ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر کپتان کا وہ خطاب ہوہی گیاجس کا پوری قوم کو انتظار تھا ۔انتظار اس لیئے کہ کپتان نے کہا تھا کہ وہ اس جلسہ میں ایک سرپرائز دیں گے ۔ایڈونچر کی شوقین قوم کے لیے بس یہی کافی تھا لہذا 27 مارچ کا دن انتظار کرتے گذرا کہ کب شام ہو اور کپتان کا وہ اہم اعلان سنیں جس کو وہ سرپرائز کہہ رہے ہیں ۔دن گذرا شام ہوئی جلسہ امر بالمعروف شروع ہوا۔کپتان کی ٹیم نے خطاب کرنا شروع کیا ایک کے بعد ایک شعلہ بیاں مقرر سامنے آیا مگر نظریں کپتان کو دیکھنے کو بے تاب تھیں ۔خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور کپتان کا خطاب شروع ہوا۔نظریں ٹی وی اسکرین پر لگی تھیں سماعتیں کچھ نیا سننے کو بے تاب ، خطاب لمبا ہوا تو دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں
کپتان کے خطاب میں ایک دھمکی آمیز خط کا زکرآیا ،عالمی سازش کا تذکرہ ہوا،بھٹو کی خودداری کا زکر بھی کیا۔مگر سرپرائز ہنوز سرپرائز تھا اور پھردیکھتے ہی دیکھتے کپتان کا خطاب ختم ہوگیا ۔بہت دیر بعد سمجھ آئی کہ کیایہ سرپرائز کم تھا کہ کوئی سرپرائز تھا ہی نہیں۔مگر دل نادان ماننے سے انکاری تھا سوچا کہ شائد کوئ بات سمجھنے اورسننے میں رہ گئی ہو اس لیئے دوست احباب سے پوچھا کہ سرپرائز کیا تھا مگر وہ جواب کیا دیتے وہ تو خود سراپا سوال تھے ۔یعنی وہ خود بھی سرپرائز کی تلاش میں تھے ۔تب جا کر یقین ہوا کہ سرپرائز کچھ نہیں تھا ۔المختصر یہ ایک ہارے ہوئے شخص کی لاحاصل تقریر تھی جس کا نا تو کوئی سر تھا نا ہی کوئی پیر تھا۔یوں پریڈ گراونڈ کا جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا
شہر اقتدار کے باسی جانتے ہیں کہ ڈی چوک اور پریڈ گراونڈ کا درمیانی فاصلہ کم وبیش دس کلومیٹر ہے اور کپتان کا تبدیلی لانے والا سونامی ڈٰی چوک سے شروع ہوا اور ساڑھے تین سال کی مدت میں دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پریڈ گراونڈ میں مایوس کن انداز میں اختتام پذیر ہوگیا۔30 اکتوبر 2011 میں مینار پاکستان کے کامیاب جلسہ سے شروع ہونے والے سفر کا اگلا پڑاو ڈٰی چوک تھا جہاں پر کپتان کے سیاسی سفر کو نقطہ عروج حاصل ہوا۔ایک لمبے عرصہ تک ڈی چوک پر دھرنا دئیے ہوئے کپتان کی شہرت اپنی انتہا کوپہنچ گئی ۔تبدیلی کا سونامی قصر اقتدار کے دروازے پر دستک دینے لگا۔کنٹینر پر سے ہونے والی تقاریر نے سماں باندھ دیا۔تبدیلی کے خواہش مندوں نے ڈی جے کی دھنوں پر ناچتے ناچتے ڈی چوک پر گھنگرو توڑ ڈالے ۔
ماحول بن گیا زہن سازی ہوگئی اور 2018 کے عام انتخابات میں کپتان کو بقول بلاول بھٹو زرداری کے سلیکٹ کرلیا گیا جس کی وجہ سے کپتان اپوزیشن کی نظر میں سلیکٹڈ بن گیا اور اپوزیشن کی طرف سے اسی نام سے پکارا جانے لگا۔کپتان کے حلف اٹھاتے ہی نیا پاکستان بن گیا اور کھلاڑی جیت کے جذبے کے ساتھ میدان میں اترے ۔خراب معاشی پچ پر مسائل اور عالمی مالیاتی اداروں کے بلے باز اتنے مضبوط تھے کہ کپتان کا ہر باولر ان سے پٹنے لگا ۔ہر بال باونڈری سے باہرجانے لگی ۔مہنگائی لانگ جمپ کرتے ہوئے بڑھنے لگی۔ناتجربہ کار ٹیم کے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔کپتان نے پے درپے باولرز کو تبدیل کرنا شروع کردیا مگر کوئی باولر کامیاب نا ہوسکا۔
حمایتی تماشائیوں اور کھلاڑیوں میں بددلی پھیلنے لگی مایوسی غالب آنے لگی۔عوام تبدیلی سے متنفر ہونے لگی کپتان کے سیاسی عروج کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وہ پہلا ضمنی الیکشن ہارا ۔ اسکے بعد تو گویا ہار مقدر ہوگئی جہاں ضمنی الیکشن ہوا کتان کے کھلاڑی ہارنے لگے مہرے پٹنے لگے ۔اتحادیوں کے گلے شکوئے بڑھنے لگے اپنی ٹٰیم میں سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔دھیمے لہجے میں ہونے والے گلے شکوئے بلند آواز میں ہونے لگے ۔عوام کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی نا ملی ۔کپتان سوچنے لگا کہ اب ایسا کیا کیا جائے کہ کھوئی ہوئی شہرت واپس لوٹ آئے ۔
اور یہیں پر کپتان نے غلطی کردی ۔بجائے اس کے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنا کر عوام کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرتا کپتان نے مقبول مذہبی نعروں کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ریاست مدینہ کے نام پر اس قدر دروغ گوئی کی گئی کہ الامان الحفیظ ۔کپتان ریاست مدینہ کا نعرہ تو لگا بیٹھا مگر اسے علم نہیں تھا کہ ریاست مدینہ شعب ابی طالب سے لے کر رات کی تاریکی میں مکہ چھوڑنے اور مدینہ کی طرف سفر کرنے کا نام ہے ۔پیٹ پر پتھر باندھنے کا نام ہے ،مساوات کانام ہے ۔باکردار،صالح، برگزیدہ اور عظیم المرتبت شخصیات کے تدبر ، فہم وفراست، راست گوئی اورکردارکے زیر سایہ ریاست کے اونچے معیارقائم کرنے کا نام ہے ۔
فارن فنڈنگ کیس ، توشہ خانہ اسکینڈل، ادویات ، چینی ، آٹا ، پٹرول ، رنگ روڈ اسکینڈل میں لتھڑی حکومت کیسے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھ سکتی ہے ۔طے ہوگیا کہ یہ ریاست مدینہ نہیں تھی اور ناہی نیا پاکستان تھا۔بلکہ یہ ایک ایسا جھوٹ تھا جو محض ساڑھے تین سال میں پکڑا گیا ۔سچ سب کے سامنے آگیا۔یوں کپتان کا ڈی چوک سے شروع ہونے والا سیاسی سفر ساڑھے تین سال کی مدت می دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے پریڈ گراونڈ میں اختتام پذیر ہوگیا۔کپتان کوئی سرپرائز نا دے سکا کیونکہ جو کسی کے کندھوں پر سوار ہوکر آتے ہیں وہ سرپرائز نہیں دیا کرتے وہ بس احکامات کی تعمیل کرتے ہیں اور ایسا ہی کپتان نے کیا ۔رہی بات بھٹو کی خودداری اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے کی تو نورالھدیٰ شاہ صاحبہ نے کیا خوب لکھا ہے کہ
ہمیں تو معلوم تھا کہ بھٹو اسٹیبلشمنٹ اور دشمنوں کا گریبان پھاڑ پھاڑ کر سامنے آتا رہے گا
اعتراف بھی کراتا رہے گا
شرمندہ بھی کرتا رہے گا
سندھ کی مٹی کبھی رائیگاں نہیں جاتی
آخری بات کہ اب ہوگا کیا تو عرض ہے کہ کچھ نیا نہیں ہوگا۔غریب اور عام آدمی کے شب وروز اور ماہ وسال اسی طرح گذریں گے جیسے پہلے گذرے ہیں ۔اس سرمایہ دارانہ نظام میں عام آدمی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔لہذا دوستو گھبرانا نہیں ہے اور اگر خدانخواستہ کچھ برا ہوجائے تو اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کرنا ہے
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر