ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی ہے اپوزیشن سراپا احتجاج ہے سپریم کورٹ نے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا ہے اور کیس زیر سماعت ہے۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ عدلیہ کو اسمبلی کارروائی میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ اختیار نہیں ۔ یہ سوال پہلے بھی پیدا ہوا تھا اور اب بھی ہونے کا امکان ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے کہ وہ آئین بناتا ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے۔
بہرحال ہم اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا لہٰذا قوم الیکشن کی تیاری کرے ، الیکشن میں جو کامیاب ہو اُسے حکومت بنانے کا حق حاصل ہوگا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے غیر ملکی مداخلت کا بھی ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ تحریک عدم اعتماد بیرونی سازش تھی اور اس مقصد کیلئے دولت کے ذریعے ضمیر خریدے گئے۔
تاہم اس موقع پر وزیر اعظم کا منحرف اراکین کو یہ مشورہ درست تھا کہ وہ ضمیر فروشی کے صلہ میں حاصل کی گئی مبینہ رقم سے پناہ گاہ یا کوئی اور خیراتی ادارہ بنوا دیں۔ اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ آرٹیکل 5 کی غلط تشریح کے باعث وہ آئین سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں یہ بھی کیا کہ اپنے طور پر اجلاس کرنا شروع کر دیا اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اور ن لیگ کے رہنما ایاز صادق نے اسپیکر کی نشست سنبھال کر دل کے ارمان پورے کیئے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی۔
قومی اسمبلی کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں بھی ہنگامہ دیکھنے میں آیا، ہنگامہ آرائی کے بعد اجلاس 6اپریل تک ملتوی کر دیا گیا،اس سے پہلے پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کو برطرف کر کے عمر سرفراز چیمہ کو گورنر پنجاب بنا دیا گیا۔ اس واقعہ سے مجھے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے والد چوہدری الطاف یاد آئے ، محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں وہ گورنر تھے ، گورنر نے پنجاب اسمبلی تحلیل کی ، ہائیکورٹ نے اُسے بحال کر دیا۔ گورنر نے دوسرے دن دوبارہ اسمبلی تحلیل کر دی ، گورنر سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ عدالت نے اسمبلی بحال کی اس کا اختیار تھا لیکن عدالت نے اسمبلی توڑنے کے میرے اختیار کو تو ختم نہیں کیا تھا اس لئے میں اُسے دوبارہ استعمال کرتا ہوں۔
عدم اعتماد سے مجھے یاد آیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف 1989ء میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ، ان دنوں 227ارکان کا ایوان تھا، 119ووٹ درکار تھے ، اپوزیشن کو 107ووٹ حاصل ہوئے اور اس طرح 12 ووٹوں سے اپوزیشن شکست کھا گئی، دوسری مرتبہ 2006ء میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے تحریک جمع کرائی گئی مگر یہ تحریک بھی ناکام ٹھہری۔
آج کی تحریک عدم اعتماد بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکی ، اصولی طور پر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپوزیشن کو اقتدار ملنا تھا جو کہ نہیں مل سکا۔ البتہ اپوزیشن کی طرف سے نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم ہو چکا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے سال ڈیڑھ سال سے عمران خان سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ مستعفی ہوں اور نئے الیکشن کرائے جائیں۔ مزید بحرانوں سے بچنے کیلئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نئے الیکشن کی طرف چلی جائیں، ملک کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں اگر خط کے مسئلے کو تھوڑی دیر کیلئے ایک طرف رکھ دیا جائے تب بھی بیرونی سازشوں سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں ہر آئے روز سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں بیرونی سازش کا ہی حصہ ہیں۔ مارچ کے مہینے کو سیاسی حوالے سے اہمیت حاصل ہے کہ یہ موسم کے اعتبار سے معتدل مہینہ ہوتا ہے اس مہینے میں جلسے جلوس زیادہ ہوتے ہیں اور یہ سیاسی اصطلاح بھی ہے کہ مارچ کے مہینے میں مارچ ہوگا۔
عمران خان کی حکومت کیلئے بھی مارچ کا مہینہ بھاری ثابت ہوا کہ 8 مارچ کو 2022ء کو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ اس دوران تحریک انصاف کے بہت سے ارکان پارٹی سے منحرف ہوئے، جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کو بھی غصہ نکالنے کا موقع ملا ۔ بد ترین سیاسی صورتحال کے ضمن میں وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد کے ایک جلسے میں خط لہرا کر اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کو غیر ملکی ایجنڈا قرار دیا۔
آج قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر نے اسی خط کی بنیاد پر اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کیا ۔ اس خط کی اس بناء پر حیثیت نہیں کہ یہ وزیر اعظم اور حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا خط ہے بلکہ قومی سلامتی کمیٹی میں بھی اس خط کو انڈوس کیا گیا یہ تحریک عدم اعتماد غلط تھی اسے پہلے ہی مسترد کر دینا چاہئے تھا۔
پاکستان میں اسمبلیوں کو توڑنا یا اسمبلیوں کا تحلیل ہونا نئی بات نہیں، اسی طرح پاکستان میں ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئین بھی معطل کیا جاتا رہا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آئین ساز اداروں کے ساتھ ساتھ آئین اپنے خالق ذوالفقار علی بھٹو کا بھی دفاع نہ کر سکا۔ بھٹو کا تختہ الٹنے والے ضیاء الحق نے یہ بھی کہا تھا کہ آئین کی کیا حیثیت ہے یہ تو ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ اب ضرورت آئین پر عملدرآمد کی ہے اور ضرورت یہ بھی ہے کہ نئے الیکشن دستور ساز اسمبلی کے الیکشن ہونے چاہئیں۔وفاق کو متوازن بنانے کیلئے سرائیکی صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ پنجاب کے بڑے حجم کی وجہ سے اس طرح کے مسائل بار بار جنم نہ لے سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر