دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ویلکم ٹو پرانا پاکستان||ملک سراج احمد

صد شکرکہ رکا نہیں

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو کے خوبصورت لب ولہجے کے شاعر قابل اجمیری کی غزل کا شہرہ آفاق شعر عرض خدمت ہیں کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ایسے ہی 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کا ایک دم سے حادثہ رونما نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی محنت ، کوشش ، اور پرورش تھی۔جانے کیا کچھ سوچ کر اس کو نکھارا گیا نوک پلک سنواری گئی۔ایک ایک خامی پر قابو پایا گیا اس کے ساتھ ایک ایسا ہجوم اکٹھا کیا گیا جو مشرقی اخلاقیات ، سیاسی روایات کا انکاری تھا جو تبدیلی کا خواہشمند تھا جس کے نزدیک سیاسی فلسفہ صرف اور صرف کسی کو گالی دینا تھا کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانا تھا جن کے نزدیک ہر شخص چور اور غدار تھا
نوجوان نسل میں ایک ہیجان ایک جنون پیدا کیا گیا۔30 اکتوبر 2011میں کپتان کے جلسہ نے گویا بازی پلٹ کر رکھ دی۔ اس کے بعد تو گویا کپتان کی مقبولیت نے ہر سیاسی فلسفے کو روند کے رکھ دیا۔انسانی نفسیات سے کھیلا گیا کپتان سے اسٹیج پردوران تقریر ہروہ بات کرائی گئی جو عوام سننا چاہتی تھی ۔ہر وہ وعدہ کیا گیا جس کو پورا کرنا نا تو ملکی معاشی نظام کے بس میں تھا اور نا ہی اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ تھا۔لاکھوں گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان بے روزگار نوجوان نسل کے لیے گویا کسی من وسلوی سے کم نہیں تھا۔
افتخار عارف نے ایک شعر کہا تھا کہ کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے ۔۔۔ یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشہ ختم ہوگا ۔آج 10 اپریل کو جب عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں جب تماشہ ختم ہوا تو یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ کہانی کس نے الجھائی تھی اور کیوں الجھائی تھی۔ملک کی 75 سالہ تاریخ میں سے اگر مارشل لا کے ادوار کو نکال دیا جائے تو باقی ماندہ جمہوری مدت 45سال بنتی ہے اور اس مدت میں پروان چڑھنے والی جمہوری قوتیں حد درجہ مصائب اور تکالیف دیکھنے کے باوجود اپنے آپ کو اس باب قبولیت کے قابل نا بناسکیں جہاں سے طاقت اور اقتدار کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔
ان سیاسی جماعتوں کو ہر بار لولا لنگڑا اقتدار ہی دیا گیا بے سروسامانی کی سی کیفیت رہی۔ایک دوسرے سے الجھائے رکھا گیا۔ایک تماشہ سا بنا دیا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ عام آدمی کا جمہوریت اور جمہوری قوتوں سے ایمان ہی اٹھ گیا۔ایسے میں ایک نئی سیاسی قوت تشکیل دینے کا پروگرام بنایا گیا۔ایک ایسی قوت جس کا چہرہ تو جمہوری ہو مگر اس کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔اور اس کے لیے کپتان سے زیادہ بہتر انتخاب اور کیا ہوسکتا تھا۔
اور پھر غبارے میں ہوا بھری گئی ایک مسیحا کو لانچ کیا گیا۔ مسائل میں گھری ہوئی قوم کے لیے عظیم خیالات کا حامل ایک مہاتما سیاسی میدان میں بھیج دیا گیا۔ہر ممکنہ مدد فراہم کی گئی ۔سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔طاقتور سیاسی شخصیات کو مجبور کرکے اس کی گود میں ڈال دیا گیا۔ملک میں دستیاب دیگرمخالف سیاسی شخصیات کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔من پسند کھلاڑی کے لیے گویا میدان ہی صاف کردیا گیا کہ جیسے چاہو کھیلو۔
سلیکٹرز کی تھپکی اور اعتماد سے کپتان کی پرفارمنس مزید بہتر ہوتی گئی۔ ہر آنے والا دن سیاسی کامیابیوں کی نوید لے کر آیا۔ کپتان کے کھلاڑیوں کا جوش اور جنون بھی انتہا ہو چھونے لگا۔بالآخر سلیکٹرز نے اپنے دس سالہ منصوبے کو 2018 کے عام انتخابات میں عملی طور پر نافذ کردیا۔ ملکی سیاسی ماحول میں ایک تبدیلی آگئی سب کچھ تبدیل ہونے لگ گیا۔سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہی ہورہا تھا۔جہاں کہیں رکاوٹ محسوس ہوئی اس کو فوری طورپر دور کردیا گیا۔
اب کپتان کے کھیلنے کا وقت تھا۔یہ شائد پہلا میچ ہوگا کہ جس میں کھلاڑی بھی اپنے ، کپتان بھی من پسند اور تماشائی بھی اپنے تھے جبکہ ایمپائر ہی تو یہ میچ کروا رہے تھے ۔سو کامیابی یقینی تھی ۔مگروقت گذرنے کے ساتھ ساتھ احساس ہونے لگا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیئے جس تدبر ، فہم وفراست اور سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے اس کا شدید فقدان ہے ۔ اس کے لیے نان الیکٹڈ پروفیشنلز مدد کو لائے گئے ۔پے در پے کھلاڑیوں کی پوزیشن تبدیل کی گئی مگر نتیجہ کچھ نا نکلا۔
ایسے میں پہلے سے موجود سیاسی قوتیں جمع ہونا شروع ہوئیں ان کے باہمی ڈائیلاگ میں ایک بات طے ہوئی کہ اس دس سالہ منصوبے سے جان چھڑائی جائے ۔ایک کوشش شروع ہوئی ۔سیاسی میدان پھر سے سجنے لگا کپتان کی پرفارمنس مزید خراب ہوتی گئی۔جس طرح کامیابی ملی تھی بالکل اسی طرح ناکامی مقدر بنتی گئی۔ ہر ضمنی الیکشن میں شکست ، ہوم گراونڈ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست نے تو حوصلے پست کردئیے۔سلیکٹرز کی مایوسی بھی بڑھتی گئی بلکہ ایک وقت ایسا آیا کہ سلیکٹرز غیر جانبدار ہوگئے جس نے کھیل کو مزید بگاڑ دیا۔
بالآخر بلاول بھٹو کے مطابق ایک غیر جمہوری شخص کو جمہوری جدوجہد کے زریعے نکالنے کے لیئے عملی کوششوں کا آغاز ہوا۔اور یوں کامیابی متحدہ اپوزیشن کا مقدر بنی ۔سلیکٹرز کے دس سالہ پروگرام کو ساڑھے تین سال میں عدم اعتماد کے زریعے اپنے انجام تک پہنچا دیا گیا۔اس پر سیاسی جماعتوں کی دوراندیشی اور انتھک محنت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اس کا سہرا بلاشبہ سابق صدر آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، شہباز شریف، اسفند یار ولی ، اختر مینگل سمیت تمام متحدہ اپوزیشن کو جاتا ہے ۔
سیاسی سفر جاری رہے گا۔سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتی رہیں گی اور بالآخر ایک مضبوط سیاسی کلچر تشکیل پاجائے گا۔یہ عمل آہستہ سہی مگر صد شکرکہ رکا نہیں ۔یہی سفر ہی تو ہے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ ویلکم ٹو پرانا پاکستان اور یوں قوم نے نئے پاکستان کے سراب اور دھوکے سے نجات حاصل کی۔حرف آخر کہ سلیکٹرز کے دس سالہ منصوبے کی ناکامی پر سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے ۔ امید ہے سلیکٹرز کی مداخلت کے بغیریہ جمہوری سفر اسی طرح جاری رہے گا۔

————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author