نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آنے والی حکومت سے توقعات||ظہور دھریجہ

اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ طاہر القادری کی جماعت کا سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کی روحیں ابھی تک انصاف کیلئے تڑپ رہی ہیں۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی جس کے بعد وہ ملک کے وزیراعظم نہیں رہے اور ساتھ ہی عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔ عدم اعتماد کے علاوہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ لیاقت علی خان سے لیکر یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف تک طویل فہرست ہے۔ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم بن جائیں گے، میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم کسی سے نہ بدلہ لیں گے نہ جیلوں میں ڈالیں گے ۔
 یہ صرف سیاسی بیان ہے یا حقیقی معنوں میں ایسا ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ کہا جاتا ہے کہ متقدر حلقوں کی عمران خان سے ملاقات کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے استعفیٰ دیا اور ایوان کی کارروائی ایاز صادق کے سپرد کی جس کے نتیجے میں عدم اعتماد کی کارروائی مکمل ہوئی۔ عمران خان کے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ’’ویلکم بیک ٹو پرانا پاکستان‘‘کا سلوگن دیا ہے جو کہ بنیادی طور پر غلط ہے کہ نئی بات ، نئی سوچ اور کسی بھی ملک کیلئے نئے اقدامات کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور ہر پرانی چیز مسترد ہوجاتی ہے۔ بلاول بھٹو کے اس نعرے پر بھی تنقید ہو رہی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کے نئے پاکستان کو ختم کر دیا۔ بلاول ابھی بچے ہیں، ان کو اپنے نعروں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے۔
تحریک انصاف نے 10 اپریل کو یوم سیاہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہر سال 10 اپریل یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت اصولی طو رپر 9 اپریل کو ختم ہوئی، اگر یوم سیاہ منانے ہے تو 9 اپریل کو منایا جائے کہ 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کا آئین منظور ہوا تھا اور پاکستان میں یہ دن خوشی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے قومی اور عالمی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا، آنے والی حکومت نے ابھی تک اپنی ترجیحات کا اعلان نہیں کیا، امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی صورتحال کو مانیٹر کر رہے ہیں۔
 آنے والے حکمرانوں کا امریکا کی طرف جھکائو بھی سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اقتدار میں کتنا حصہ ملتا ہے ، اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتی ہیں تو ایم کیو ایم دوہرے فائدے میں ہے کہ مرکز کے علاوہ سندھ میں بھی اسے مراعات حاصل ہوں گی، دیگر منحرفین کے ساتھ طارق بشیر چیمہ جیسے لوٹے بھی فائدے میں رہیں گے کہ بقول چوہدری سرور پچھلے دور میں طارق بشیر چیمہ بہاولپور کے گورنر بنے ہوئے تھے اور بہاولپور میں ان کی مرضی کے بغیر کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا ہے ۔
چولستان میں زمینوں پر ناجائز قبضوں کا بازار گرم ہوااور صدیوں سے آباد مقامی افراد کی قدیمی بستیوں کو بلڈوز کیا جاتا رہا اور مقامی افراد پر اس قدر تشدد ہوا کہ خواتین کی بھی ہڈیاں پسلیاں توڑ دی گئیں ، مظلوم افراد پولیس، عدلیہ ، میڈیا حتیٰ کہ بہاولپور کے ساتھ لاہور اور اسلام آباد کے ایوانوں تک بھی پہنچے ، احتجاج کیا مگر شنوائی نہ ہوئی۔ تحریک انصاف کی طرف سے 20 منحرف ارکان کے خلاف ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی کو جمع کرا دیا گیا اور الیکشن کمیشن کو بھی درخواست دیدی گئی ہے، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ منحرفین کو تاحیات نا اہل قرار دلوانے کیلئے عدالتوں سے رجوع کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کو اس وقت تحفظات ہیں ، سوشل میڈیا پر بھی بہت تنقید ہو رہی ہے اور یہ سوال بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کہ پارلیمنٹ مقدم ہے یا عدلیہ ؟
 اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ طاہر القادری کی جماعت کا سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کی روحیں ابھی تک انصاف کیلئے تڑپ رہی ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ وسیب میں بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے آ رہے ہیں ، وسیب کی شناخت کو مسخ کیا جا رہا ہے، وسیب کے وسائل بیدردی کے ساتھ لوٹے جا رہے ہیں ، وسیب کو صوبے کا درجہ دینے کیلئے آئین ساز ادارے سینیٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کر رکھا ہے، بارہا اپیلوں کے باوجود عدلیہ نے از خود نوٹس نہیں لیا، عدلیہ کو اس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں کہ سب کو برابر انصاف ملے ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تعلق خوشاب سے ہے ، چولستان کی طرح تھل کے اضلاع میانوالی، خوشاب ، جھنگ ، لیہ اور مظفر گڑھ میں بہت زیادہ ناجائز الاٹمنٹیں ہوئی ہیں اور مقامی افراد کی تیسری نسل عدالتوں میں مقدمات لڑ رہی ہے ان کو فوری انصاف ملنا چاہئے۔ آنے والے حکمرانوں کو خارجہ پالیسی، گڈ گورننس، کرنسی برآمدات، انڈسٹری، غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے ساتھ صوبے کے قیام کیلئے بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہئے۔
صوبے کا وعدہ تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے، عمران خان کی حکومت نے صوبے کا وعدہ وفا نہ کیا، یہ قدم ملک و قوم کی بہتری کیلئے پی ڈی ایم کو اٹھانا چاہئے اور بلاتاخیر صوبہ بنا دینا چاہئے ۔ آنے والے حکمرانوں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عمران خان کو مردہ گھوڑا نہیں سمجھنا چاہئے وہ اب بھی طاقتور ہے ، نوجوانوں کے دل سے عمران کو نہیں نکالا جا سکا، اگر اسے مدت پوری کرنے دی جاتی تو وہ سیاسی طور پر آئوٹ ہو جاتے مگر اب وہ مظلوم بن کر آنے والے حکمرانوں پر ظالمانہ وار کریں گے لہٰذا آنے والی حکومت کو بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینا ہوگی اور محکوم طبقات و پسماندہ علاقوں کو ان کے حقوق دینا ہونگے ۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author