مرتضی زاہد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد خان طارق
تحریر مرتضی زاھد
کون ہے جو آج احمد خان طارق کو نہ جانتا ہو، سرائیکی کے عظیم شاعر اور ڈوہڑہ ان کی پہچان کا معتبر حوالہ ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوئ ہیں۔90سال سے زیادہ عمر پائ اور اس وقت ان کی شاعری کے آٹھ مجموعے چھپ چکے ہیں۔شاعری ان کی گھٹی میں شامل تھی جس کا سننا اس زمانے میں بھی بھلا لگتا جب شعر سمجھ نہیں آتے تھے لیکن سنتے وقت ایک سرشاری ان پر طاری رہتی۔ شادی بیاہ میں عورتوں کے گیت اور ڈھولک ان پر عجیب کیفیت طاری کرتی۔ میری احمد خان طارق سے بے شمار ملاقاتیں تھیں اور میں ہمیشہ ان سے بے شمار سوال کرتا اور وہ محبت کے ساتھ ان کا جواب دیتے، میں جب بھی ان سے ملا اپنے اندر ایک مسرت پا کر لوٹا، اگر کسی نے عاجزی سکھینی ہو تو وہ احمد خان طارق سے سیکھے۔ ایک بار ان سے ملنے گئے تو ان کے ہاں ان کی عمر کے ایک بزرگ آ ئے ہوئے تھے،غالبا وہ ان کے بچپن کے دوست تھے۔ طارق صاحب حسب عادت چار پائ سے اٹھے اور دو قدم بڑھ کر ہماری طرف آئے تو ان کے بزرگ دوست نے کہا کہ اس عمر میں اب تم ملنے آنے والوں کیلئے نہ اٹھا کرو لیکن طارق صاحب نے جواب دیا ،تعظیم ہر شخص پر واجب ہے ۔
سندھی کے مایہ ناز شاعر اور دانشور امداد حسینی نے کہا تھا، اجلے انسانوں سے ملاقات ، چاہے ان کا تعلق کسی زبان ،کسی بھی مذہب سے ہو مسرت سے بھر دیتی ہے۔،،
احمد خان طارق انہی انسانوں میں سے ایک تھے۔ وہ مجھے کہتے کہ میں نے اس وقت شاعری کی جب شاعری رواج نہیں بنی تھی، استاد کی صحبت میں وہ اپنے اندر کے اعتماد کو بحال کیا ورنہ وزن اوزان سب بن سنور کر میرے ہاتھ لگ جاتے اور لگ جاتے ہیں۔ کوئ ہے جو عطا کرتا ہے ورنہ میں تو قلم کا محض استعمال کرتا ہوں اور اپنا یہ ڈوہڑہ سنایا:
میں شاعر ہاں کوئ حاتم نئیں کیا دان کرینداں لفظیں تیں
سب لفظ نمانڑے مونجھ بڈے کیا بھال بھلینداں لفظیں تیں
جو لکھنڑے لفظ لکھیج گئے بیا کیا لکھوینداں لفظیں تیں
کوئ طارق پونڑے پا ڈیندے میں قلم پھرینداں لفظیں تیں
ان کا آخری نیا مجموعہ جس کا نام ہے ، میں کیا آکھاں،، انسانی اقدار کی پامالی کا ایک نوحہ ہے:
میڈے سر دے وارث والی ہو،تساں والیاں کوں میں کیا آکھاں
میڈے سیت وی اللہ والے ہن،اللہ والیاں کوں میں کیا آکھاں
کن والیاں تیڈا پچھدیاں ہن،انہاں والیاں کوں میں کیا آکھاں
توں طارق دھنولا چاتی گئیں،لسی والیاں کوں میں کیا آکھاں
شاعر ،مورخ ،کہانی کار اور نقاد حفخظ خان ایک جگہ لکھتے ہیں،
احمد خان طارق کے ڈوہڑے میں جو میرے نزدیک جدید شاعری کا انگ ہے دریا کے بیٹ (بیلا) میں دکھ سہتی ہوئی یہ مسکین عورت کون ہے؟
اصل میں یہ دراوڑ کے حوالے سے کیہل اور مور کاہی استعارہ ہے جو صدیوں سے اپنے ہی دریا کے کنارے دکھ اٹھا تا چلا آرہا ہے ،، رفعت عباس کے نزدیک احمد خان طارق دھرتی کا امر بندہ ہے، جس نے ہماری مونجھ کو پاتال سے نکال کر ہم پر ظاہر کر دیا ہے،، اشولال کہتے ہیں سندھ وادی کا ہر بند ڈوہڑانا صرف سوچ سکتا ہے بلکہ لکھ بھی سکتا ہے سرائیکی شاعری میں،،خیرشاہ کے بعد احمد خان طارق ،، کو یہ درجہ اسی طرح حاصل ہے جس طرح عمر خیام کو رباعی اور حافظ شیرازی کو فارسی غزل میں حاصل تھا ہم خوش قسمت ہیں جو آج بھی ڈوہڑے کو زندہ دیکھ رہے ہیں اور احمد خان طارق کا درشن کیا،،
اساطیر کی رنگارنگی میں لوگ انہیں فریدثانی بھی کہتے ہیں، وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، دیکھنے سے لگتا ہے کہ جیسے یہ کلام ان کا نہ ہو سادہ لباس چولا منجھلا پٹکا جی سائیں، شالا جیوو۔۔۔۔۔۔۔ان کی زبان کا ورد ہے۔
جیسا کہ میں نے لکھا کہ میں ان سےسوال کرتا تھا تو ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ پہلے آپ احمد خان کھوسہ تھے اور اب احمد خان طارق ہیں،آپ احمد خان طارق اور احمد خان کھوسہ میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
کہنے لگے طارق بن جانے کے بعد میرے بہت سے عیبوں پر پردہ سا چھاگیا،احمد خان طارق لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں ۔ میرے ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ جو طارق صاحب کے شہر کے رہنےوالے ہیں کہ میں ملتان گیا رکشہ لیا اور منزل کی جانب چل پڑا ۔ رکشے والے نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ میں نے کہا کہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے شہر شاہ صدردین سے آیا ہوں۔ پھر کیا تھا،اس نے کہا کہ آپ طارق صاحب کے شہر سے آے ہیں اور وہ طارق صاحب کے متعلق باتیں کرتا رہا اور ان کے دو ڈوہڑے بھی سنائے۔
منزل پر پہنچ کر میں رکشے سے اترا اور جیب سے پیسے نکالنے کیلئے ہاتھ ڈالا تو اس نے کہا آپ طارق صاحب کے دیس کے آدمی ہو میں آپ سے کرایہ نہیں لوں گا اور خدا حافظ کہ کر رکشہ چلا دیا۔ میرے ساتھ آے ہوئے ایک دوست نے طارق صاحب سے پوچھا کہ آپ کو سمندر اچھا لگتا ہےکہ صحرا؟ طارق صاحب نے کہا کہ میرا دریا، بیٹ ، بیلا ہی میرے لئے سب کچھ ہے۔ جدید شاعر اور دانشور زبیراحمد اپنے ایک مضمون میں لکھتےہیں۔ کیا احمد خان طارق کے postoral Romanceکا مرکزی کردارShepherdچھیڑورانجھن،راول بھی کبھی ایسا لگے کہ وہ طارق کے ہاتھ میں آیا ہوا کوئیCat,sPawہے؟وہ تو طارق کی اس آرکیڈیا کابنرا ہےجوآرکیڈیا کوطارق،فلپ سڈنی جیسا محض لکھا ہی نہیں بلکہ جنم دیا،سانس دی، زندگی دی اور اپنے بیٹ بیلے کو یونان کے قدیمMountainous District آرکیڈیا سے بھی ذیادہ حسین بنا دیا ہے۔ طارق کی آرکیڈیا توحسن کا دوسرا نام ہے،ان کا یہ حسن کوئی کم ہےکہ یہاں شعور کی وحدت سلامت ہے شعور کو compart mentalize نہیں کیا گیا کہ یہ سیاسی شعور ہے وہ سماجی شعور ہے یہ اندر جھات کا، طارق دکھ،رنج اور نروار کو وحدت کے طور پر لیتے ہیں، کوئی عام قاری کہہ سکتا ہے کہ طارق کی پریکٹیکل ووکیبلری بہت کم ہے وہ بہت کم اور ایک جیسے لفظ باربار استعمال کرتا ہے بیٹ،بیلا،جھوک،مٹیاں،کٹیاں،میہاں،ٹنگڑیں جیسے الفاظ اس کی ہر کتاب میں ملتے ہیں_ بات یہ ہے کہ طارق لفظوں کو صرف اسم،فعل،اسم صفت کی حیثیت سے استعمال نہیں کرتا بلکہ علامتوں اور بلیغ استعاروں کے رنگ میں استعمال کرتاہے؛؛
طارق صاحب کی شخصیت کا ایک حوالہ موسیقی بھی ہے_ ان کی ایک غزل بہت سے گلوکاروں نے گائی لیکن اس غزل کی دھن سے احمد خان طارق مطمئن نہ تھے_ طارق صاحب نے نامور گلوکار اور شاعر فاروق محرم سے کہا محرم صاحب جیسی رمز کی یہ غزل ہے، کسی گلوکار نے اس رمز کی دھن میں نہیں گایا_ فاروق محرم نے اس غزل کی دھن ترتیب دی اور ایک موقع پر اسے گایا تو احمد خان طارق نہال ہوگئے اور دوستوں کو کہا کہ یہ اس غزل کی اصل دھن_ میرے ایک دوست کا ان کے متعلق کہنا ہے کہ نہ تعلیم اتنی، نہ مطالعہ اتنا، مجھے احمد خان طارق "دیومالائی سچ” لگتے ہیں_ احمد خان طارق نے مجھے ایک واقعہ سنایا جو میری عقل سے ٹکراتا ہے پھر بھی دل میں گنجائش پیدا ہو جاتی ہے_ کہنے لگے جب میں مویشی چراتا تھا تو مجھے ایک آواز سی آتی تھی۔ احمد خان آو، احمد خان آو، مجھے ایسا لگتا جیسے آواز قریب سے آ رہی ہو اور میں اسی سمت چل پڑتا اور آواز دور ہوتی جاتی تھی ۔
کوئ دوروں سامنڑے سڈ آندے ذرا قدم ودھا بھج ویلھی تھی
نہ پیرے کج نہ پونج ہنجوں نہ وقت ونجا بھج ویلھی تھی
چنی لانڑیں نال اڑیندی پئ ایکوں اچھل بھکا بھج ویلھی تھی
سر ویندے طارق ویندا کر تیڈے سر دا کیا بھج ویلھی تھی
اس آواز میں پتا نہیں کیا تھا مگر کچھ نہ کچھ تھا ضرور ،وہ جیسے کوئ رمز تھی اور میری طبعیت میں عجب ہلچل پیدا کر دیتی تھی۔ ایک بار ایسا کہ ہم تین چار دوست ایک دوست کا گلہ کر رہے تھے تو اسی رات پتہ نہیں خواب تھا کیا تھا؟ وہ آواز مجھے محسوس ہوئ کہ جس دوست کا آپ گلہ کر رہے تھے وہ تو منگل کو مر جائے گا، طارق صاحب نے میری آنکھوں میں آنکھیں ملا کر کہا ، سئیں او منگل کوں مر ستا،، (وہ منگل کو مر گیا)
احمد خان طارق اپنے ہاتھوں سے کام کرنا اچھا سمجھتے ، تھرماس سے چائے پیالیوں میں خود انڈیل کر مہمانوں کو خود پیش کرتے۔ اگر ہم کہتے کہ سرکار آپ بوڑھے ہو گئے ہم یہ خود کر لیں گے تو کہتے، سائیں تساں میڈے مہمان ہاو،اے میڈا فرض بنڑدے،،
ڈوہڑوں،غزلوں اور نظموں کے ہجوم میں کافی کا احیاء ہونا اور تسلسل سے کافی لکھے جانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ، میں جب کافی مکمل کرتا تو وہ آواز ،وہ رمز اور اس کی خوشبو مجھے کئ روز تک اپنے حصار میں رکھتی ،طبعیت میں کوئی عجیب قسم کی روحانی کیفیت کئ کئ دن میرے ساتھ رہتی جبکہ باقی اصناف میں صرف وقتی سرشاری ہوتی۔،،
سرائیکی وسیب کے لوگ ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، ایسے چار پانچ لوگوں کو میں قریب سے جانتا ہوں جنہوں نے صرف احمد خان طارق کی محبت میں اپنے بیٹوں کے نام طارق رکھے۔ وسیب میں جس گھر کے مہمان ہوتے وہ گھر مبارک ٹھہرتا اور لوگ اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے۔ بہت سے مشاعروں میں میں نے دیکھا کہ ملنے والے ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے۔ سرائیکی وسیب کے جو لوگ بیرون ملک رہتے ہیں ان کو بھی طارق صاحب کی یاد نہیں بھولتی، سعودی عرب میں رہنے والے سرائیکیوں نے اپنے خرچ پر احمد خان طارق کو سعودی عرب بلایا۔ استقبال اور واپسی کا منظر ایسا تھا کہ سعودی باشندے ایک دوسرے سے پوچھتے کون سی شخصیت ہیں۔
اس دیو مالائ دیوتا کو مرحوم لکھنا دل نہیں مانتا۔ آخر میں خوبصورت شاعر زبیر احمد نے اپنی کتاب، چاندی مڑھیے طاق،، میں ایک نظم احمد خان طارق کی نذر کی ہے جس کا عنوان ہے، نیلا فرشتہ،، آئیے نظم پڑھتے ہیں:
تیڈے ہر ہک ڈوہڑے دے وچ
ست اسمانی درہ کھلدے
ست اسمانی درے وچوں
نیلے رنگ داہک فرشتہ
نیلی نیلی پشم والے
ریشم ریشم جھڑ دے اجڑ
ساڈی تریہہ دو
کال کریہہ دو
ٹور کے آندے
کنڑ منڑ کنڑ منڑ کھیر دیاں دھاراں
دھرتی رج رج پیندی ہے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر