دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسلام آباد کا برمودا ٹرائینگل!||عفت حسن رضوی

برمودا کے تکون کا اک ٹکڑا فیض آباد پُل بھی ہے، جو راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملاتا ہے۔ فیض آباد کے فیوض و برکات کی پراسراریت سمجھنی ہے تو یہاں سے تحریک لبیک کے عروج کی مختصر مگر حیران کن تاریخ پڑھ لیں۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد کی شاہراہ دستور کا بھی اپنا ایک برمودا ٹرائینگل ہے۔۔ایڈونچر کے مارے اسے ڈی چوک کہتے ہیں۔

اب جبکہ ہر قدم، ہر راستے اسلام آباد کی جانب اٹھ رہے ہیں، اب جبکہ خوابوں کے محل کی تعمیر اسلام آباد کی وادی میں ہی ٹھانی گئی ہے، اب جبکہ بندوق کا گھوڑا دبا کر ریس کا آغاز ہو ہی چکا ہے جس میں جیت کا نشان اسلام آباد کا تخت ہے تو ایسے میں نوواردانِ شہر کو یہاں کی کیمسٹری سمجھنی چاہیے۔

عجیب شہر ہے اسلام آباد، نام میں سلامتی ہے مگر تاثیر میں سدا کی بے قراری۔ اس کی مٹی میں ایسی طاقت ہے کہ غرور کو ملیا میٹ کرسکتی ہے، یہ ایک فوجی آمر کے بوٹوں کی دھول بن سکتی ہے تو اس کے لرزتے قدموں کو دیکھ کر بھی محظوظ ہوتی ہے۔ یہ مٹی اپنے سینے پہ جس حاکم کے لیے سرخ قالین بچھاتی ہے، اسی حکمران کی مٹی برباد کرنے میں بھی کسر نہیں چھوڑتی۔

اس شہر میں کئی مرکزی شاہرائیں ہیں، مری روڈ، سری نگر ہائی وے، جناح ایونیو، مارگلہ روڈ لیکن یہ بس سڑکیں ہی ہیں جہاں آپ اور ہم جیسے سڑکیں ناپا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی اصل روح شاہراہ دستور پہ بھٹکتی ہے۔ یہ سڑک مشہور زمانہ ایلیٹ آف دی ایلیٹ افراد کے لیے بنی جڑواں بلڈنگ، کانسٹیٹیوشن ایونیو سے شروع ہوکر مارگلہ پہاڑیوں کے قدموں پہ ختم ہوتی ہے۔

پاکستانی سیاست دانوں کی منزلِ مقصود ہے یہ شاہراہ دستور۔ رفتار بہت زیادہ ہو تو اس شاہراہ پہ سازشوں کے کئی سپیڈ بریکر ہیں، ڈرائیور اناڑی ہو تو یہ شاہراہ گاڑی کے انجر پنجر ڈھیلے کردیتی ہے۔ طاقتور اسلام آباد کی شاہراہ دستور پہ وی آئی پی روٹ لگوا کر سمجھتے ہیں کہ اسے زیر کرلیا، یہ اس شاہراہ کا خاصا ہے۔ یہ قدموں پڑی ہوتی ہے مگر سر سے آسمان کھینچ سکتی ہے۔

بحر اوقیانوس کا برمودا ٹرائینگل بڑی شہرت رکھتا ہے۔ اس پر کئی ڈاکیومینٹریز، فلمیں، ڈرامے بن چکے۔ اخبارات بھی ہر کچھ برس بعد اس گہرے سمندری تکون کے بارے میں کوئی کہانی چھاپ دیتے ہیں۔ قصے یہ مشہور ہیں کہ برمودا ٹرائینگل اپنے قریب آنے والے بحری جہازوں اور کشتیوں کو نگل جاتا ہے۔ کوئی ہوائی جہاز، جنگی طیارہ اوپر سے بھی گزرے تو ایک انوکھی کشش اسے اپنے اندر کھینچ لیتی ہے اور مسافر اس تکون کے اندھیرے میں کہیں کھو جاتے ہیں۔

اسلام آباد کی شاہراہ دستور کا بھی اپنا ایک برمودا ٹرائینگل ہے، جو اچھا، برا، کھرا، کھوٹا، کرپٹ، نااہل، چور، ڈاکو، سیاست کی گفاؤں میں سب کو نگل جاتا ہے۔ ایڈونچر کے مارے اسے ڈی چوک کہتے ہیں۔

ڈی چوک شاہراہ دستور کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ نادان یہاں خیمے گاڑ کر سمجھتے تھے کہ اب مستقل ٹھکانہ یہی بنا لیا، احمق یہاں ہزاروں کا مجمع اکٹھا کرکے دعویٰ کرتے رہے کہ یہ اب ان کا علاقہ ہے۔

احباب کی واہ واہ پہ پھولے قائد یہاں کئی ہفتے کنٹینر کھڑا کرکے سوچتے کہ اسے اپنی جاگیر کرلیا۔ جاگیر تو یہاں وہ بھی نہیں بنا سکے جو برسوں پارلیمنٹ لاجز یا وزیراعظم ہاؤس کے مکین رہے۔

ڈی چوک کے ڈی سے ڈیموکریسی نہیں آتا، یہاں ڈی فار ڈلیوژن ہے، یعنی جانتے بوجھتے نظر کا دھوکہ۔ ڈی چوک کو تبدیلی کے سونامی کا مرکز ماننے والوں کو بھی علم ہے کہ ڈی سے ڈیسیژن یعنی فیصلے یہاں کبھی نہیں ہوئے۔

ڈی چوک جغرافیائی لحاظ سے پارلیمنٹ کا صحن بنتا ہے، اسی لیے یہاں آنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ لگ بھگ ایوان اقتدار تک پہنچ گئے۔ بیچارے بھول جاتے ہیں کہ بائی ڈیزائن یہ ایک چوک چوراہا ہے، جو صرف گھما یا پھر بھٹکا سکتا ہے۔ ایک مثال تو ان دنوں آپ کے سامنے ہے۔

برمودا کے تکون کا اک ٹکڑا فیض آباد پُل بھی ہے، جو راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملاتا ہے۔ فیض آباد کے فیوض و برکات کی پراسراریت سمجھنی ہے تو یہاں سے تحریک لبیک کے عروج کی مختصر مگر حیران کن تاریخ پڑھ لیں۔

پھر سیاست دانوں کے کھیلنے کے لیے ایک اور پلے گراونڈ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ فیض آباد کے دہانے پہ واقع ہے اور اسے پریڈ گراؤنڈ کہتے ہیں۔ وہی جگہ ہے، جہاں 23 مارچ کو سلامی کے چبوترے سجتے ہیں۔

میری دانست میں یہ گراؤنڈ ہر ایسے جلسے کے لیے موزوں ہے جب لیڈر کو بہت زور سے تقریر آئی ہو۔ پریڈ گراؤنڈ میں کوئی لیڈر اپنے کارکنان کے ہمراہ ضد پکڑ کر دو ڈھائی ماہ بیٹھ بھی جائے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ڈی چوک سے ذرا پرے، شہر کو لاہور موٹر وے اور قدیم جی ٹی روڈ سے ملانے والی بڑی سڑک سری نگر ہائی وے ہے۔ یہ پہلے کشمیر ہائی وے کہلاتی تھی، پھر ہمیں کشمیر کی آزادی ستانے لگی تو اسے سری نگر کا نام دے دیا گیا۔

سری نگر ہائی وے اتنی بڑی اور چوڑی ہے کہ اسے بھرنا ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمٰن نے 2019 کے آزادی مارچ پلس دھرنے میں یہاں اپنی جماعت کے کارکنان کے ساتھ مدارس کے طلبہ کو بھی بٹھایا تھا۔

سیاسی جلسے کا مقام اگر سری نگر ہائی وے رکھا گیا ہے تو اس کا مطلب سہل انداز سے آنا، سیاسی قوت دکھانا اور اسی ہلکے پھلکے انداز میں پرسکون واپسی ہے۔ یہاں پہنچنا اور یہاں سے نکلنا آسان ٹاسک ہے۔ یہاں جلسے کرنے والوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ انہیں اعتماد ہوتا ہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے۔

اب جبکہ لیڈران، سپورٹران اور کارکنان نے اسلام آباد کا رخت سفر باندھ ہی لیا ہے تو بہتر ہے یہ بھی جان لیں کہ اس شہر اقتدار میں بچھی بساط اُلٹنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ یہاں کے تکونی برمودے طاقت نگلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

یہ بلاگ  ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author