ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آج شام کافی پینے چلیں؟“
”نہیں آج نہیں“
”کیوں کیا ہوا؟“
”طبعیت ٹھیک نہیں، چیتھڑوں میں ہوں“
”اوہ۔“
اگر آپ کے سامنے دو سمارٹ اور خوش لباس لڑکیاں انگریزی میں یہ گفتگو کر رہی ہوں تو یہ سن کر آپ کا دماغ تو چکرا ہی جائے گا نا کہ کون سے چیتھڑے بھئی؟ اپنے اچھے خاصے کپڑوں کو یہ چیتھڑے کیوں کہہ رہی ہیں اور اگر ایسا سمجھ بھی رہی ہیں تو بھلا کافی پینے سے اس سے کیا تعلق؟
چلیے آج آپ کو ان چیتھڑوں کی کہانی سنا ہی دیں جو صدیوں سے عورت کہانی کا ایک حصہ ہیں۔
ہسپتال میں کام کرتے ہوئے یہ تو ہم دیکھ چکے تھے کہ عورتیں جب بھی کسی تکلیف سے آتیں، پردے کے پیچھے جا کر اپنا معائنہ کروانے سے پہلے ایک بوسیدہ میلا کچیلا کپڑے کا ٹکڑا ٹانگوں کے بیچ سے نکالتیں، جس کے دونوں سروں پر ستلی جیسی ڈوری ہوتی جو کمر پہ اٹکی ایک دھجی سے بندھی ہوتی۔ خدایا۔ کیا یہ جانتی ہیں کہ جراثیم سے بھرا بم اپنے جسم سے باندھ کر گھوم رہی ہیں، موت ایک چھوٹے وائرس یا بیکٹیریا میں کیسے چھپی ہوتی ہے، کووڈ کے بعد یہ بات بچہ بھی جانتا ہے۔
پھر خیال آتا، آخر وہ بھی کیا کریں؟ مفلسی میں آٹا گیلا کے مصداق غریبی اور ماہواری، کیا کریں اور کیسے کریں؟
لیکن دیکھا جائے تو بات مفلسی تک محدود نہیں رہتی، معاملہ ترجیحات پہ بھی آ کر اٹک جاتا ہے۔ ایسے میں ہم یہ سوال کیوں نہ اٹھائیں کہ ہماری ماؤں اور نانیوں کے لیے ریاست یا معاشرے نے کیا سہولت فراہم کی؟ یا ایسا کچھ کرنے کا سوچا؟
یونیسف کے شعبہ برائے واٹر، سینیٹیشن اینڈ ہائیجین کے سربراہ سنجے وجسکرا کا کہنا ہے،
”لڑکیوں اور عورتوں کی ماہواری سے وابستہ ضروریات کا خیال رکھا جانا ان کا بنیادی انسانی حق ہے اور اس کی خلاف ورزی کسی بھی اور انسانی حق کی خلاف ورزی کے برابر ہے“
سوچیے کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ عورت تمام عمر اس کٹھن راہ سے کیسے گزرتی ہے؟
ہمیں یاد ہے کہ اماں استعمال کے بعد گھس جانے اور مزید پہننے کے قابل نہ رہنے والے پرانے کپڑوں کو کس اہتمام سے سنبھالا کرتی تھیں۔ ان کپڑوں کی سلائیاں ادھیڑ دی جاتیں اور موٹے کنارے کاٹ کر علیحدہ کر دیے جاتے۔ پھر ان کو دھو اور سکھا کے پیڈز کے سائز میں کاٹ لیا جاتا۔ یکساں سائز میں کٹے ہوئے کپڑوں کو کئی تہوں میں موڑ کر دبیز پیڈ کی شکل دے کر انہیں کسی لفافے میں سنبھال لیا جاتا۔ یہ ماہواری لفافہ تھا۔ لیکن استعمال شدہ سب کپڑے پیڈ بنانے کی خوبی پہ پورے نہیں اترتے تھے۔ ریشمی کپڑا خون جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اور موسم سرما کے موٹے کپڑے چبھتے بہت تھے۔ آئیڈیل پیڈ بنانے کا کپڑا نرم و ملائم کاٹن کا ہونا چاہیے تھا جو ٹانگوں کے درمیان رگڑ کھا کر جسم کو زخمی نہ کرتا۔
استعمال شدہ پرانے کپڑوں سے پیڈ بنا کر استعمال کرنے سے اصطلاح ایجاد ہوئی ”on my rag“ جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا اور جسے اشارے کے طور پہ ماہواری کا ذکر کرنے کے لئے کہا جانے لگا۔ صاحب ہمیں تو الفاظ سے کھیلنے میں مزا آتا ہے اس لیے ہم نے ریگ کا لفظی ترجمہ چیتھڑے لکھا لیکن عام بول چال میں ”کپڑے آئے ہوئے ہیں“ کا اشارہ ہی دیا جاتا ہے۔
خیر ہم بات کر رہے تھے اماں کے زمانے کی، وقت کچھ اور آگے گزرا تو روئی کے بنڈل میڈیکل سٹورز پر نظر آنے شروع ہوئے۔ روئی کو مناسب سائز میں کاٹ کر اس کے اوپر زخموں پہ لپیٹی جانے والی پٹی لپیٹ دی جاتی۔ گھریلو رنگ برنگے کپڑوں کی جگہ نسبتاً ایک مہذب قسم کا پیڈ تیار ہو جاتا۔ اسی زمانے میں بازاری پیڈ بھی نظر آنا شروع ہوئے مگر ان کی ایک قباحت یہ تھی کہ ذرا سا زیادہ خون آنے کی صورت میں لیک ہو جاتے اور خون کے داغ شلوار پہ نظر آنے لگتے۔ اس خطرے کے پیش نظر بہت سے لوگ سبکی سے بچنے کے لیے ماہواری میں کالے رنگ کے کپڑے پہننا پسند کرتے۔
اپنی ماں کو ہم نے کپڑا استعمال کرتے دیکھا، بہن کو روئی کا بنڈل اور پٹی اور جب بات ہم تک پہنچی تو بازاری پیڈز کی ہر طرف بہار تھی۔ لیکن بیسویں صدی میں ہر عورت ایسی خوش قسمت نہیں تھی۔
دیہات اور گاؤں کی عورت کو ہم نے بہت قریب سے دیکھا۔ بچپن میں ننھیال کا گاؤں اور ڈاکٹر بن کر نوکری کی صورت میں۔ گاؤں میں صبح سویرے عورتیں فراغت حاصل کرنے کھیتوں میں کھڑی فصلوں میں جا گھستیں۔ کئی ایک کے ہاتھ میں خستہ حال رنگ برنگا کپڑا بھی نظر آتا جسے دیکھ کر ہم سوچتے کہ کہ اتنے بڑے رومال سے کیا کریں گی یہ؟ چھینٹ کے ان رومالوں کی حقیقت بہت بعد میں کھلی۔ لیکن کھیت میں بیٹھ کر حوائج ضروری کے ساتھ ماہواری کا بھی انتظام کرنا۔ واللہ ہمیں تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
بہت بعد میں جب ہم نے ان معاملات کے متعلق سوچا ہمیں بار بار ایک ہی خیال آیا کہ کہ جب گھروں میں پرانے کپڑے وافر تعداد میں نہیں ہوتے ہوں گے تب قدیم زمانوں کی عورت ماہواری اور زچگی کے بعد آنے والے خون کو کیسے سنبھالتی تھی آخر؟
دیہات کی غریب عورت کا حال دیکھنے کے بعد اس خیال نے تب بھی پیچھا نہ چھوڑا جب ہم دنیا کی سیر کو نکلے۔ فرانس کی ملکہ میری فیم ”آخر یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے“ کے مشہور زمانہ محل ورسیلز میں گھومتے گھومتے کیا کچھ نظر نہ آیا۔
عالیشان چھپر کھٹ سے سجی خواب گاہیں، چھتوں سے لٹکے فانوس، ہر موڑ پر سجے مجسمے، دبیز پردے، منقش فرنیچر، چمکتے آئینے، بھاری اور روشن فانوس پر شکوہ برآمدے اور دالان، سبھی کچھ لاجواب تھا مگر حوائج ضروری کا کمرہ کہیں تھا ہی نہیں۔ ملکہ تو وہ تھیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ماہواری نہیں ہوتی ہوگی۔ فطرت انسانی ملکہ اور خادمہ کے بیچ تفریق کا لحاظ کہاں کرتی ہے؟
یہی کچھ قاہرہ میں ہوا۔ گھنگھریالے بالوں اور گہرے گندمی رنگ کی مالک فرعونہ تیا کو شیشے کے بکس میں لیٹے دیکھ کر یہی سوچا کہ یہ عورتیں فطرت کے اس امر سے کیسے معاملہ کرتی ہوں گی؟
عورت چاہے جھونپڑی میں پیدا ہو یا محل میں، انسانی جسم کی ضروریات کا خیال اس طرح نہیں رکھا گیا جو ان کا حق تھا۔ ماہواری کے ساتھ اس سوتیلے پن کے سلوک اور ناکافی سہولیات کو پیریڈ پاورٹی یا ماہواری کی غربت کا نام دیا گیا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ سو ملین عورتیں ماہواری کی غربت کا شکار ہیں یعنی وہ عورتیں جنہیں کپڑا یا چیتھڑے، لیٹرین اور پانی تک نصیب نہیں۔
شہروں میں مقیم لوگوں کو شاید یہ بات سمجھ نہ آتی ہو مگر تھر کے صحرا میں چھپر نما گھروں، پہاڑوں میں بنے چھوٹے چھوٹے مکانوں اور دور دراز دیہاتوں کے کچے کمروں کی مکین کو تصور کی آنکھ سے دیکھیے اور سوچیے کہ کپڑے پیڈ اور روئی کی عدم دستیابی کے ساتھ اگر موسم کی سختیوں کا بھی سامنا ہو تو موسلادھار بارش، برف کا طوفان، آندھی و جھکڑ اور سیلاب میں عورت کیا کرتی ہو گی؟
کون سوچ سکتا ہے کہ دنیا کو ایک گاؤں میں بدلنے والی اکیسویں صدی کا دامن عورت کے لئے آج بھی تنگ ہے۔ ریت، راکھ، بھوسی، درختوں کے پتے، سمندری بیلیں، ربر اور لال یا کالی شلوار۔ بس یہی کچھ ہے آج بھی عورت کے نصیب میں۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر