گُردوں اور یرقان کی بیماری اور خطہ سرائیکستان
جام ایم ڈی گانگا… کالم ذرا سوچئے… 03006707148
تین سال میں شعبہ معدہ جگر و آنت میں ہیپاٹائٹس کے ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا فری علاج کیا گیا
جس میں 14000 ہزار سے زائد مریضوں کو ہیپاٹائٹس سی کی ادویات فری فراہم کی گئی جبکہ 1500 سے زائد ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کا علاج اور ادویات فراہم کی گئی
شیخ زید ہسپتال و کالج رحیم یارخان کے اسسٹنٹ پروفیسر گیسٹروانٹرولوجی ڈاکٹر محمد اسرار الحق کی اس سوچ اور جذبے کی بدولت کہ
جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی. شبانہ روز کی محنت سے ضلع رحیم یارخان کے سب سے بڑے شیخ زید ہسپتال میں ایک کمرے پر قائم شعبہ معدہ جگر و آنت تین سال کے عرصہ میں اس وقت پورا وارڈ اور اپنی ایک شاندار بلڈنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے. ٹیم کے دیگر ارکان جس میں ڈاکٹر عمر خالد،
ڈاکٹر محمد عمر فاروق، ڈاکٹر کامران فاروق اور اسٹاف، اینڈسکوپی یونٹ ثمینہ خان،فاطمہ شہزاد،عبدالوقار ملک،شبیر احمد اور آو پی ڈی معدہ وجگر وارڈ ڈاکٹر شیزا افتخار ،ڈاکٹر مریم بختاور
،شہزاد مالک،محمد فاروق،محمد آصف وغیرہ کی محنت بھی شامل ہے.مریضوں کو بہترین طبی سہولیات فراہمی کے علاوہ رحیم یار خان میں 500 سے زائد ای آر سی پی کی گئی ہیں
محترم قارئین کرام،،
ڈاکٹروں کی مذکورہ بالا مثبت سوچ، جذبہ اور خدمات کی فراہمی یقینا ایک قابل ستائش اور قابل تعریف عمل ہے. لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دیگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تلخ صورت حال پر بھی بات کرنا ہوگی.محکمہ صحت کے متعلقہ ارباب اختیار اور حکمرانوں کی توجہ مبذول کروانا ہوگی
.میں یہاں پر یہ بتانا اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھتا ہوں. پاکستان بھر میں یرقان کے سب سے زیادہ مریض ہمارے پیارے خطہ سرائیکستان میں ہیں.
مزید تفصیل کچھ اس طرح ہے کے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کا ڈیرہ غازی خان پاکستان بھر میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ صوبائی وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت کا ضلع رحیم یارخان دوسرے نمبر پر ہے.
حکومت کو چاہئیے کہ کسی علاقے میں مرض کے پھیلاؤ اور مریضوں کی تعداد کے پیش نظر علاج معالجہ کی سہولیات اور ادویات کی فراہمی کا بندوبست کرنا چاہئیے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
ہمارے دیس میں اس قسم کی پلاننگ اور حکمت عملی کا عملی طور پر وجود تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے. یہی وجہ ہے کہ بیماریوں اور مسائل پر کنٹرول کی شرح بھی مایوس کن ہے.
اگر دیکھا جائے تو ضلع رحیم یارخان تین صوبوں کے سنگھم پر واقع ہونے کی وجہ شیخ زید ہسپتال سے تین صوبے کے مریض عوام مستفید ہوتے ہیں.
ہر تیسرا چوتھا شخص یرقان کا مریض ہے یا پھر یرقان سے متاثرہ ہے. یرقان کے پھیلاؤ اور اسباب پر کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس قسم کی منصوبہ بندی اختیار کی جانی چاہئیے
تاکہ سرے سے بیماری کو ہی کنٹرول کرکے لوگوں کو بچایا جا سکے.
گذشتہ دنوں دنیا بھر کی طرح پاکستان اور ضلع رحیم یارخان میں بھی گُردوں اور گُردوں کی بیماری کا عالمی دن منایا گیا ہے.
شیخ زید ہسپتال و کالج شعبہ نیفرالوجی کے انچارج ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عابد حسین چودھری نے عوامی آگاہی کے لیےجو پریس ریلیز جاری کیا. مجھے یہ جان کر خاصی پریشانی لاحق ہوئی ہے کہ
دنیا بھر میں گردوں میں بیماری میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے.ہر دسواں شخص گردوں کی بیماری کا شکار ہے.بلاشبہ ڈاکٹر عابد چودھری کا شمار بھی ضلع رحیم یارخان کے اچھے اور خدا ترس ڈاکٹروں میں ہوتا ہے.
میرا خیال ہے کہ روہی اور تھل کے اضلاع میں غالبا گُردوں کی بیماری دوسرے اضلاع کی نسبت زیادہ ہے.
یہاں پر ہر چھٹا ساتواں شخص مریض ہوگا. حکومت کو اس حقیقت کو جاننے کے لیے باقاعدہ سروے کروانا چاہئیے
اور اس کے مطابق علاج کی سہولیات کے فراہمی بارے اقدامات اٹھانے چاہئیں
محترم قارئین کرام،، ڈاکٹروں کا جذبہ اور خدا ترسی اپنی جگہ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر مختلف قسم کی بیماریوں سے بچاؤ کے سلسلے میں کونسے کونسے حقیقی و عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں.
اب آپ ملیریا اور ڈینگی کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے نمائشی اقدامات کو دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے. شہروں میں تو کچھ نہ کچھ کر ہی لیا جاتا ہے
مگر دیہاتوں میں قدرتی و فطری ماحول رہنے والوں کو قدرت کے رحم و کرم ہر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے.
ہمیں اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیہات پہلے والے دیہات نہیں رہے شہروں کی طرح یہاں بھی ہر قسم کی غلاظت خاصی بڑھ چکی ہے.
خاص طور پر سیوریج سکیمیں نہ ہونے کی وجہ سے جب سے گھر گھر میں گٹر کنواں بن چکے ہیں. معدے آنتوں اور یرقان کی بیماری بڑی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے. اس کا حل اور متبادل کب اور کون دے گا.
کیا عوامی، انتظامی اور حکومتی سطح پر اس اہم مسئلے پر کسی سوچ بچار کا اغاز کیا گیا ہے یا نہیں.
حکومتیں اور محکمہ صحت بیماریوں کے اسباب وجوہات کو جاننے اور ان پر کنٹرول کرنے کے لیے کیا کر رہی ہیں. اچھی قوموں کے حکمران اور انتظامیہ ہمیشہ اپنے عوام کو بیماری کی صورت میں اچھی سہولیات فراہم کرتے ہیں.
بلکہ اُن کی تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو بیماریوں کے اسباب اور وجوہات پر بہتر منصوبہ اور ایڈوانس عملی اقدامات کے ذریعے بیماریوں سے بچا سکیں.
ہمارے ہاں ایڈہاک ازم کی سوچ اور نظریے کے تحت کام کرنے والے حکمرانوں نے کبھی اس طرف سنجیدگی سے دھیان ہی نہیں دیا.
یہاں پر اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے ہاں تلخ حقائق سامنا کرنے سدباب کرنے کی بجائے اکثر و بیشتر چھپائے جاتے ہیں.جیسکہ پولیو فری کا جھوٹ ہے. ڈاکٹروں کو جبرا سختی کے ساتھ پولیو کیسز بارے کسی کو خاص طور پر میڈیا کو بتانے سے روکا گیا ہے..
ڈاکٹروں نے نوکری بھی کرنی ہے اور نجی پریکٹس بھی. اس کی وجہ کیا ہے بیرونی امداد یا کچھ اور?. میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ میرا ضلع رحیم یارخان اس وقت بھی مکمل طور پر پولیو فری نہیں ہے.
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ پولیو مہم کی وجہ سے اس خطرناک بیماری پر زبردست حد کنٹرول کر لیا گیا ہے. خیر چھوڑیں میں اس قسم کی بحث میں نہیں جانا چاہتا.
رحیم یارخان کو ڈاکٹروں کی جنت بھی کہا جاتا ہے. یہاں پر ڈاکو ڈاکٹروں اور قصائی ڈاکٹروں کی بھی بھرمار ہے.
