رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں آدمی کو جب موت کا فرشتہ سامنے دکھائی دے رہا ہو تو دو کام لازمی کرتا ہے، اول یہ کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے، اور دوسرے، قرض داروں کو بلا کر قرض کی رقم واپس لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ قریب المرگ شخص سمجھ رہا ہوتا ہے شاید یہ ٹونے ٹوٹکے موت کے فرشتے کو خالی ہاتھ واپس لوٹنے پر مجبور کر دیں گے اور اس کی جان بخشی ہو جائے گی!
بعینہ آج کل وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کا حال ہے 2018 میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے ان کا قرعہ فال ایسے نکلا جیسا کہ خواجہ سلیمان تونسوی کی مزار پہ جھاڑو دینے والے کو اچانک خواجہ عطا اللہ کی جگہ سجادہ نشینی مل جائے یا پھر عمران خان کو اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل بنا دیا جائے، حالانکہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد عثمان بزدار کو چھوٹی موٹی صوبائی وزارت یا مشیری مل جاتی تب بھی وہ اتنے ہی خوشی سے نہال ہو جاتے۔
مگر پونے چار سال بعد کوچہ جاناں سے یوں رسوا ہو کر جانا عثمان بزدار کے لئے بھی صدمے کا باعث بن رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ قریب المرگ شخص کی طرح عثمان بزدار آج کل اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا سوچ رہے ہیں، جیسا کہ ان کی طرف سے (جاتے جاتے ) سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا اعلان اور سرائیکی صوبے کا شوشہ ہے۔
دوسری جانب ہمارے کچھ کرم فرما عثمان بزدار کی چھٹی کرائے جانے کو قومیتی رنگ دے کر عذر گناہ بدتر از گناہ تراشنے کا کام کر رہے ہیں، حالانکہ کوئی ان سے پوچھے کہ عثمان بزدار نے کبھی خود کو سرائیکی مانا ہے یا گزشتہ پونے چار سال کے دوران سرائیکی کا لفظ منہ سے ادا کیا ہو، سرائیکی دانشوروں، لکھاریوں، شعرا، فنکاروں سے کوئی ایک ملاقات کی ہو یا ان کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی پالیسی بنائی ہو، سرائیکی زبان، ثقافت اور ادب کے فروغ کے لئے کچھ کیا ہو۔
بلکہ اگر عثمان بزدار نے کچھ کیا ہے تو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ڈیرہ غازیخان کو میر چاکر خان یونیورسٹی کا نام دیدیا، کوئی ان سے پوچھے کہ میر چاکر خان رند کا ڈیرہ غازیخان سے بھلا کیا تعلق، نہ تو میر چاکر کی ڈیرہ غازیخان میں پیدائش اور نہ ہی یہاں موت واقع ہوئی مگر پھر بھی انہوں نے موقع ملتے ہی بغض سرائیکی میں ڈیرہ غازیخان کو بلوچ علاقہ ظاہر کرنے کی خاطر پوسٹ گریجویٹ کالج ڈیرہ غازیخان کے گیٹ پر ایک متنازع بلوچ سردار کے نام کی تختی ٹھونک دی، جس کے نتیجے میں اہالیان ڈیرہ غازیخان کے دماغوں میں یہ خیال مزید پختہ ہو گیا کہ وہ آج بھی بلوچ مریووں (حملہ آوروں ) کے مفتوح ہیں۔
ہمارے کرم فرماؤں کا موقف ہے کہ پنجابی سٹیبلشمنٹ عثمان بزدار کو فارغ کرنے کے لئے اس وجہ سے تل چکی ہے کیونکہ ان کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے، ان کرم فرماؤں سے سوال ہے اگر پنجابی سٹیبلشمنٹ کو سرائیکی وسیب کے عثمان بزدار جیسے نام نہاد سیاستدانوں سے کوئی خطرہ ہوتا تو 2018 میں ان کو وزارت اعلی کی کرسی پر ہی کیوں بٹھاتے، کیا پنجابی سٹیبلشمنٹ کو نہیں معلوم کہ یہ وہی عثمان بزدار ہے جو 2018 کے عام انتخابات کا شیڈول جاری ہونے سے چند روز قبل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا حصہ بنا تھا اور صوبہ محاذ کا ایک ہی مطالبہ تھا، لیکن انتخابات کے بعد سرائیکی وسیب کے ان جاگیرداروں نے وزارت اعلیٰ اور چند وزارتوں کے بدلے صوبے کا سودا کر لیا، جیسا کہ ان کے آبا و اجداد نے انگریزوں سے ماں دھرتی کا سودا کر کے تمنداریاں لے لی تھیں اور جاگیروں کے مالک بن گئے، کون نہیں جانتا کہ کس نے باغی غلام حسین مسوری کا سر ڈپٹی کمشنر رابرٹ سنڈیمن کو پیش کر کے تمنداری حاصل کی تھی، اور کون تھا جو فرنگی سرکار کے باغیوں کی مخبری کر کے انعام و اکرام حاصل کرتا تھا۔
ان کرم فرماؤں سے یہ بھی سوال ہے کہ عثمان بزدار نے جس طرح پنجابی سٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اپنی پونے چار سالہ وزارت اعلیٰ کے دوران جتنے سرکاری فنڈ ہر سال بلوچ ثقافت کا دن منانے کے لئے بے دریغ لٹائے، کیا سرائیکی ثقافت کے فروغ کے لئے کبھی ایک روپیہ ادا کیا، کیا یہ وہی عثمان بزدار نہیں جس نے چند روز قبل ہی ( 10 مارچ 2022 ) کو سرائیکی وسیب کے تمام سرکاری سکولوں میں جبراً پنجابی ثقافت کا دن سیلیبریٹ کروایا۔
اگر اس منطق کو مان بھی لیا جائے کہ عثمان بزدار کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے، تو عثمان بزدار کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو کسی بھی سرائیکی فروش کے ساتھ ہوتا آیا ہے، کیا اپنی پونے چار سالہ وزارت اعلیٰ کے دوران عثمان بزدار نے سرائیکی وسیب کسی بھی ضلع میں کوئی میگا پراجیکٹ مکمل کیا ہے، حالانکہ آج بھی ایم ایم روڈ پر اسی طرح چار چار فٹ گہرے گڑھے پڑے ہوئے ہیں، ڈیرہ اسمعٰیل خان تا ڈیرہ غازیخان اور ڈیرہ غازیخان تا راجن پور بلکہ کشمور تک انڈس ہائی وے کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے، لیہ تا کوٹ اداؤ روڈ، کوٹ ادو تا تونسہ بیراج، پل قنبر روڈ، کوٹ ادو تا سنانواں، چوک قریشی روڈ کا جو حال ہے وہ کون نہیں جانتا، ملتان تا بہاولپور روڈ کی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مظفر گڑھ تا ڈیرہ غازیخان دو رویہ روڈ تو پچھلی حکومت مکمل کر کے گئی تھی مگر ان پونے چار سال کے دوران ملتان سے ملانے والے مظفر گڑھ بائی پاس روڈ پر جو گڑھے پڑ گئے ہیں عثمان بزدار تو ان کی مرمتی نہیں کروا سکا ہے۔
کہتے ہیں کہ عثمان بزدار نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران سرائیکی وسیب میں تھوک کے حساب سے ہیلتھ کارڈ بانٹے ہیں، مگر دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں کا جو کباڑہ ہوا اس کا کوئی نہیں بتاتا، ہیلتھ کارڈ تو اس وقت کام آتا ہے جب آپریشن کرانا مقصود ہو مگر یہ جو روز کے ٹیسٹ، ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ جو کبھی سرکاری ہسپتالوں میں مفت ہوا کرتے تھے اب باہر سے کرانا پڑتے ہیں، ان کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے۔ وزارت اعلیٰ کے دوران عثمان بزدار نے اپنی چھوٹی سی تحصیل تونسہ شریف کو جو پیرس بنایا وہ بھی سب جانتے ہیں، بلکہ وہ تو تونسہ شریف کو ضلع کا درجہ نہیں دے سکا، اب جاتے جاتے سرائیکی صوبہ بنوا کر جائے گا، یہ کسی دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن حقائق کی دنیا میں ایسا کچھ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ بلکہ عثمان بزدار تو جاتے جاتے چولستان (سرائیکی وسیب) کی 15 ہزار ایکڑ اراضی پاک فوج کو دان کر کے جا رہا ہے، کیا یہ زمین عثمان بزدار کے باپ کی تھی؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر