نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نتیجوں کے اعلان بارے سوچنا ہی بے معنی ہے||ڈاکٹر مجاہد مرزا

آج نہ تو ویسا شفاف دن ہے بلکہ ابر آلود ہے، بوندیں بھی پڑ چکی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔ آٹھ لاکھ کے قریب انسان مریض ہو چکے ہیں ۔ اڑتیس ہزار کے قریب لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہزاروں ہسپتالوں میں ہیں جن میں بہت سے موت و حیات کی دہلیز پر ہیں ۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح مجھے اپنے گھر کے صحن میں سرخ پھولوں سے لدا گڑھل کا پودا، اس کے ساتھ بچھا زمین سے چھ انچ بلند مسطح لکڑی کا جائے نماز جتنا تخت، اس پر سفید ساٹن کی شلوار، سبز بڑے بڑے پھولوں والی مونگیا رنگ کی نفیس کپڑے کی قمیض اور شیفون کے سفید براق دوپٹے میں ملبوس بیٹھی اپنی اماں اور تخت سے تھوڑی دور کیکر کے دو درختوں سے کرتے ہوئے سوندھی خوشبو دیتے گول گول چھوٹے چھوٹے ریشم ایسے بھر جانے والے پیلے پھول اور درختوں کی ٹہنیوں سے لٹکے بیا چڑیاوں کے گھونسلے اور ان کے ساتھ اپنے ننھے نازک پنجے چپکائے جھولتے بیے یاد ہیں اسی طرح 31 مارچ بھی میرا ناستلجیا یعنی ایسی یاد ہے جو اب کبھی ویسے ہو ہی نہیں سکتی۔
اس روز سکولوں میں امتحانات کے نتیجے نکلا کرتے۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی اویس گھر والوں کے سر ہو جاتے کہ پھول منگوائیں ۔ پھر کسی بڑے بھائی کے ساتھ جو اکثر سب سے بڑے بھائی ہوا کرتے تھے اور وہ بھی آج والدہ کی طرح مرحوم ہو چکے ہیں، کے ساتھ جا کر دیسی گلاب، چنبیلی اور گیندے کے بہت سے پھول کسی کے باغیچے سے تڑوا کے لایا کرتے۔ بہنیں پھولوں کے ہار پروتیں اور اماں کی ہدایت پر انہیں پانی سے ہلکا سا تر کرکے تر کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتیں۔
صبح یہ ہار لے کے ہم سکول جاتے، پرائمری کی پانچ اور پھر ہائی کی آٹھویں جماعت تک۔ مجھے تو اول مقام ملنا ہی ہوتا تھا جس کے بعد میں اساتذہ کے، جنہیں ہم ماسٹر صاحب کہا کرتے، کے گلے میں ہار پہناتے۔ چھوٹا بھائی پاس ہو کر بھی خوش ہوتا اور ہار پہناتا۔
آج نہ تو ویسا شفاف دن ہے بلکہ ابر آلود ہے، بوندیں بھی پڑ چکی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے۔ آٹھ لاکھ کے قریب انسان مریض ہو چکے ہیں ۔ اڑتیس ہزار کے قریب لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہزاروں ہسپتالوں میں ہیں جن میں بہت سے موت و حیات کی دہلیز پر ہیں ۔
میں ہمیشہ اول آنے والا مگر آج تہی دست اپنے اسی گھر کے اسی کمرے میں جہاں میں پیدا ہوا، مریض ہونے سے بچنے کو ہدایات کے مطابق دس روز سے محصور ہوں، بچوں سے دور خود سے بوڑھی بڑی بہنوں اور ان سے بھی بڑے بھائی کے ساتھ جبکہ صرف پاس ہونے والا مگر بہت خوشحال وکیل چھوٹا بھائی کراچی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہے۔ اپنی کار پر اپنی سب سے چھوٹی بیٹی ڈاکٹر غنا کو انڈس ہسپتال چھوڑ آتا ہے تاکہ وبا میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کرے۔
یہ کیسا 31 مارچ ہے کہ بچوں کے امتحان نہیں ہوئے چنانچہ نتیجوں کے اعلان بارے سوچنا ہی بے معنی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author