رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے وزیر اعظم عمران خان صاحب کی ایک بڑی صفت ہے۔ یہ کہ وہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کر سکتے ہیں۔
ان کے ہمدرد صحافی اور اینکرز انہیں بڑے عرصے تک ایسا سادہ لوح بنا کر پیش کرتے رہے جسے دنیا یا لوگوں کا زیادہ پتہ نہ ہو‘ یعنی جو چاہتا ہے انہیں باتوں میں لگا لیتا ہے۔ وہ ہر کسی کی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔ سادہ طرز زندگی ہے۔ کسی ہوٹل پر پڑی چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ہیں اور اگر نیند آرہی ہو تو وہیں اس ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر سو بھی جاتے ہیں۔ اس کے ثبوت کیلئے ان کے پاس تصویریں بھی تھیں۔ ان کی ایک اور خوبی کو بڑا بیچا گیا کہ وہ کسی کو چائے تک نہیں پلاتے۔ خود کھانا کھاتے رہتے ہیں اور سامنے بیٹھے بندے سے پوچھتے تک نہیں۔ اس مزاج کو ان کی بڑی انسانی خوبی بنا کر پیش کیا گیا۔ واہ کیا بات ہے اس بندے کی جو نہ کسی کو چائے پلاتا ہے نہ کھانے کا پوچھتا ہے‘ ایسا ہی حکمران یہ قوم تلاش کررہی تھی۔ وہ قوم جو یہ باتیں درسی کتب میں پڑھ پڑھ کر جوان ہوئی کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر ٹوپیاں سی کر اپنا خرچہ پورا کرتا تھا۔ وہی سادہ حکمران جس نے اقتدار کیلئے بھائیوں کو جنگوں میں قتل کیا اور بھتیجوں کے سر قلم کرائے۔
یاد آیا‘ چند برس قبل ایک دوپہر میجر عامر کے گھر بیٹھے تھے کہ ان کے دوست خواجہ ہوتی غصے میں اندر داخل ہوئے اور میجر صاحب سے پشتو میں کہا: یار جلدی سے کھانا کھلائو۔ کھانا میز پر لگ گیا تو غصے میں بڑبڑانے لگے۔ میجر عامر نے پوچھا: خیریت‘ کیا ہوا؟ خواجہ صاحب نئے نئے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ بولے: یار یہ عمران خان کیا چیز ہے؟ آج ہماری پارٹی کے سینئر لوگوں کا اجلاس تھا۔ اجلاس لمبا چلا۔ سب کو بھوک لگ رہی تھی۔ ہمارا خیال تھا‘ کچھ کھانے کا بندوبست ہوگا۔ پھر ایک بندہ تین برگر لے آیا۔ خان صاحب نے ایک برگر خود کھانا شروع کر دیا، دوسرا جاوید ہاشمی اور تیسرا شاہ محمود قریشی کو دے دیا۔ تینوں برگر کھاتے رہے اور باقی لوگ انہیں دیکھتے رہے۔ خواجہ صاحب نے کھانے کیساتھ بات بھی جاری رکھی: یار مجھے کہہ دیتے‘ سب کیلئے برگر منگوائو‘ برگر کیا سب کیلئے کھانا منگوا دیتا۔ یہ کیسا بندہ ہے‘خود برگر منگوا کر کھاتا رہا‘ باقی منہ تکتے رہے۔ خواجہ ہوتی نے اور بھی بہت کچھ کہا اور پھر انہوں نے پارٹی چھوڑ دی کہ ہم پشتون اس کلچر میں ان فٹ ہیں کہ بندہ خود کھاتا رہے اور باقی منہ تکتے رہیں۔
خان صاحب کو اتنا سادہ سمجھ لیا گیا تھاکہ دانشوروں، کالم نگاروں اور اینکرز کی ایک پوری فوج نے ان کے پرچار کا ٹھیکہ لے لیا تھا کہ وہ تو سادہ انسان ہیں‘ کہیں کوئی انہیں غلط راہ پر نہ ڈال دے‘ لہٰذا ہر ایک ان کا مشیر بن گیا، کوئی کمیٹی کا سربراہ تو کوئی ممبر بن گیا کہ خان صاحب سادہ ہیں‘ انہیں دنیا کا کچھ پتہ نہیں کہیں‘ غلط ہاتھوں نہ لگ جائیں۔ آج وہی بھولے خان صاحب ہر بات میں کہتے ہیں کہ انہیں سب پتا ہے‘ وہ مغرب کو زیادہ جانتے ہیں‘ جمہوریت کو زیادہ جانتے ہیں‘ بھارت، امریکہ اور یورپ کو زیادہ جانتے ہیں۔ وہی عمران خان‘ جنہیں پورا پاکستان سادہ سمجھتا تھا‘ آج ایک ہی تقریر بار بار سناتے ہیں کہ وہ کتنے ذہین ہیں کہ سب کچھ جانتے ہیں۔ وہی عمران خان جنہوں نے سائیکل پر دفتر آنا تھا‘ اب ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترتے۔ اس وقت جنوبی کوریا کے وزیر اعظم کا ذکر ہوتا جس نے کشتی کے حادثے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہاں ساہیوال میں پوری فیملی اڑا دی گئی، پشاور مسجد میں ساٹھ لوگ مارے گئے‘ لیکن وزٹ تک نہیں کیا۔
صحافیوں‘ جو انہیں بھولا سمجھتے تھے‘ کیلئے خان صاحب نے پیکا قانون بنوایا کہ اگر خبر غلط نکل آئی تو انہیں پانچ سال کے لیے جیل بھیجا جائے گا حالانکہ خود وہ جلسوں میں ہر مخالف پر الزامات کی بارش کرتے رہے۔آج وہ ضمیر فروشوں کے خلاف ہیں اور درست خلاف ہیں‘ لیکن جب یہی ضمیر ان کی پارٹی 2017 کے سینیٹ الیکشن میں چیئرمین بنوانے کیلئے بیچ رہی تھی اس وقت کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس وقت نواز شریف کے خلاف عمران خان اور زرداری متحد تھے‘ جیسے آج زرداری اور شریف برادران ان کے خلاف متحد ہیں۔ اسی زرداری پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کو سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین بنوانے کیلئے پی ٹی آئی نے ووٹ ڈالے تھے۔ اس وقت زرداری صاحب کے ڈپٹی چیئرمین کو ووٹ دینے کو جائز قرار دیا گیا تھا اور آج وہ جب ‘زرداری کو سب سے بڑی بیماری‘ قرار دیتے ہیں تو بھی خود کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اب بھی لوگ انہیں بھولا سمجھتے ہیں۔ یہ خوبی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی بات کو غلط اور دوسرے لمحے درست ثابت کر سکیں۔ یہ ذہین لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔ جو عمران خان کو جاننے کا دعویٰ کرتے تھے‘ وہ ان عمران خان کو نہیں جانتے جو اس وقت وزیر اعظم ہیں۔ اپوزیشن میں تھے تو کہتے: یورپ میں یہ ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم بنے تو یورپ کی برائیاں شروع کر دیں کہ کہیں پاکستانی وہ یورپ ہی مانگنا نہ شروع کر دیں جو وہ اپوزیشن تقریروں میں انہیں دکھاتے تھے۔ ویسے آج کل انہیں پھر یورپ پر پیار آیا ہوا ہے کہ اگر وہاں دس بیس لوگ وزیر اعظم کے خلاف ”بک‘‘ جاتے تو قیامت آجاتی۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہاں بکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ وزیر اعظم کو پتا چل جائے کہ پارٹی ممبران اس سے ناخوش ہیں تو وہ خود مستعفی ہوجاتا ہے۔ پچھلے سال اعتماد کا ووٹ لیا تو تقریر کی: جس کا دل چاہے میرے خلاف ہاتھ کھڑا کر دے‘ ناراض نہیں ہوں گے۔ آج چند ممبران نے سرعام ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں تو کہتے ہیں: سب ضمیر فروش بک گئے ہیں۔ اس وقت عمران خان کہتے تھے: لوگ اچھے امیدواروں کو ووٹ نہیں ڈالتے۔ یہ کرپٹ لوگ جانتے ہیں‘ الیکشن کیسے جیتا جاتا ہے۔ اب کہتے ہیں: ان کرپٹ لوگوں کو ووٹ پی ٹی آئی کی وجہ سے پڑے تھے۔ اگر امیدواروں کو ووٹ پی ٹی آئی کی وجہ سے پڑنے تھے تو پھر ان بدعنوانوں کو کیوں پارٹی میں لانا پڑا؟ آپ تو بھٹو کی طرح کھمبے کو بھی کھڑا کرتے تو وہ جیت جاتا۔
اب ان ضمیر فروشوں کو کہا جارہا ہے: کوئی بات نہیں جو آپ نے کروڑوں روپے لے کر ضمیر بیچا ہے‘ وہ پیسے بھی اپنے پاس رکھیں لیکن واپس آ جائیں تاکہ وہ وزیراعظم رہیں۔ جس طرح وزیر اعظم فرما رہے تھے ‘لوگ ان کے بچوں سے شادیاں نہیں کریں گے‘ اس پر مجھے ہنسی کا دورہ پڑا۔ انہیں کس نے کہا ہے کہ کرپٹ لوگوں کے بچوں سے معاشرہ شادی کرنا برا سمجھتا ہے؟ لوگ تو ڈھونڈتے ہیں کوئی تگڑی پارٹی ہاتھ لگے۔ خود خان صاحب نے کتنے کرپٹ لوگوں کو خود سے دور رکھا ہے یا انہیں برا سمجھتے ہیں؟ خان صاحب کے بارے میں تو مشہور ہے کہ جب تک کوئی بہت زیادہ امیر نہ ہو یا تگڑا چندہ نہ دے سکتا ہو اسے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ یہ تفریق تو خود خان صاحب نے ختم کر دی تھی کہ انہیں کرپٹ یا بددیانت لوگوں کے ووٹس لے کر وزیر اعظم نہیں بننا۔ یہ معاشرہ تو بدعنوانوں کے آگے بچھ بچھ جاتا ہے۔
مجھے ہنسی ان پر آرہی ہے جو ساری عمر قوم کو سمجھاتے رہے کہ خان صاحب سادہ انسان ہیں‘ وہ بہت چالاک لوگوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں‘ لیکن ماضی کے اس سادہ انسان نے سب پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ سمجھدار ہے اور سب سمجھتا ہے بلکہ پوری دنیا کو دنیا سے زیادہ جانتا ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ ہم جنہیں رول ماڈل سمجھتے ہیں، مہان سمجھتے ہیں، خود سے بہتر انسان سمجھتے ہیں وہ ہمارے جیسے ہی نکلتے ہیں۔ جب کردار دکھانے کی بات آتی ہے تو ہم سب دھڑام سے نیچے گر جاتے ہیں۔ اس قوم کو اگر کوئی درست سمجھا ہے تو وہ اور کوئی نہیں ہمارے پیارے عمران خان ہیں۔ وہ عمران خان جنہوں نے اپنا سفر یہ کہہ کر شروع کیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں پتا اور سادہ ہیں آج کہتے ہیں کہ وہ سب جانتے ہیں، پوری دنیا کو دنیا سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ اور تو اور وہ انگریزی بھی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر