پارلیمنٹ میں جنوبی پنجاب صوبہ بل پیش کرنے پر سرائیکی لوک سانجھ کا موقف۔
سرائیکی لوک سانجھ حکومت کی طرف پیش کئے گئے جنوبی پنجاب بل متعلق اپنا نقطہ نظر رکھنا چاہتی ہے تاکہ یہ ریکارڈ کا حصہ رہے تحریک انصاف کی حکومت نے اس بل میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے پاکستان کے آئین میں ترمیم کرنے کی تجویز دی ہے۔ پچھلی 4 دہائیوں میں سرائیکی (جنوبی پنجاب) صوبے کے قیام کے حامیوں کے طور پر، ہمیں مایوسی ہے کہ یہ بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب حکومت عوامی مقبولیت اور اعتماد کے کھو جانے کے بعد خود کو بچانے کے لیے لڑ رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کے درمیان اب ہم سرائیکی وسیب کے عوام کی جائز شکایات کو اپنے آپ کو بچانے کے لیے بے چین حکومت کی طرف سے ہتھیار بنانے پر اپنی مایوسی اور غصے کا اظہار کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں۔
سرائیکی وسیب کے لوگ، جو صوبہ پنجاب کی ایک بڑی آبادی پر مشتمل ہے، قیام پاکستان کے بعد سے مرکز اور صوبے دونوں تسلسل کے ساتھ ہر حوالے سے نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں یہاں تک کہ شمالی پنجاب نے بڑے پیمانے پر ترقی کا فائدہ اٹھایا ہے۔
پروگرام اور ترقیاتی کام۔ اس معاشی اور سیاسی ناانصافی کے رد عمل کے طور پر اور اپنی الگ لسانی اور ثقافتی شناخت کی خاطر سرائیکی وسیب کے لوگوں نے کئی دہائیوں تک اس خطے کی پنجاب سے علیحدگی کی مہم چلائی۔
پاکستان تحریک انصاف سرائیکی وسیب کے عوام کی شکایات کے ازالے کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر مرکز میں اقتدار میں آئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہم نے انہیں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لیے کبھی بھی سنجیدہ اور پُرعزم نہیں پایا ہے۔ ہم نے نوٹ کیا کہ قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کمیٹی نے 2019 میں ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کی سفارش کی تھی جس کا مقصد اس معاملے پر غور کرنا اور نئے صوبے کے قیام پر پارلیمانی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کام کرنا تھا ۔مگر اس سفارش پر حکومت کی طرف سے عمل درآمد نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ معاملہ غیر فعال ہو گیا اور اس نے مطلوبہ دو تہائی اکثریت بنانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جو نئے صوبے کی حد بندی کرنے والی آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لیے درکار تھی۔
اب اس بل کو ایک ایسے وقت میں پیش کرنا جب حکومت کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے نتیجہ خیز اور ممکنہ طور پر کامیاب ووٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس موقع پر یہ لولی پاپ کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بات ہم پر واضح ہے کہ حکومت سرائیکی وسیب کے عوام کی جائز شکایات کا فائدہ اٹھا کر آئینی طور پر مقررہ عمل میں تاخیر اور توجہ ہٹا کر عدم اعتماد سے بچنے کیلئے سرائیکی ایشو کو بھونڈے طریقے سے پیش کر رہی ہےحالانکہ اس مسئلے پر پارلیمانی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے گزشتہ 3 برسوں میں کوئی کام نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ حکومت اس مسئلے کو کسی بھی قسم کے اخلاص کے ساتھ حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ہم ان کوششوں کو ان لوگوں کی توہین سمجھتے ہیں جنہوں نے اس جدوجہد کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں۔ یہ اقتدار میں رہنے والوں کی طرف سے سرائیکی وسیب کے لوگوں کے وقار کو پامال کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔
ہم آئینی طور پر دیے گئے اس عمل کی خلاف ورزی کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہیں جس سے تحریک انصاف کی حکومت بھاگ رہی ہے۔ سرائیکی وسیب کے عوام کی شکایات کا ازالہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب جمہوریت اور آئین پاکستان کی بالادستی ہو۔ اپنے مقصد کو ریاست کے ان ستونوں کو کمزور کرنے کی کوششوں سے جوڑنا ہمارے اس یقین کو بڑھاتا ہے کہ اقتدار میں رہنے والے ہماری شناخت کو مجروح کرنے اور ہمارے جائز سیاسی اور معاشی دعووں کو چھیننے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات خاصی مایوس کن ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ جو طویل عرصے سے خود کو ہمارا نمائندہ کہتے رہے ہیں، اس مذموم حرکت میں سب سے آگے ہیں۔
اس موڑ پر، ہم حکومت کے اندر انتظار کرنے والوں کو بھی مخاطب کرنا چاہیں گے۔ آنے والے وزیر اعظم اور پی ایم ایل این نے طویل عرصے سے علیحدہ بہاولپور صوبے کی وکالت کرکے ہمارے مقصد کو کمزور کرنے کا کام کیا ہے۔ ہم پی ایم ایل این کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمیں تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کا سرائیکی وسیب کے عوام کی جانب سے منہ توڑ جواب دیا جائے گا، جو سیاسی شعور اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا حوصلہ دونوں رکھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پی ایم ایل این اپنی پرانی چالوں کا سہارا لینے سے باز رہے گی اور ایک سرائیکی (جنوبی پنجاب) صوبے کے قیام پر پارلیمانی اتفاق رائے پیدا کرکے اپنے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر