عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے اب تک عمران خان نے کئی پینترے بدلے، کئی داؤ آزمائے، کئی وعدے کیے اور کئی دھمکیاں دیں۔ بہت سوں کو ناراض کیا اور بہت سوں کو منانے کی کوشش کی۔ اپنی بدترین کارکردگی کے باوجود جلسوں میں گھیر گھار کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو لایا گیا اور ان کو نت نئے بھاشن سنائے گئے۔
حتی کہ ”امر بالمعروف“ کی تھیم پر وفاقی دارالحکومت میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ اس جلسے میں وہی تقریر دہرائی جائے گی جو گزشتہ بائیس سال سے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ متحدہ اپوزیشن اس سے اگلے دن اپنا جلسہ منعقد کرنا چاہ رہی ہے جس کے لیے اس وقت پورے ملک سے قافلے روانہ ہو چکے ہیں۔ قطع نظر اس بات کہ کس کا جلسہ بڑا ہو گا، کس میں عوام جوش و جذبے سے شامل ہوتے ہیں اور کس میں انہیں سرکاری گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھر کر لایا جاتا ہے۔ خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ اب خان صاحب پر کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ یہ گفتگو ثبوت، شواہد اور تاریخی حوالوں سے آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
خان صاحب نے سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کیا اور وہ اب کسی طور پر عمران خان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ وجہ بہت واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی تمام توانائی عمران خان کو لانے پر صرف کی۔ ان کے جلسے منعقد کروانے سے لے کر اتحادی گروپ بنوانے تک، آر ٹی ایس کو بٹھانے سے لے کر نواز شریف کو نکالنے تک، سینٹ چیئرمین کے الیکشن سے لے کر فنانس بل منظور کروانے تک یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے چلتی رہی۔ لیکن خان صاحب نے احسان مند ہونے کے بجائے موقع پاتے ہی اسی اسٹیبلشمنٹ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی۔ ”یونٹی آف کمانڈ“ کو توڑنے کی سازش کی۔ اسٹیبلشمنٹ میں دھڑے بنانے کی کوشش کی۔ پوری فوج کو بھرے جلسہ عام میں ”جانور“ کہا۔ جرنل باجوہ کے ساتھ نجی فون کال کی گفتگو کا لطیفہ بنانے کی کوشش کی۔ لہذا اب اس طرف سے عمران خان کا پتہ ہمیشہ کے لیے کٹ چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس حکومت کو گرانے کے لیے بس ”نیوٹرل“ ہونا ہی کافی ہے۔
عمران خان پر اتحادی جماعتیں بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ماضی میں عمران خان انہیں جن القابات سے نوازتے رہے اگر ان سے صرف نظر کر بھی دیا جائے تو موجودہ کٹھن صورت حال میں بھی عمران خان کا اپنی اتحادی جماعتوں سے سلوک اچھا نہیں۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق جانتی ہیں کہ اس وقت عمران خان صرف اپنی بھنور میں پھنسی کشتی نکالنے کے لیے ان کے پاؤں پڑنے کو تیار ہیں لیکن جوں ہی یہ طوفان تھمے گا عمران خان ان سے وہی سلوک کریں گے جو اس سے کیا جاتا ہے جو ان کے بقول ”نیوٹرل“ کا اصل معنی ہے۔
عمران خان پر ان کی اپنی جماعت کے لوگ بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان ایک ڈکٹیٹر بننا چاہتے ہیں اور ماضی میں دیکھا گیا کہ جس نے ان پر احسان کیا عمران خان نے اسی کا صفایا کر دیا۔ اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہ الدین، جہانگیر ترین اور علیم خان جیسی بہت سی مثالیں ان کی اپنی جماعت میں ہیں۔ اب تحریک انصاف کے ارکان کو ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں جو شخص اپنے قریبی دوست ”مرحوم نعیم الحق“ جس نے ساری عمر ان کی خدمت اور اطاعت میں گزار دی اس کے جنازے میں نہیں گیا وہ ان سے کے لیے کیا ہی فلاح کا پیغام لائے گا۔
بیرونی ممالک بھی عمران خان پر کسی طرح کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ امریکہ کے دورے کے بعد ورلڈ کپ جیسی خوشیاں منانے والے خان صاحب نے ہر ممکن کوشش کر لی مگر ”بائیڈن“ نے کال نہیں کی۔ اس کے بعد خان صاحب نے امریکہ کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں جو خارجہ پالیسی کے لیے زہر قاتل ہے۔ چین کا منصوبہ سی پیک خان صاحب کے دور میں متنازعہ بنایا گیا اور جان بوجھ کر اس کی سربراہی عاصم باجوہ جیسے متنازع شخص کو دی گئی۔ خلیج کے ممالک سے آنے والے تحفے توشہ خانے سے غائب کر کے بیچ دیے گئے اور بدقسمتی سے اس کی اطلاع ان ممالک تک بھی پہنچ گئی۔ یورپین یونین کو خان صاحب نے اپنی بربادی کا ذمہ دار قرار دے کر پاکستان کے تعلقات مزید برباد کر دیے۔ ایسے میں جب روس کے مظالم کا دنیا بھر میں چرچا ہو رہا ہے اس وقت وہاں کا دورہ کر کے دنیا مزید ناراض کیا گیا۔ جہاں دنیا کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے وہاں طالبان کے حق میں بیانات نے جلتی پر تیلی کا کام کیا۔ ان حرکتوں کی وجہ سے اب بین الاقوامی دنیا کے دل میں خان صاحب کے لیے کوئی محبت باقی نہیں رہی۔ خان صاحب کی رخصت کی خواہش انٹرنیشل اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہے۔
اگرچہ خان صاحب عدم اعتماد کی تحریک کو معرکہ خیر و شر بنانے کی دینی تاویلات کا بار بار ورد کر رہے ہیں۔ مگر شاید انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ سنجیدہ مذہبی طبقہ ان پر اعتبار نہیں کر رہا۔ وہ جانتے ہیں کہ جو شخص ”خاتم النبیین“ نہ بول سکے، جسے ”روز قیامت“ اور ”روز قیادت“ میں فرق معلوم نہ ہو، جو ”کلمہ طیبہ“ ادا کرنے میں دشواری محسوس کرے، جس نے کبھی عید کی نماز عوام کے سامنے نہ پڑھی ہو۔ جس نے سیاسی مقاصد کے لیے ”ایاک نعبد“ کا بے دریغ استعمال کیا ہو اور گویا اس سے آگے کی کسی آیت مبارکہ کا علم نہ ہو تو وہ شخص مذہب کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ سنجیدہ مذہبی طبقہ ایسی شعبدہ بازیوں اور ڈراموں کا اعتبار نہیں کر رہا۔
المیہ یہ ہے کہ چاروں صوبے بھی خان صاحب پر اعتبار نہیں کر رہے۔ کے پی کے لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تین سو پچاس ڈیم بنے، نہ صحت کا سونامی آیا، نہ تعلیم کے میدان میں کچھ ہوا، نہ غربت کم ہوئی نہ روزگار ملا تو ہم آٹھ سال اس دھوکے میں رہنے بعد پھر کیسے دھوکہ کھا سکتے ہیں۔ کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی مظلوموں کی لاشیں سامنے رکھ کر وزیر اعظم کو پکارتی رہی مگر خان صاحب بلیک میل نہیں ہوئے۔ پنجاب کے لوگ بزدار اور اس کی کرپشن سے نالاں اور خان صاحب مصر ہیں کہ یہی ”وسیم اکرم پلس“ ہیں۔ سندھ حکومت کے خلاف خان صاحب نے جو مہم شروع کی اس کا گواہ سارا پاکستان ہے۔ اس مشکل صورت حال میں اگر خان صاحب مدد کے لیے اگر صوبوں کو پکارتے ہیں تو انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ اب صوبے بھی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیوروکریسی کو سیاست سے پاک رکھیں گے مگر چار سال میں انہوں نے جو سلوک بیوروکریسی کے ساتھ کیا اب ان پر کوئی بیوروکریٹ اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ من پسند آئی جیز کا پنجاب میں بار بار بدلنا، وزارتوں کے سیکرٹریوں کو سیاسی مقاصد کے لیے تبدیل کرنا، راولپنڈی رنگ روڈ میں اپنے ساتھیوں کی کرپشن کا ملبہ بیوروکریٹس پر ڈالنا، احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بہترین بیوروکریٹس کو ناجائز مقدمات میں گرفتار کر کے عقوبت میں رکھنا بیوروکریسی کا اعتبار چھن چکا ہے
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ اب پاکستان کے عوام خان صاحب پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ خان صاحب نے جو سبز باغ ان کو دکھائے تھے اب ان سب کی قلعی کھل چکی ہے۔ غریب کا نام لینی والی حکومت نے غریب کا جینا محال کر دیا ہے، مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے، ترقیاتی منصوبے بند ہو چکے ہیں، روزگار ختم ہو چکے ہیں، لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، بجلی اور گیس کے بل سوہان روح بن چکے ہیں ایسے میں خان صاحب عوام کا اعتماد بھی کھو چکے ہیں
اب کوئی شخص، ادارہ، حلقہ اور شعبہ خان صاحب پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں سب کے لیے خان صاحب بے اعتبار ہیں اور بے اعتبار رہیں گے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو خان صاحب کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ملکی تاریخ کا یہ بھیانک باب اس کے بعد دفن ہو جائے گا۔ یہ دور تاریک ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ خان صاحب کبھی بھی سیاسی شہید نہیں بنیں گے انہیں ہمیشہ ”غریبوں اور جمہوریت کے دشمن“ کے نام سے پکارا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر