عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں اقدار بدل گئی ہیں، بقول شاعر نبض کے ڈوبنے کا لقب زندگی۔۔۔ ساز کے ٹوٹنے کا صدا نام ہے۔
اتوار کے دن ہونے والا پارلیمانی واقعہ آئینی سانحہ تو بنا ہی مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی چھوڑ گیا کہ آئین سازی میں روایتیں اور اقدار تحریر سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ جس برطانیہ کی مثالیں ہم دیتے نہیں تھکتے اُس برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی روایات محض قسموں اور وعدوں پر کھڑی ہیں، نہ یہ لکھا گیا ہے کہ آئین سربلند اور نہ ہی یہ تحریر کہ پارلیمان عوام کی طاقت کا سرچشمہ، نہ ہی آرٹیکل چھ جو آئین کی رکھوالی کو یقینی بنائے اور نہ ہی آرٹیکل پانچ کہ ریاست سے وفاداری کی تصدیق ہو۔
ہم نے یہ سب لکھا ہے، تین تین آئین بنائے ہیں اور بار بار توڑے بھی ہیں۔ پھر سنہ 1976 کا دستور جو آئین کے خالقوں کا بڑا کارنامہ ہے۔ سیاسی تاریخ میں بار ہار مارشل لاؤں کی بھرمار نے آرٹیکل چھ کو آئین کے تحفظ کی ’چوکیدار شق‘ بنانے پر مجبور کیا مگر پھر بھی ضیائی اور مشرفی آمریت نے آئین توڑا، ایک بار نہیں تین بار توڑا، بار بار توڑا۔
ملک عزیز میں آئین شکنی کرنا سب سے آسان ہے لہذا آرٹیکل چھ کی کوئی حیثیت نہ رہی۔ سنہ 2014 میں نواز شریف حکومت نے آرٹیکل چھ کی کارروائی کا آغاز کیا تو اُس کا نتیجہ سول ملٹری کشیدگی اور پھر وزیراعظم کی رخصتی کی صورت نکلا۔
اب آرٹیکل چھ کی رکھوالی کے لیے شق نہیں بلکہ ایک بریگیڈ رکھنا پڑے تو بھی آئین کی حفاظت کی ضمانت دینا ممکن نہیں۔ آئین کی ضامن اور محافظ عدالتیں ماضی میں طاقت کے ترازو میں نظریہ ضرورت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب آج بھی مرعوب فیصلے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے والے معزز جج مقبول باقر نے فُل کورٹ تقریب سے خطاب میں اس جانب اشارہ دیا ہے کہ ’یہ تباہ کُن ہو گا کہ کسی بھی جج کی معیاد اور فیصلے طاقتور حلقوں کی خوشنودی سے مشروط ہوں۔‘
حالات کی ستم ظریفی کہیے یا بحیثیت قوم ہمارا اخلاقی دیوالیہ پن کہ انگلی وہ اٹھاتا ہے جس کا کوئی کردار نہیں اور الزام وہ لگاتا ہے جو سراپا ملزم۔ آئین کے پاسدار آئین شکن اور قانون شکن قانون ساز۔۔۔ ایک طرف B)58 (2 کی متنازع شق زندہ ہوئی تو دوسری جانب نظریہ ضرورت کی تلوار سر پر تان دی گئی۔
اُمید ہے کہ عدلیہ اپنے دامن کے داغ دھوئے گی اور ضیائی آمریت کے زندہ ہوئے نشان مٹائے گی مگر پارلیمان میں غداری کے بٹتے تمغوں کو سینوں سے کیسے اُتارا جائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
بہرحال قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کی کارروائی نے جہاں عدم اعتماد کے ذریعے اِن ہاؤس تبدیلی کے آرٹیکل پچانوے اور پچانوے چار کو ہکا بکا چھوڑ دیا وہیں سپیکر (ڈپٹی سپیکر) کی رولنگ نے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر کے پرامن تبدیلی کا راستہ بھی بند کرنے کی کوشش کی ہے۔
عدالت اس نُکتے پر غور کر رہی ہے کہ آیا رولنگ درست ہے یا نہیں مگر اصل مسئلہ آرٹیکل پانچ کا ہے جس کو بنیاد بنا کر قومی اسمبلی کے ایک سو ستانوے اراکین پر غداری کا فتویٰ بھی عائد کر دیا گیا ہے۔
وہ خط جس کے مندرجات سے تاحال ہم نا آشنا ہیں، جس کو ثبوت کے طور پر قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے رکھا گیا اور مستند عسکری ذرائع عدم اطمینان کا اظہار کر چکے۔۔۔ نہ جانے کیا مجبوری ہے کہ قومی قیادت اور ایک سو ستانوے اراکین اسمبلی پر غداری کے الزام پر عسکری قیادت چُپ کا روزہ رکھے بیٹھی ہے۔
سیاسی ہیجان کا شکار تحریک انصاف کی قیادت مسلسل غداری اور امریکیوں کے ساتھ مل کر سازش کا الزام لگا رہی ہے جس سے کسی بھی قومی لیڈر کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جبکہ اب بھی نیوٹریلیٹی کا راگ مسلسل الاپا جا رہا ہے۔
گذشتہ سیاسی حکومتوں کے ادوار میں ذرا ذرا سی بات پر کمان تان لینے والے حلقوں کی مجبوریاں سمجھ سے بالاتر ہیں تو دوسری جانب موجودہ مخصوص حالات میں کسی خاص مقصد کے لیے مخصوص حلقوں کی ساز باز کے تاثر کے سازشی نظریے کو زائل کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔
مولانا فضل الرحمان برملا جبکہ دیگر قیادت وضاحت مانگ کر اور سوالات اٹھا کر شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔ مقتدر حلقوں کو حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنا ضروری ہے ورنہ عمران خان کی جانب سے مذہب اور حب الوطنی کارڈ کا مسلسل استعمال انتشار کی وہ سونامی لائے گا جو ریاست کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔
اپوزیشن بھی احتجاج کا راستہ اختیار کر سکتی ہے جبکہ جوابی الزامات کی دھول اڑائی گئی تو مقدس چہرے بھی غبار میں اَٹ سکتے ہیں، پھر کس کے ہاتھ کیا آئے گا؟
اداروں میں تقسیم فاشزم کو جنم دے سکتی ہے۔ حالات جو بھی ہوں شخصی آمریت کو ہر جگہ مسترد کرنا ہو گا بھلے وہ سویلین لبادے میں ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کوئی اپنے آئین پر عمل کرے گا تو ریاست کی عملداری کہاں ہو گی۔
آج آئین انصاف کے کٹہرے میں ہے تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ شخصی آمریت اور مطلق العنانیت کے خواب کو چکنا چور اور اجتماعی دانش یعنی آئین کو سرخرو کیا جائے گا۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