رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سارے دوست پوچھ رہے ہیں کہ جب سیاسی میدان تپ گیا ہے تم اس وقت ڈھیلے ڈھالے لگ رہے ہو۔ نہ ٹوئیٹر پر آگ سے بھرے ٹوئیٹ کررہے ہو
نہ سوشل میڈیا پر ری ٹوئیٹس لینے کا جنون سوار ہے . کیا ہوا ہے؟
ٹاپ کے کالم نگار ایاز امیر کی بات یاد آئی کہ اتنے تماشے دیکھ چکے
اب کوئی بات نئی نہیں لگتی نہ دل دھڑکتا ہے۔ کبھی امیدیں تھیں۔ وہ کب کی ختم ہوچکیں ۔ اب اس حمام میں سب ننگے ہیں تو کیا رات کو نیند خراب کریں۔
اس وقت تو سودا خوب بک رہا ہے میڈیا کا۔ مختلف سیاسی گروپس میں تقسیم صحافی آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایک گروپ سمجھتا ہے عمران خان قوم کا مسیحا ہے اور اگر اسے کچھ ہوگیا تو پاکستان پر آسمان گر پڑے گا۔
دنیا چلنے سے انکاری ہوجائے گی۔ کرپشن کا دور لوٹ آئے گا۔ دوسری طرف ایک اور گروہ ہے صحافیوں کا جو سمجھتا ہے اگر زرداری اور شریف واپس نہ آئے تو رہا سہا پاکستان بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
عمران خان، زرداری اور شریفوں کی وہ وہ خوبیاں بتائی جارہی ہیں جو ان کو خود بھی نہیں پتہ۔ ایک کمال کام کیا ہے پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کہ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں جعلی ٹوئٹر اکاونٹس بنا رکھے ہیں
اور ان اکاونٹس کی مدد سے انہوں نے اینکرز اور صحافیوں کو سوشل میڈیا پر یرغمال بنا لیا ہے۔ اب اگر آپ نے ریٹنگز لینی ہیں تو آپ کو کسی ایک پارٹی کو جوائن کرنا پڑے گا۔ ان کا پراپگنڈہ کرنا پڑے گا۔
ان کی حمایت میں ٹوئیٹس کرنے پڑیں گے تو پھر ہی آپ کے ٹوئیٹس ان کے ہزاروں جعلی اکاونٹس سے ری ٹوئیٹس ہوں گے اور آپ کے ویڈیو کلپس کو سوشل میڈیا پرپھیلایا جائے گا اور آپ کو احساس ہوگا
آپ کتنے پاپولر ہیں۔ لیکن شرط وہی ہے آپ کو ان پارٹی لیڈران کو مہان بنا کر پیش کرنا پڑے گا ورنہ آپ کو ان کے میڈیا سیلز پروموٹ نہیں کریں گےبلکہ گالیاں بھی انہیں جعلی اکاونٹس سے دلوائی جائیں گی۔
یوں ان سیاسی جماعتوں نے اینکرز اور صحافیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان کے گیت گائیں۔
اب کوئی صحافی اگر کسی سیاسی لیڈر سے ملے تو دوسری پارٹی اسے لفافہ قرار دے دیتی ہے۔
یوں صحافیوں کو اتنا خوفزدہ کر دیا گیا ہے کہ اب وہ ڈر کے مارے سچ کو رپورٹ کرتے ڈرنے لگے ہیں۔
ٹوئٹ کرنےسے پہلے انہیں سوچنا پڑتا ہےاس سے کون خوش ہوگا اور کون ان پر پل پڑے گا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے عوام تک سچ نہیں پہنچ رہا۔ عوام بھی بری طرح تقسیم ہوچکی ہے اور اپنی اپنی سخت پسند ناپسند ہے۔
وہ اس اینکر یا صحافی کو سنننے کو تیار نہیں جو ان کی مرضی کی گفتگو نہ کرے یا ان کی فیورٹ پارٹی یا لیڈر کا طبلہ نہ مارے۔
یوں صحافیوں اور اینکرز نے بھی یہی سوچا کہ دکان پر وہی سودا بیچو جو بکتا ہے۔
لہذا وہ میڈیاجس کاکامunpopular truth
عوام تک پہنچانا تھا وہ اب عوام کو وہی سنا رہا ہے جو وہ سننا چاہ رہے ہیں۔
بات جب عمران خان پر آتی ہے تو کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ
آخر ساڑھے تین سال سے آپ وزیراعظم ہیں۔ آپ کو دنیا بھر کی سپورٹ ملی۔ میڈیا کا مکو آپ کی خواہش پر ٹھپ دیا گیا۔ جس اینکر نے چوں کی اس کا گلہ دبا دیا گیا
ایک دور تو وہ بھی تھاکہ صرف وہی اینکر سکرین پر بچ گئے تھے جو عمران خان کے گن گاتے تھے۔ اور تو اور اینکرز اور صحافیوں کے جو ٹوئیٹس خان صاحب یا ان کے وزیروں کو پسند نہ آتے وہ بھی باقاعدہ فرمائش کر کے ڈیلیٹ کرائے جاتے۔
صحافیوں اور اینکرز کو آب پارہ اور پنڈی بلا کرکہا گیا پازیٹو رپورٹنگ کرنی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی اگر قانون سازی کا مسلہ پیش ہوا تو بھی وہ مینج کر کے دیا گیا۔ اگر سینٹ میں سے اپوزیشن کے بندے غائب کرانے تھے
تو وہ کام بھی کر کے دیا گیا۔ خان صاحب کو ان تین سالوں میں کانٹا تک نہیں چھبنے دیا گیا۔ اس کے بدلے ان سےتوقع کی گئی وہ ملک کو سیاسی استحکام فراہم کریں گے۔ اکانومی بہتر کریں گے ۔
اب حالت یہ ہے کہ جب وہ آئے تھے ڈالر ایک سو چوبیس روپے تھا آج ایک سو اسی ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے ان تین برسوں میں عمران خان نے اپنے ایم این ایز کو اپنی پرفارمنس یا رویے سے اپنا وفادار کیوں نہیں بنایا کہ
آج وہ نہ بکتے؟ جب سیاسی لیڈر خود اپنی سیاسی فلاسفی سے انحراف کرے گا تو آپ کیسے ممبران یا اراکین سے توقع رکھیں گے کہ وہ وفادار رہیں گے؟ جب عمران خان اپنی فلاسفی بدل رہے تھے
تو میرے جیسے دو تین کسی کونے سے خبردار کر رہے تھے کہ آپ اس طریقے سے وزیراعظم تو بن جائیں گے لیکن آپ کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے جس کے چکر میں قوم آپ پر اعتبار کر بیٹھی تھی۔
عمران خان اس قوم اور ملک کو ایک ہی طریقے سےبدل سکتے تھے کہ وہ اپنے موقف اور فلاسفی پر ڈٹے رہتے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ کو فورا ریزلٹ مل جائیں۔ آپ پریشر گروپ بن کر بھی تو حکومتوں
اور معاشروں کو تبدیلی پر مجبور کر سکتے ہیں۔ انڈیا میں انا ہزارے نے کرپشن خلاف مہم چلائی اور فائدہ کیجری وال نے اٹھایا اور عام آدمی پارٹی بنا کر اپنا میسج عام آدمی کو سمجھا دیا۔
یہاں تک سمجھا دیاکہ ابھی پنجاب الیکشن میں ایک جھاڑو دینے والی خاتون کے بیٹے نے وزیراعلی کو ہرادیا ۔ ماں سے پوچھا گیا اب کیا کرو گی۔ بولی یہی جھاڑو دیتی رہوں گی
کیونکہ کام ایک عبادت ہے۔
ہمارے ہاں الٹ ہوا۔ عمران خان نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ لوگ اپنے جیسے عام بندے کو
ووٹ نہیں دیتے لہذاوہ دنیاجہاں کا سیاسی کچرا اکھٹا کر کے اپنی پارٹی میں لائے اور فرمایا مان لیا وہ سب کرپٹ، بدمعاش غنڈے ہیں
لیکن وہ سب الیکشن لڑنا اور جیتنا جانتے ہیں۔ یوں عمران خان نے اپنی شکست مان لی کہ
اسےتبدیلی کے لیے عام بندے کی نہیں اس کرپٹ سیاسی ایلیٹ کی ضرورت ہے ۔
جیسے عمران خان ان الیلٹیبکلز کو وزیراعظم بننے کے لیے استمعال کرنا چاہتے تھے
ویسے وہ الیکٹیبلز اب عمران خان کے خلاف استمعال ہونا چاہتے ہیں۔ عمران خان بمشکل ہی قومی اسمبلی آتے یا ایم این ایز سے ملتے۔
آج تک انہیں اسمبلی میں کسی ایم این اے کو اٹھ کر ہاتھ ملاتے نہیں دیکھا۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ بات معمولی لگتی ہو لیکن ایک سیاسی جمہوری کلچر میں یہ اہمیت کی حامل ہے کہ ان کا وزیراعظم ان سے کیسا رویہ رکھتا ہے۔
یوسف رضا گیلانی کیوں سینٹ سیٹ دس برس سیاست سے دور رہنے باوجود جیت گئےاور حفیظ شیخ کیوں ہار گئے؟ وجہ وہی تھی کہ یوسف رضا گیلانی کا وزیراعظم کے طور پر سب MNAs سے رویہ اچھا تھا۔
حفیظ شیخ کسی سے سیدھا ہاتھ ملا کر بھی خوش نہیں تھے۔ ریزلٹ سب نے دیکھ لیا حالانکہ مجھے خود بھی یقین نہیں تھا کہ گیلانی صاحب جیتیں گے۔
حالت یہ ہی مجھے پی ٹی آئی کے ایک اہم وزیر نے بتایا کہ
ان کی زبان وزیراعظم آفس میں کوئی نہیں سمجھتا ۔آفس پر کچھ اور لوگوں کا قبضہ ہے۔ ان کا اشارہ شہزاد اکبر اور اعظم خان کی طرف تھا۔
عمران خان نے پارلیمنٹ پر توجہ کی بجائے اپنے اے ٹی ایمز،دوستوں کو اعلی عہدے باٹنے، دنیا جہاں سے دوست بلا کر وزیر مشیر بنا دیا۔
جو ووٹ لے کر آئے تھے ان کو سیدھے منہ ہاتھ تک نہ ملایا۔ عمران خان اور ان کے حامی مانیں یا نہ مانیں انہوں نے اپوزیشن کا کام دو طریقوں سے آسان کیا ہے۔
یہی اپوزیشن صرف تین برسوں میں دوبارہ اپنےپائوں پر کھڑی ہوگئی جو تیس برس کھڑی نہیں ہوسکتی تھی۔
وجہ خود عمران خان اور ان کے لاڈلے بزدار صاحب تھے۔ یہی جو میڈیا جس کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے اس کا سب سے پہلے مکو ٹھپا اور اپوزیشن کو میڈیا پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا کہ
چلو میرے خلاف اسے استمعال کرو۔ اپنے ایم این ایز کو اگنور کر کے غیرمنتخب یار دوست وزیر بنا کر اور انہیں عزت نہ دے کر خود سے دور کیا اور اپوزیشن کا کام آسان کیا۔
اب جو بھی کہیں کہ میڈیا بک گیا ہےیا ایم این ایز نے خود کو فروخت کر دیا ہے، لیکن کبھی اپنے گریبان میں خود بھی جھانکیں کہ
آپ بھی بدل گئے تو وہ بھی بدل گئے۔ آج آپ رو رہے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں وفادار نہیں رہے تو خان صاحب بھی تو اپنی ائیڈیالوجی سے وفاداری نہ کرسکے اور ایک کے بعد دوسرا
کمپرومائز کرتے چلے گئے۔
جہاں تک وفاداری کی بات ہے یہ خریدی نہیں جاتی۔ یہ کمائی جاتی ہے۔ انسانوں کو اپنا وفادار بنانے کے لیے سات جنگل اور سات دریا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ آپ نے اپنے نعرے ساتھ وفاداری دکھائی ہوتی تو آج وفاداروں کی کمی نہ ہوتی۔
جس بھائو تول میں آپ کباڑ خرید لائے تھے اسی میں یا اس سے زیادہ میں وہ بک گیا ہے تو گلہ کیسا؟ آپ نے خود کہا تھا
آپ ایماندار لوگوں ساتھ انقلاب نہیں لاسکتے۔ جب آپ نے خود شکست مان لی تھی اور ڈاکٹر فاوسسٹس کی طرح اپنی روح کا سودا دنیاوی لذتوں کے لیے کر لیا تھا تواب گلہ کیسا؟
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر