نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نظریہ ضرورت دفن ہوگیا ||ملک سراج احمد

عمران خان نے اگر سیاست کرنی ہے تو اس کو کنٹینر سے اترنا پڑے گا اور جمہوری رویے اپنانے ہوں گے جمہوری سوچ اپنانی ہوگی۔ضد ، ہٹ دھرمی سے عمران خان اکیلا رہ جائے گا اور اکیلا بندہ جمہوریت میں زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمہوری ملکوں میں محض جمہوریت ہی پروان نہیں چڑھتی اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی فکری طورپر ترقی کررہا ہوتا ہے ۔ باہمی گفتگو تلخی کی بجائے دلیلوں کے ساتھ ہونے لگتی ہے ۔ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننے اور سمجھنے کے لیئےسازگار ماحول بن جاتا ہے ۔اختلاف رائے کو زاتی توہین نہیں سمجھا جاتا اور نا ہی گستاخی تصور کیا جاتا ہے بلکہ اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا ہے ۔نئی روایات تشکیل پاتی ہیں جس میں مختلف الخیال لوگ مل کر مسائل کا مناسب اورپائیدار حل تلاش کرتے ہیں ۔باہمی مشاورت سے قومی سطح پر فیصلے کیئے جاتے ہیں قوم کو ایک سیدھی راہ پر ڈالا جاتا ہے ۔
یہی نہیں بلکہ اس طرح کے جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں بھی مسلسل اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے بہتر سے بہتر پرفارم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اس لیئے ان کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہوتی جاتی ہے ۔سیاسی جماعتوں کا حجم اور پھیلاو بڑھتا جاتا ہے اور وہ چند حلقوں یا چند شہروں سے نکل کر قومی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے لگتی ہیں ۔یہ جمہوریت کا حسن ہے جہاں ہر پارٹی اور ہرشخص کو ترقی کرنے کا آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے ۔اپنے منشورپر عمل کرتی ہوئی سیاسی جماعتیں کسی بھی جمہوری معاشرے کا سب سے لازمی اور حسین جزو ہوتی ہیں۔
جمہوریت ایک لگا بندھا اصول نہیں ہے یہ کسی مخصوص فارمولے اور ضابطے کے تحت نہیں ہوتی ۔آئے روز ملک وقوم کو نئے مسائل درپیش ہوتے ہیں اور ان کو جمہوری انداز میں حل کرنے کے لیے باہمی مشاورت سے راستے نکالے جاتے ہیں ۔ملک وقوم کی بہتری کے لیے بنیادی اصول ایک ہی ہے کہ اپنی زات سے بالاتر ہوکر پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کے لیے سوچا جائے ۔جہاں پر ملکی مفاد سامنے آجائے ہر سیاسی جماعت اور سیاسی قائدین اپنی بات سے پیچھے ہٹتے ہوئے ایک نقطے پر اکٹھے ہوجائیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز کو ایسا جمہوری ماحول میسر نہیں آسکا یا ایسا ماحول بننے ہی نہیں دیاگیا۔ہر جمہوری دور کے بعد ایک طویل مدت کے لیئے غیرجمہوری قوتوں نے ملک وقوم کی باگ دوڑ سنبھال لی اور جب معاملات ان کی دسترس سے باہرہونے لگے تو باامر مجبوری سیاسی جماعتوں کو سامنے لانا پڑا۔جو تھوڑے بہت وقت کے لیے جمہوریت میسر آئی بھی تو اس میں بھی ہمارے جمہوری رویے ہماری زاتی پسندناپسند کے محتاج تھے۔لہذا کئی بار تو ایسا محسوس ہوا کہ شائد ہم جمہوریت کے لائق ہی نہیں ہیں۔تند وتیز لہجے اور کھردرے رویے لیئے ہم بحثیت قوم نا تو کوئی بات سننے کوتیار ہوتے ہیں اور نا ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کا پودا پھل پھول نہیں سکا۔جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکی تاہم کچھ روشن دماغ ایسے بھی تھے جو بار بار یہ کہتے رہے کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے ۔ ایسے لوگوں کا جمہوریت پر یقین اور ایمان ایسا تھا کہ ہم آہستہ آہستہ جمہوری مزاج اپنانے لگے ۔اپنی غلطیوں سے سیکھا تو پہلی بار میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط کیئے ۔73 کے آئین کے بعد میثاق جمہوریت ایک ایسی دستاویز ہے جوہماری جمہوری سوچ اور پختہ فکری اور شعوری ترقی کی عکاسی کرتی ہے ۔
جہاں تک آئین کی بات ہے تو کوئی شک نہیں کہ یہ ریاست اور اس ریاست کی حدود کے اندر بسنے والے افراد کے مابین ایک ایسا معاہدہ ہے ایک ایسی دستاویز ہے کہ جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔آئین معاشرے کے ہرفرد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے ۔زندگی گذارنے کا ایک اصول اور ضابطہ اخلاق دیتا ہے ۔یہی آئین ہی ہے جس کی وجہ سے مختلف اقوام اورنسلوں کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر قوم بنے ہوئے ہیں۔بلاشبہ آئین مقدس ہے یہ آئین ہر چیز سے مقدم ، بالاتر ہے کسی بھی شخص، کسی بھی سیاسی جماعت اورکسی بھی مکتبہ فکر سے سپریم ہے۔
عمران خان کے تین اپریل کے اقدامات سے جہاں دیگر بہت سے مسائل نے جنم لیا وہاں پر آئین کی سپرمیسی بھی چیلنج ہوئی ۔کیا کسی بھی حکومت کے اقدامات آئین سے بالاتر ہوسکتے ہیں ۔کیا آئین کواصول وضوابط سے ہٹ کر اپنی مرضی سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔کیا آئین کی تشریح اپنی مرضی سے کی جاسکتی ہے ۔یہی وہ سوال تھے جن کے جواب کی تلاش میں متحدہ اپوزیشن سپریم کورٹ گئی ۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ عمران خان کے اقدامات آئین کے منافی ہیں جبکہ حکومت کا موقف تھا کہ جوکچھ انہوں نے کیا اس کی اجازت آئین دیتا ہے۔
7اپریل کو سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے حکومتی اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا اور معاملات کو آئینی انداز میں حل کرنے کے احکامات جاری کیئے ۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی ملک میں چار دنوں سے جاری سیاسی بحران کا خاتمہ ہوا اور قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ایسے موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بیان کہ یہ نا تو اپوزیشن کی جیت ہے اور نا ہی حکومت کی ہار ہے بلکہ یہ فیصلہ آئین کی جیت ہے نے دل جیت لیئے ۔
جمہوریت بہت شاندار طرز حکمرانی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ زاتی تعصبات سے ہٹ کر ملک وقوم کی بہتری کے لیے مل جل کر کوشش کی جائے ۔اپوزیشن سے بات نہیں کروں گا آخری بال تک لڑوں گا میرے پاس سرپرائز ہے جیسے بیانات سے جمہوریت کی خدمت نہیں ہوسکتی ملک وقوم کی بھلائی نہیں ہوسکتی ۔عمران خان نے اگر سیاست کرنی ہے تو اس کو کنٹینر سے اترنا پڑے گا اور جمہوری رویے اپنانے ہوں گے جمہوری سوچ اپنانی ہوگی۔ضد ، ہٹ دھرمی سے عمران خان اکیلا رہ جائے گا اور اکیلا بندہ جمہوریت میں زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔
اب بھی وقت ہے کچھ نہیں بگڑا اگرحکومت اچھی نہیں کرپائے توکوئی بات نہیں بطور اپوزیشن لیڈر ایک زمہ داررویہ اپنا کرعوام کا دل جیتا جاسکتا ہے۔مسائل کے حل کے لیئے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جاسکتی ہے ملک وقوم کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔اور حرف آخریہ کہ خراج تحسین پیش کرتے ہیں معزز عدلیہ کو جس نے بالآخر نظریہ ضرورت کو دفن کرتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دیا۔

————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author