست میں گالم گلوچ اور کردار کشی کا کلچر، اقتدار بچانے کے لئے بیرونی سازش کے نام پر ملک کے خارجی مفادات سے بے دریغ کھیلنا اور آئین کو کم تر قرار دے کر کھلواڑ کرنے سمیت انمٹ نقوش ہیں جو پونے چار سالہ تبدیلی کی دین ہیں۔

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

25 جولائی 2018 سے شروع ہونے والا تبدیلی کا (پونے چار سالہ سفر) بالآخر 10 اپریل کو تمام ہوا، پاکستان میں تبدیلی کی واپسی کو غیر ملکی سازش سے تعبیر کیا جائے یا پھر اس کو مصنوعی تبدیلی کا منطقی انجام کہا جائے، فی الحال اس حوالے سے پاکستانیوں کی رائے منقسم ہی رہے گی۔ تاہم یہ موقع ہے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا، اس بات کا جائزہ لینے کا کہ پونے چار سالہ ’تبدیلی‘ پاکستانی معاشرے پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ کے جا رہی ہے یا نہیں!

دراصل یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا، اسٹیبلشمنٹ کو ایک ایسے لیڈر کی تلاش رہی ہے جو بھٹو کے بھوت کو قبر میں اتار سکے کیونکہ اس نے کہا تھا ”جن چھوڑے بھوت چھوڑے، بھٹو نہ چھوڑے“ ۔

لہٰذا اس ’عظیم تر‘ مقصد کے حصول کے لئے گزشتہ بیالیس سال کے دوران متعدد تجربے بھی کیے گئے جو ناکامی سے دو چار ہوئے، دراصل اسٹیبلشمنٹ کو ایسا رہنما چاہیے جو موجودہ کمپوزیشن کے ساتھ ریاست کو قائم رکھ سکے، معیشت کو بھی کسی حد تک ترقی دے، مگر ریاست کو عوام کی دست برد سے بچائے رکھے۔ یعنی حقیقی حکمرانی تو اسٹیبلشمنٹ کی ہو اور سیاہ و سفید کے تمام فیصلے بھی اسٹیبلشمنٹ کرے لیکن بظاہر ایسا لگے کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے اور عوام کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔

اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست حکومت کر کے بھی دیکھ لیا، ملکی سیاسی قیادت کو بیرون ملک دھکیل کر پسندیدہ سیاستدانوں کے ذریعے کنگ پارٹی تخلیق کر کے بھی، سیاسی قیادت کے خلاف کرپشن و بدعنوانی کے مقامات قائم کر کے اور انہیں طویل عرصہ کے لئے جیلوں میں بھجوا کر بھی، عوام کے اندر جڑیں رکھنے والی سیاسی جماعتوں میں اپنے لوگوں کو گھسا کر بھی دیکھ لیا، حتی کہ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ کر کے کمزور و ناتواں حکومتیں بنوا کے بھی دیکھ لیا گیا۔

مگر معاملات پھر بھی حل نہیں ہوئے بلکہ مزید پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ اب ایک ہی تجربہ باقی رہ گیا تھا کہ ایک ایسی شخصیت کو سامنے لایا جائے جو پہلے سے عوام میں مقبول ہو، اس کا کوئی سیاسی نظریہ نہ ہو اور اس کے ساتھ سرکاری نصاب پڑھ کر جوان ہونے والی نئی نسل کو جوڑ کر سیاست کی پیرا ڈیم کو شفٹ کیا جائے، یعنی ووٹ کا معیار نہ تو نچلے طبقات اور محروم قوموں کے حقوق کی جدوجہد ٹھہرے اور نہ ہی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے چھوٹے بڑے منصوبے ووٹ کو اپنی طرف کھینچ سکیں، بلکہ سماجی نظام کی ساخت کو تبدیل کیے بغیر سیاست کی پیرا ڈیم کو بدل ڈالنے کا خواب دیکھ لیا گیا۔

بلاشبہ عمران خان اس معیار پر پورے اترتے تھے اور وہ کافی عرصہ سے بغیر کسی نظریہ کے سیاست میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، جن کا اپنا کوئی سیاسی نظریہ نہیں تھا بلکہ وہ محض کرکٹ کے شائقین کے ہیرو تھے، نیز عام آدمی بھی کسی حد تک انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا چلو کسی اور میدان میں نہ سہی کرکٹ میں سہی مگر عمران خان نے ورلڈ کپ جتوا کر پاکستان کا نام روشن تو کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا اس وقت واقعی سہولت محسوس کر رہے تھے جب عمران خان بغیر کسی بحث و مباحثے اور بنا کسی رد و کد لکھے لکھائے دعوے اور وعدے فرفر پڑھ کر لوگوں کو سنائے جا رہے تھے، کیونکہ ایسا صرف وہی شخص کرتا ہے جو سیاست کی الف ب سے ناواقف ہو، ورنہ سیاست کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی کب کہے گا کہ اقتدار ملتے ہی پہلے ہفتے کے دوران غیر ملکی بینکوں میں جمع (کرپشن کے ) دو سو ارب ڈالر واپس لا کے سو ارب ڈالر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے منہ پہ ماروں گا اور بقیہ سو ارب ڈالر سے ملک کو ترقی دوں گا، آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کو ترجیح دوں گا، نوے روز میں کرپشن کا خاتمہ کروں گا، نتیجتاً پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور گورے لوگ پاکستان میں آ کے روزگار ڈھونڈنے کے لئے آئیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی زمینی حقیقتوں سے اس قدر دوری بھلا شدید قسم کی ناکامی کے علاوہ کیا رنگ لا سکتی تھی، کیا وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں اور گاڑیاں فروخت کرنے سے کبھی معیشت کا بحران ختم ہوا ہے؟

گو مرغیاں پالنا، انڈے بیچنا، کٹے پالنا مائیکرو سطح پر اچھے اقدامات ہیں لیکن میکرو اکنامکس کا متبادل کیونکر ہو سکتے ہیں، نہ تو اس کے ذریعے ایک کروڑ نوکریاں دی جا سکتی ہیں اور نہ ہی پچاس ہزار گھر بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر ماسٹرز بھی خاموش رہے، نہ صرف خاموش بلکہ ایسے جزوی یا فروعی اقدامات کی حقیقت آشکار کرنے والی ہر آواز کو خاموش کیا جاتا رہا وہ چاہے اپوزیشن ہو یا میڈیا کی آواز۔ چلو یہ بھی کر کے دیکھ لیا گیا، پھر بھی نتیجہ کیا نکلا؟

دراصل ایسے اقدامات کے نتائج کیا خاک برآمد ہونا تھے، لیکن نتائج تو پھر بھی برآمد ہوتے ہیں کیونکہ معاشی اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے معاشی نتائج کو روکا تو جا نہیں سکتا۔پردہ چاک اس وقت ہوا جب سٹیٹ بینک کی مقرر کردہ شرح منافع پونے دس فیصد تھی اور کائبور ساڑھے تیرہ فیصد، یعنی کمرشل بینک ساڑھے تیرہ فیصد شرح منافع سے کم پر حکومت کو قرضہ دینے کو نقصان کا سودا سمجھ رہے تھے۔ معیشت کا یہ پہلو اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ بتائے جانے والے تمام معاشی اشاریوں میں کم ازکم تین فیصد کی کٹوتی کر دی جائے۔

مذکورہ بالا صورتحال یہ ثابت کرتی ہے کہ پونے چار سالہ تبدیلی کا دور اپنی کامیابیوں کے حوالے سے تو شاید پاکستانی معاشرے پر کوئی بھی انمٹ نقوش چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، البتہ تبدیلی ہمارے معاشرے اور سیاست پر کئی ایسے انمٹ نقوش چھوڑ کے جا رہی ہے جو طویل عرصہ تک قائم رہیں گے۔ یعنی سیاست میں گالم گلوچ اور کردار کشی کا کلچر، اقتدار بچانے کے لئے بیرونی سازش کے نام پر ملک کے خارجی مفادات سے بے دریغ کھیلنا اور آئین کو کم تر قرار دے کر کھلواڑ کرنے سمیت انمٹ نقوش ہیں جو پونے چار سالہ تبدیلی کی دین ہیں۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ اسباق بھی ہیں جو تبدیلی عوام، صحافیوں و دانشوروں اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے چھوڑے جا رہی ہے۔ اول یہ کہ عوام کو خیال و خواب کی چپڑی روٹیوں کی بجائے حقیقت کی دنیا میں دستیاب روکھی سوکھی کی قدر کرنی ہو گی، دوئم یہ کہ صحافیوں و دانشوروں کو پروگریس کرتی معیشت کے دوران چھوٹی موٹی بے قاعدگیوں کو رائی کا پہاڑ بنانے کا وتیرہ چھوڑنا ہو گا، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتاؤں سے دست بستہ گزارش ہے کہ آئندہ کے لئے سلیکشن کا معیار بہتر کیجیے، محض ذاتی شہرت اور ظاہری فرمانبرداری ہی کافی نہیں بلکہ اہلیت اور سیاسی ویژن بھی کوئی چیز ہوتی ہے ورنہ آئین کی شقوں اور عدلیہ کے فیصلوں کا مفہوم سمجھانے کے لئے پارلیمنٹ کے باہر قیدیوں والی گاڑیاں کھڑی کرنا پڑتی ہیں!

About The Author