ذاتی لیبارٹریوں یا کمیشن کی وجہ سے بلاوجہ ٹیسٹ،اضافی ادویات تو تقریبا معمول بن چکا ہے. ڈیلیوری آپریشن کے ہسپتالوں اور کلینکس پر لچر اور خچر دونوں قسم کی خباثتیں عام سننے کو ملتی ہیں.
بلاضرورت صرف بھاری رقوم بٹورنے کے لیے بچی کے والدین کو زچہ و بچہ کی موت کا خوف دلا کر آپریشن کرنے والوں کی داستانیں بھی تلخ اور شرمناک ہیں.
ہم تو یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تبارک تعالی ہم سب کو ہدایت دے.اندھی حرص و ہوس سے بچائے.
ہمارا معاشرہ جو احساس کی دولت سے مالا مال تھا اسے احساس کی وہ دولت جس میں سینکڑوں خوشیاں تھیں واپس لوٹا دے آمین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رحیم یارخان
پاکستان کسان اتحاد کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر جام ایم ڈی گانگا نے ڈی سی آفس رحیم یارخان میں ہونے والی گندم پروکیورمنٹ کمپئین میٹنگ کے دوران ڈپٹی کمشنر کو
کسانوں کی اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسانوں کی نمائندگی کے لیے یہاں آتے ہیں. مثبت سوچ کے ساتھ یہاں انتظامیہ کے معاون کے طور پر بیٹھتے ہیں تاکہ کسانوں سے متعلق معاملات اور مسائل کا حل خوش اسلوبی سے کیا جا سکے.
کسان اور زراعت کے حالات بہتر کرکے ہی ملک کو متوازن خوشحالی اور حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے.
پاکستان کسان اتحاد کے رہنما جام ایم ڈی گانگا نے میٹنگ کے دوران ڈپٹی کمشنر کو چند گزارشات و تجاویز تحریری طور پر جمع کرائی ہیں.
جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے. 1.حکومت کا گندم کی کم ازکم سپورٹ پرائس 2200روپے من مقرر کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے. 2. قانونا کسان اپنی گندم برداشت کرتے ہی فوری طور پر فروخت کرنے کا پابند نہیں.
وہ اپنی فصل گندم فورا بیچے یا دیر سے، زیادہ بیچے یا کم. یہ اُس کا بنیادی حق ہے. 3.گندم کاشت کرنے والے کسی بھی کسان\زمیندار کے گھر پر چھاپے مارنا درست نہیں ہے. اس سال اس سے گریز کیا جائے.
ہاں البتہ اگر کوئی گندم خرید کرکے ذخیرہ اندوزی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی سے کسانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا. 4.محکمہ فوڈ اور پاسکو کو طے شدہ سرکاری وزن سے زیادہ بھرتی\وزن لینے کی اجازت نہ دی جائے. 5.کسی بھی فصل کے لیے
معیاری و خالص بیج بنیادی ضرورت ہے. سیڈ کمپنیوں کی سیڈ کے لیے گندم خریداری میں رکاوٹیں نہیں ڈالی جانی چاہئیں. 6.سرکاری مراکز خریداری گندم اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی اوپن کر دینے چاہئیں.7. کسانوں کے مفاد کے پیش نظر فلور ملز کو اوپن مارکیٹ سے گندم خریداری کی کھلی اجازت دی جائے
لیکن اس کا مکمل ریکارڈ ضلعی انتظامیہ کے پاس محفوظ ہونا چاہیئے تاکہ فلور ملز کی مارکیٹ میں آٹا سپلائی پر چیک اینڈ بیلنس اور جائزہ لینے میں مددگار ہو سکے
8.الحمدللہ اس سال گندم کی فصل اچھی ہے اور اچھی پیداوار متوقع ہے. گندم کی کاشت سے لے کر برداشت تک کسانوں کو مختلف مد میں کافی اضافی اخراجات اٹھانے پڑے ہیں.
اس لیے استدعا ہے کہ کسان دوست سوچ اور پالیسی اختیار کی جائے.
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون