نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنگیں کس لیے، امن کی خواہش کیوں؟||ڈاکٹر مجاہد مرزا

کہانی جو بھی ہو لیکن اب جنگ کے مقاصد دو طرح کے ہو گئے ایک تو معدنیات اور خاص طور پر تیل و گیس والے ملکوں پر اجارہ داری قائم کیا جانا دوسرے امریکہ کو شکست دے کر ساری دنیا میں ایک خاص قسم کا اسلام رائج کرنا۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیو تالستوئی ( ٹالسٹائی، ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم انگریز پر اعتبار کر لیتے ہیں جو حرف ت نہیں بول سکتا،بحرحال) بہت بڑا ادیب ہی نہیں فلسفی بھی تھا۔ اس کی امن پسندی سے ہی متاثر ہو کر گاندھی نے اہنسا یا عدم تشدد کے طریق کو اپنی مزاحمتی سیاست کی بنیاد بنایا تھا۔ تالستوئی کا ایک ضخیم ناول ہے جس کا روسی میں اصل عنوان "وائینا ای میر” ہے۔ روسی زبان میں لفظ "میر” کے معانی امن بھی ہیں اور دنیا یا جہان بھی مگر انگریز مترجم نے مناسب سمجھا تھا کہ اس کا ترجمہ "جنگ اور جہان” کی بجائے "وار اینڈ پیس” کر دے جو پھر مستعمل ہو گیا۔ تالستوئی کے اس ناول میں جنگ اور جنگ سے وابستہ مفادات اور جنگ کی وجوہ کا ادبی و علمی اظہار ہے۔ ناول میں تالستوئی نے امن کی خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ جنگ کی ہولناکیوں کی جزئیات بیان کرکے جنگ کی قباحتوں کو نمایاں کیا ہے جو بالواسطہ امن کی ہی تمنا ہے۔
ماہرین عمرانیات کے مطابق جنگ تب سے شروع ہوئی جب سے ذاتی جائیداد بنانے کی رسم رائج ہوئی تھی۔ جنگ زمین، زمین سے وابستہ وسائل جو پرانے وقتوں میں سطح زمین یا اس سے کچھ نیچے تک وابستہ ہوتے تھے، کو اپنی ملکیت بنانے کی خاطر شروع ہوئی تھی۔ عورت چونکہ مرد کی ہمیشہ بدنی خواہش رہی ہے، اس لیے جوان، خاص طور پر کنواری لڑکیوں اور نوعمر بچیوں کو ملکیت بنانا بھی جنگ کا حصہ ٹھہرا تھا۔ زراعت کے فروغ کے بعد مضبوط مردوں اور بچوں کو بھی بیگار لیے جانے کی خاطر غلام بنانے کا چلن ہو گیا تھا۔
زمانہ مزید بڑھا۔ گروہی معاشرے سے قبائلی معاشرے نے جنم لیا اب قبیلے کی انا، تعظیم اور اقتدار کی خواہش، ضروریات اور ضروریات سے بڑھ کر آرزووں یعنی تعیش میں بھی اضافہ ہوا۔ اب جنگ ضرورت کی بجائے ایک صنعت بن گئی۔ مال غنیمت کی مدد سے لڑنے والوں کے مشاہرے، مرنے اور زخمی ہونے والوں کو معاوضے ادا کیے جانے کے علاوہ بیت المال بھی بھرے جاتے۔ ساتھ ساتھ مقتدر افراد کے ضروری اور اکثر اوقات غیر ضروری اخراجات بھی پورے کیے جاتے تھے۔ ایسا خاص طور پر ان علاقوں میں ہوا جہاں زراعت یا تو مفقود تھی یا ترقی نہیں کر سکی تھی۔ زرعی معاشرے میں جنگ کرنے کی عموما” دو ہی وجوہ تھیں، مال و دولت و زراعت پر قبضہ، عورتوں اور غلاموں کا حصول۔
زمانہ مزید آگے بڑھا۔ صنعتی دور آ گیا۔ اب منڈی کی تلاش ہوئی۔ جہاں مشینی صنعت نہیں تھی وہاں دستکاریاں ہی معاشرے کی ضروریات کو کم و بیش پوری کر دیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے ہاتھ کی محنت اور مشین کی کارکردگی میں معیاری اور مقداری دونوں ہی فرق تھے۔ اس لیے مشینوں کی مدد سے زیادہ مال تیار کر لیا جاتا تھا اور اس مال کی کھپت بھی ہونی چاہیے تھی۔ زیادہ مال بنائے جانے کی خاطر خام مواد درکار ہوتا تھا۔ بعض خام مواد صنعتی معاشرے میں موجود نہیں تھے جیسے انیسویں صدی کے پانچویں سے ساتویں عشرے میں سوتی کپڑا سازی کی صنعت تیزی سے فروغ پانے لگی تھی لیکن کپاس مصر اور ہندوستان سے ہی میسّر آ سکتی تھی۔ وہاں نوآبادیاں بنائی گئیں، ان کے لیے جنگیں بھی کی گئیں۔ ململ بنانے والوں کی انگلیاں بھی قطع کی گئیں۔ نوآبادیات کا قیام محض اقتدار بڑھانے کی ہوس نہیں تھی بلکہ خام مال اور انسانی محنت کے حصول کی خاطر بھی نوآبادیاں بسائی جاتی تھی جیسے ماریشس اور جنوبی افریقہ میں نیشکر کی فصلیں اگانے، کاٹنے اور ان سے شکر تیار کرنے کی غرض سے ہندوستان سے لوگوں کو زبردستی وہاں لے جایا گیا پھر افریقہ سے لوگوں کو غلام بنا کر کیوبا میں نیشکر اگانے کے لیے بھیجا گیا۔
زمانہ کچھ اور آگے بڑھا۔ بعض ایسے ملکوں نے جن کے پاس نوآبادیاں کم تھیں البتہ انہوں نے تیزی کے ساتھ صنعتی پیش رفت کر لی تھی مگر ان کے مال کی کھپت اور خام مال کے حصول کے لیے علاقے کم پڑ رہے تھے جیسے جرمنی اور کسی حد تک اٹلی اور جاپان۔ چنانچہ منڈیوں پر قبضہ کرنے کی ضرورت اور خواہش کے تحت ایک نہیں بلکہ دو عالمی جنگیں ہوئیں۔ یاد رہے اس دور میں زمین کی سطح اور کچھ نیچے کا مواد ہی درکار نہیں رہا تھا بلکہ زمین کی گہرائی میں دفن معدنیات لوہا، تانبا، چاندی، سونا، ہیرے، تیل اور بعد میں قدرتی گیس بھی ضرورتیں بن گئے تھے۔ انجن کو چلانے کے لیے چاہے وہ کارخانوں کے تھے، گاڑیوں کے تھے، موٹروں اور ٹرکوں کے تھے یا بحری اور ہوائی جہازوں کے تیل درکار تھا اور ہے۔
زمانہ ذرا اور آگے بڑھا۔ ہائی ٹیک کا دور شروع ہوا۔ صنعتیں بہت زیادہ پھیل گئیں اب تیل اور گیس اشد ترین ضرورتیں بن گئے۔ جب تک طاقت کے دو مراکز رہے یعنی ماسکو اور واشنگٹن تب تک جنگوں کا دائرہ محدود رہا لیکن بریژنیف نے افغانستان میں فوج بھیج کر امریکہ کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ سرمایہ دارانہ نطام کے مدمقابل اشتمالی و اشتراکی نظام کے خلاف لڑائی لڑے۔ براہ راست ایسا کیا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ دونوں بڑی اور جوہری طاقتیں تھیں چنانچہ امریکہ نے پاکستان کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف لڑائی کا اہتمام کیا۔ جنگ چونکہ سیاسی نوعیت کی تھی یعنی اثر و رسوخ کی خاطر چنانچہ جنگ کا نعرہ سیاسی رکھا گیا اور خدا سے بے بہرہ روسیوں کے خلاف جہاد (اسلامی) کو نعرہ بنایا گیا۔
مذہب ہمیشہ سے جذباتی معاملہ ہے خاص طور پر ایشیا اور ایشیائی ملکوں میں جہاں نہ تو نشاۃ ثانیہ ہوئی اور نہ ہی اس کے بھرپور اثرات جگہ پا سکے۔ اس لیے دنیا بھر سے خاص طور پر عرب ملکوں اور بالخصوص سعودی عرب سے جہاد کے خواہشمند اس "مقدس جنگ” میں حصہ لینے پہنچے۔ سوویت یونین کو افغانستان سے جانا پڑا۔ روس میں تبدیلی کا عمل پہلے سے جاری تھا اس عمل سے کچھ تیز تر ہو گیا۔ بالآخر سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اب "مقدس جنگ” کرنے والوں کو گمان ہوا کہ انہوں نے اگر ملحد روس کے "چھکے چھڑا” دیے ہیں تو ان کا مربّی لیکن عیسائی ملک جہاں یہودیوں کی بالادستی ہے اور جو اسرائیل کا سب سے بڑا ہمدرد اور غمگسار ہے، کے گھٹنے کیوں زمین پر نہیں لگوائے جا سکتے۔
کہانی جو بھی ہو لیکن اب جنگ کے مقاصد دو طرح کے ہو گئے ایک تو معدنیات اور خاص طور پر تیل و گیس والے ملکوں پر اجارہ داری قائم کیا جانا دوسرے امریکہ کو شکست دے کر ساری دنیا میں ایک خاص قسم کا اسلام رائج کرنا۔ ساتھ ہی ایک اور ملک تیزی سے بڑا صنعتی ملک بنتا جا رہا ہے یعنی چین۔ وہ اپنا مال تو جیسے تیسے دنیا بھر کی منڈیوں میں پہنچائے جا رہا ہے لیکن خام مال اور خاص طور پر تیل کے حصول کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ اگر تیل کی قیمتیں چڑھتی گئیں اور خام مال کی دستیابی میں بھی مشکلات پیدا ہو گئیں تو اس کی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی یوں وہ اپنے مد مقابل ملکوں سے مسابقت نہیں کر سکے گا۔ مغرب کی خواہش ہوگی کہ ایسا ہی ہو۔ ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ بھی ایسے ہی ملک ہیں روس میں بھی صنعتوں کا فروغ جاری ہے مگر اس کے پاس تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہیں یعنی منڈیوں کے لیے جنگ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ جب معاملات بہت بگڑ جاتے ہیں تو مسلح جنگ شروع ہو جایا کرتی ہے۔ جنگ ہوتی ہی چھینا جھپٹی کے لیے ہے۔ ہارنے والے مکمل طور پر ہار جاتے ہیں اور جیتنے والے مکمل طور پر جیت جاتے ہیں، پھر تاریخ نویسی بھی ان کی ہوتی ہے اور داستان طرازی بھی انہیں کی۔
پہلے زمانوں میں امن کی خواہش اس لیے ہوتی تھی کہ ماؤں کی گود ویران ہوتی تھی، بیویوں کے سہاگ اجڑتے تھے، بہنوں کے ویر مرتے تھے، بچے یتیم ہو جاتے تھے، قوم میں محنت کرنے والے ناپید ہو جاتے تھے۔ کھیت اجڑ جاتے تھے۔ دستکار مفقود ہو جاتے تھے۔علاوہ ازیں معذوروں اور ذخمیوں کا خیال بھی رکھنا پڑتا تھا۔ آج بھی امن کی خواہش میں یہی عوامل کارفرما ہیں لیکن ہیروشیما اور ناگا ساکی کے واقعات کے بعد پانچ بڑی جوہری طاقتیں پھر ان میں بھارت، پاکستان، جنوبی افریقہ اور اسرائیل کا بھی اضافہ۔ اب تو مصطفٰی زیدی کی نظم:
شکنتلا، اگر اس بر جنگ ہوگی
تو تیرے گھر کے برآمدے میں
چٹختی اینٹوں کے ڈھیر ہونگے
تہمارے چولھے میں لکڑیوں کے
عوض تمارا بدن جلے گا
سے بھی بات آگے جا چکی ہے کیونکہ جوہری جنگ ہونے کی صورت میں نہ چولہے رہیں گے اور نہ بدن اور برآمدے۔ بڑے بڑے جوہری و تابکار چولہے سب نگل کر ہڑپ کر لیں گے۔ اس لیے امن کی نہصرف خواہش رکھنی چاہیے بلگہ جدوجہد کی جانی چاہیے کہ امن ہی امن ہو فوجوں کا وجود تک نہ ہو۔ فوجوں پر خرچ کیے جانے والے اخراجات سے دنیا کو جنت بنایا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author