ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” چننا بس کی بات جو ہوتی سارے ہی شبنم چنتے ” یہ میری ایک نظم کی دو سطریں ہیں۔ یعنی ہر شخص پرسکون، مستحکم اور برقرار رکھے جانے کے قابل زندگی کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن اختیار خدائی انعام ہے ہی نہیں۔ یہ اختیار جبر یا تقدیر سے بندھا ہوا ہے اور انتخاب عام طور پر دھوکہ دیتا ہے۔ میں نے شاعر ہونا چنا نہیں تھا۔ درست کہ میں ادب کی جانب مائل تھا، اب بھی مجھے اس سے رغبت ہے اور میں ناول نگار ہونا چاہتا تھا۔ مجھے فرانسیسی ادیب پسند تھے خاص طور پر وجودیت پسند جیسے سارتر، سیمون، ژید اور کامیو۔
ان دنوں جب میں اور میرے ہم عمر ان ادیبوں کی تحاریر پڑھا اور ان پر بحث کیا کرتے، ان دنوں میں ” لایعنیت ” ہم میں بہت عام اور پسندیدہ اصطلاح ہوا کرتی۔ سارتر کا ناولٹ ” ابکائی ” پڑھ کے تو ہمیں واقعی لگتا کہ دنیا کی ہر شے اور عمل دیکھ کے جیسے ابکائی آتی ہو، کم از کم مجھے تو ہر مظہر دیکھ کے ایسا ہی احساس ہوا کرتا۔
پھر فرانز کافکا نے جیسے ہمارے مغز پر وار کر دیا۔ ان کے افسانے ” ماہیت قلبی ” نے تو دل مسوس کے رکھ دیا تھا۔ پاکستانی شعراء افتخار جالب،سعادت سعید اور خاص طور پر عبدالرشید ہمارے اگوان ٹھہرے جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم نے شاعری میں مختلف غیر عمومی رجحانات جیسے نثری نظم، آزاد نظم، علامت نگاری وغیرہ سے متعلق تجربے کرنے شروع کیے۔ ہمارا فلسفہ اور ادب میں دلچسپی رکھنے والے طب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کا ایک اکٹھ تھا جن میں سے کچھ اپنے احساسات کا اظہار شاعری میں کیا کرتے تھے۔
ان دنوں مرصع یعنی پابند شاعری کا رواج تھا جو اب بھی پورے خطہ شرق میں عام ہے۔ عام لوگوں کے لیے ہم پابند شاعری کرتے تاکہ اس سے عام سامع لطف لیں لیکن اپنے دوستوں کے حلقے کے لیے ہم آزاد یا نثری نظمیں لکھا کرتے۔ میں اپنے حلقے میں سب سے زیادہ زود گو نظم نگار تصور کیا جاتا۔
ہم نظمیں کیوں کہتے تھے؟ اس لیے کہ ہم حساس نوجوان تھے جن کی حساسیت کو علم کی خاطر چیر پھاڑ کے لیے دوا کی بو میں بسی میزوں پہ دھری لاشیں بھی کند نہیں کر سکی تھیں اور ہم انسانیت کے الم کو شدت سے محسوس کیا کرتے۔ ہم لوگ مزدور طبقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر ہمارے بے حد حساس ہونے کو ادب نے تند کیا اور ہمیں پسے ہوئے لوگوں کے حق میں جدوجہد میں شریک ہونے پر اکسایا۔ خود کو طبقاتی امتیاز سے پاک کرنے کا عمل میری نفیس الطبعی کو انتہائی مجروح کرتا مگر میں نے لوگوں کی عسرت اور جہل کے مرکب کی بدصورتی کو ثابت قدمی سے برداشت کیا۔ یہی وجہ تھی کہ میری شاعری بجائے آتش خیز اور جذباتی انقلابی ہونے کے سوچ کو مہمیز کرنے والی بن گئی۔
طب سے وابستہ ڈاکٹر بن جانے کے بعد مجھے پیشہ ور ڈاکٹر ہونے کا راستہ اپنانا چاہیے تھا جو پر تعیش زندگی اور نامور ہونے کی جانب جاتا۔ لیکن چونکہ انتخاب یکسر انسان کا اختیار نہیں ہے چنانچہ میں شبنم کی سی راہ چننے سے قاصر رہا۔ میں کنکروں اور کانٹوں سے بھری مگر پیغمبروں اور شہیدوں کی انسانوں کی بھلائی کی خاطر جدوجہد کرنے کی راہ پہ چل پڑا۔ یہ آسان راستہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا کیونکہ انسان بنیادی طور پر اپنی فطرت میں ایک جانور ہے جو طاقتور رہنے کی سعی کرتا ہے۔ سیاسی جدوجہد جس کے دوران مجھے ریاست کی جانب سے دھمکائے جانے، ریاستی تشدد سہنے تا حتی ضرر پہنچائے جانے تک کا نشانہ بننا پڑا تھا، نے مجھے رام کرنے کے برعکس میری مصلحت پسندی سے گریز کی طینت کو مزید مستحکم کیا۔
سیاسی عمل پسندی کے دوران میں کبھی عقیدہ پرستی کی حد تک مارکس وادی نہیں رہا۔ اگرچہ میں نے خود کو کبھی شاعر تسلیم نہیں کیا مگر میری شاعرانہ طبع نے مجھے آوارہ رکھا۔ میں ادب دوست کی حیثیت سے وجودیت پسند اور سیاسی مخلوق کے طور پر مادہ پرست ہونے کے درمیان جھولتا رہا۔
اس دوران میں بطور طبیب کے ایران چلا گیا۔ یہ وہاں انقلاب کے بعد کا مشکل دور تھا مگر مجھے دو برائیوں میں سے ایک کو چننا تھا۔ یا تو میں اپنے ملک کے مذہبی جنونی آمر کے آگے سر نیہوڑا دیتا بصورت دیگر کوڑے اور تشدد سہنے کے ساتھ ساتھ جیل جانے کو تیار رہتا۔ اس اثناء میں مجھے ایران کی وزارت صحت کی جانب سے ملازمت کی پیشکش ہوئی جو قدرت کا پوشیدہ انعام تھا چنانچہ میں نے مذہبی انقلابی فضا کو چن لیا بجائے اس کے کہ میں خائف کیے گئے معاشرے میں زنجیر بند آزاد رہتا۔
ایران میں میری شاعری میں ایک اور موڑ آیا، میں انقلاب کے خوفناک اور قابل نفرت پہلو سے آشنا ہوا۔ میں نے لوگوں کو کوڑے کھاتے دیکھا۔ میں نے ایک نوجوان کو وقار سے سر بلند کیے حکام اور تماشائیوں کے جلو میں سرعام گاڑے پھانسی کے پھندے کی جانب جاتے دیکھا۔ میں نے سانس دبائے ، سسکتی مائیں دیکھیں جو قید خانوں کے باہر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں وصول کرنے کو کھڑی ہوتیں جنہیں یہ انعام ضد انقلاب کہہ کے دیا جاتا۔ میرے درد بھرے مغز میں وجودیت پسندانہ خیالات وفور کرتے رہے۔ میں روح کو قتل کرتی اس فضا کو مزید برداشت نہیں کر پایا اگرچہ مجھے ایرانی قوم سے محبت ہو گئی تھی جو بنیادی طور پر سیکیولر اور نشوں سے کیف کشید کرنے والی قوم ہے۔ میں متعلقہ حکام سے شدید آویزش کے بعد ایران سے لوٹ آیا۔
پاکستان میں میرے پاس سوائے ایک انتہائی بائیں بازو کی تنظیم میں شامل ہونے کا متبادل نہیں تھا جو تب تک زیر زمین رہ کر کام کرتی تھی۔ اس کی سرگرمیاں البتہ خفیہ نہ ہوتیں کیونکہ ہم جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے جدوجہد کرتی سیکیولر سیاسی پارٹیوں سے تعاون کیا کرتے۔ یوں میں ان دو اتالیق شخصیات سے متعارف ہوا جنہیں کبھی نہ بتایا کہ میں ان سے سیکھ رہا ہوں۔ ایک تو بہت بڑے مگر انتہائی منکسرالمزاج، ہائی سکول کے ریٹائر استاد فدا حسین گاڈی تھے جو ہمیشہ اپنی چادر میں نئی اور پرانی کتابیں باندھے کندھے سے لٹکائے ہوتے۔ وہ متنازعہ اور مشکل معاملات پر اٹھائے سوالوں کا جواب نرم گوئی سے سوال پوچھنے والے سے سوال کر کر کے جواب مانگتے تاقتیکہ اس کے کیے سوال کا جواب اسی کے منہ سے برآمد ہوتا، تب وہ مسکرا کے سرائیکی میں کہتے،” بابا تیکوں جواب جو آپ پتہ ہا تاں میڈے کنوں کیوں پچھی” یوں سوال کرنے والے کی عزت نفس برقرار رکھا کرتے۔ دوسرے اتالیق معروف عوامی گلوکار پٹھانے خاں تھے۔ وہ حد درجہ صوفی شخصیت تھے۔ ایسے شخص جن کا ہر کھیل خود کو لٹانے کا کھیل رہا۔ انہوں نے مجھے مصلحت گریز ہونا سکھایا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنے شعور کی ابتدا سے جیسا تھا انہوں نے میرے ویسے ہی ان چھوا رہنے کو اثبات عطا کیا۔
انگریزی میں لکھی ایک پرانی تحریر کا ترجمہ
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر