دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشل میڈیا کے قاری||ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثال کے طور پر کچھ اقتباسات اور آراء پیش کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا میں امراض ذہنی کے ماہر کے طور پر پریکٹس کرتے ہیں۔ شاعر، ادیب اور مصنف ہیں اور خیر سے معروف ادیب و شاعر عارف عبدالمتین کے بھتیجے بھی۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارک زکربرگ نے پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء اور پھر بتدریج امریکہ کی دوسری یونیورسٹیوں کے طلباء کو تعلق اور ڈیٹنگ کی خاطر جوڑنے کے لیے "دی فیس بک ” کا آغاز کیا تھا۔ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں طلباء کے انفرادی کوائف اسی عنوان کے تحت ہوتے ہیں یعنی ہر شخص کی اپنی شناخت کا کتابچہ، اسی لیے اس کے ساتھ "دی” یا "دا” لگا ہوا ہوتا ہے۔ پھر جب تعلق خیزی کا یہ ورطہ مقبول ہونے لگا تو اس میں سے تخصص ہٹا دیا گیا اور یہ محض "فیس بک ” رہ گئی یعنی ہر ایک کی اپنی شناخت مگر ان سب کے لیے بھی جو کسی کی شناخت جاننے کے خواہاں ہوں اور مطلوب شخص اپنی شناخت فراہم کرنے کو تیار ہو۔
یوں اس سماجی ذریعہ ابلاغ میں اب اربوں لوگ ہیں اور ہر نوع کے۔ کم پڑھے لکھے اور محض تصویر دیکھنے والے یا مختصر تحریر پڑھنے والے دنیا بھر میں بشمول ترقی یافتہ ملکوں کے سب سے زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ تصاویر کو پسند کیے جانے کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ مختصر تحریر کی اس سے کم اور بلاگ یا مضمون کو پسند کیے جانے کی تعداد اس سے بھی کم۔ اس میں معروف لکھنے والے یا غیر معروف لکھنے والے کے پسند کرنے والوں کی تعداد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے مگر تناسب کم و بیش یہی رہتا ہے۔
ایسا کیے جانا وقت بچانے، عجلت پسندی، عدم دلچسپی، مختصر آراء و تمحیص کی عادت اور وقت گذاری کے تحت ہو سکتا ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر اپنی ذہانت، فطانت، نابغہ پن اور ہرفن مہارت کا فوری اظہار کیے جانے کا چلن بھی عام ہے۔ طویل تحریروں یعنی بلاگز یا مضامین پر بیشتر آراء مناسب، متناسب، متعلقہ، تعریفی یا معترضانہ ہوتی ہیں جبکہ مختصر تحریروں پر متنوع۔ کسی تحریر کے اقتباسات کو تو بالعموم خالصتا” اپنی سوچ، خواہش اور توقع یا عدم توقع کے تحت لیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر اقتباس یا پسند کیا جا سکتا ہے یا ناپسند یا اس سے صرف نگاہ کی جا سکتی ہے۔
مثال کے طور پر کچھ اقتباسات اور آراء پیش کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا میں امراض ذہنی کے ماہر کے طور پر پریکٹس کرتے ہیں۔ شاعر، ادیب اور مصنف ہیں اور خیر سے معروف ادیب و شاعر عارف عبدالمتین کے بھتیجے بھی۔ ان کی بہت جامع اور مدلل تحریریں پاکستان کے ایک معروف پورٹل پر آشکار ہوتی ہیں۔ ان کی تحاریر کے عنوان دلچسپ اور مواد مضبوط ہوتا ہے۔ حال ہی میں ان کا ایک مضمون بعنوان ” ہم اپنا پورا سچ کیوں نہیں لکھ پاتے؟” سامنے آیا تو میں نے ان کے مضمون کے تین اقتباس سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیے۔
پہلا اقتباس تھا: ” جب ایک بچہ کسی خاندان‘ سکول اور معاشرے میں پلتا بڑھتا ہے تو وہ ماحول اس کی تعلیم و تربیت کرتے کرتے اس کیSocial, religious and cultural conditioning بھی کر رہا ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ اسے بتاتا ہے کہ وہ کیا سوچ سکتا ہے, کہہ سکتا ہے, لکھ سکتا ہے۔
وہ معاشرہ بعض چیزوں کو مقدس سمجھتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اگر اس نے ان مقدس چیزوں پر اعتراض کیا یا سوال اٹھایا تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اسی لیے اکثر لوگ خاموش رہتے ہیں۔”
اس اقتباس پر آراء یوں رہیں : ” جی بات ٹھیک ہے لیکن پہلے سکول کا نظام تو ایک کر لیں ” نظام ایک کر لینے سے کیا کنڈیشننگ کا عمل رک جائے گا یا سست پڑ جائے گا، اس رائے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہی خیال آتا ہے۔ جب میں نے جواب میں لکھا کہ یہ مضمون نفسیات و عمرانیات سے متعلق ہے، نظام تعلیم یا سیاسیات سے متعلق نہیں تو رائے دینے والے موصوف نے جواب میں لکھا،” جی بات آپ کی بھی ٹھیک ہے لیکن ہم نے مضمون جن کو پڑھانا ہے وہ تو طلبا ہی ہوں گے ” جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون طلباء کو نہیں پڑھانا بلکہ وہ پڑھیں گے جو ایسا مضمون پڑھ سکتے ہیں بلکہ پڑھ کر کے ہضم بھی کر سکتے ہیں اور اگر کہیں کسی قابل ہوں تو اس کا اطلاق کرکے اپنی یا کسی اور کی سوچ بھی بہتر کر سکتے ہیں۔
اسی اقتباس پر ایک اور صاحب نے فرمایا، ” اب ایسا ممکن نہیں ۔ انٹرنیٹ نے لامحدود در کھول دیے ہیں "۔ عرض کی کہ آپ پہلے ڈاکٹر صاحب کا پورا مضمون پڑھ لیں پھر رائے دیں تو مناسب ہوگا مگر رائے دہندہ نے کمال بے اعتنائی سے فرمایا، "میں نے جتنا پڑھا اسی کا جواب دیا ہے” یعنی مضمون نہیں پڑھنا۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ملک جیسے ملک میں انٹرنیٹ پر بھی کوئی سچ لکھ کر دکھا دے ، کیا درگت بنتی ہے وہ وہی جانتا ہے جو کھلم کھلا سچ لکھنے کی سعی کرتا ہے۔ مذہب کے بارے میں سوال کرنا تو ویسے ہی ” لاحول ولا ” کے زمرے میں آتا ہے مگر بھائی صاحب نے اپنا خیال ظاہر کر دیا اور اس پر قائم ہیں یعنی مکالمے کی گنجائش نشتہ۔
دوسرا اقتباس یوں تھا: ” انسان بنیادی طور پر آزاد ہے۔ اس کی آزادی کے دو بنیادی حوالے ہیں۔ ایک حوالہ روحانیت ہے اور دوسرا محبت۔ ایک روایتی معاشرہ روحانیت کے پرندے کو مذہب کے پنجرے میں اور محبت کے پرندے کو شادی کے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ پرندے کچھ عرصہ پنجرے میں زندہ رہتے ہیں پھر پھڑپھڑانے لگتے ہیں اور اکثر اوقات پنجرے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور بہت سے انسان اور شادی شدہ جوڑے برس ہا برس ان پرندوں کی لاشوں کو محفل محفل لیے پھرتے رہتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں۔ اس سچ کو مشرق و مغرب کے بہت کم لوگ ماننے کے لیے تیار ہیں کہReligion can kill spirituality and marriage can kill love.
ایک ہیومنسٹ ہونے کی حیثیت سے میرا یہ موقف ہے کہ روحانیت انسانیت کا حصہ ہے اور روحانی تجربات مخصوص حالات میں ایک دہریے کو بھی اسی تواتر سے ہو سکتے ہیں جس تواتر سے کسی سنت‘ سادھو اور صوفی کو کیونکہ Spirituality is part of humanity not divinity”
اس پر ایک رائے یوں تھی،” دو طاقتیں ہیں ایک روحانی یعنی محبت۔ دوسری بغض و بدنامی کا ڈر۔ محبت فطری قانون ہے اور بغض ( ابلیس ) ہے جو کہ محبت کو توڑنے کی کوششوں میں لگا ہے۔ اور کچھ بدبخت انسان حسد کو فالو کرتے ہیں۔ اس لئے تو اج کی تاریخ میں محبت کو کوئی نہ سمجھ سکا ہے۔ اللہ بھی محبت کرتا ہے ایک اچھا انسان بھی ۔ شیطان میں محبت کرنے کی صفت ہے ہی نہیں ۔ یہ صفت اللہ میں ہے۔ اور اس کے نیک بندوں میں ہے” بھائی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے فلسفیانہ اور عمرانیاتی معاملے کو محض لفظ صوفی پڑھ کر دینیات کے ساتھ جوڑ دیا۔ دوسرے صاحب نے دہریے اور صوفی کے محبت کے تجربے کو یوں بیان کرتے ہوئے بیچ میں ہوس گھسیڑ دی کہ،” محبت نہیں مرتی ہوس مر جاتی ہے ہارمون ٹریگر بدل جاتا ہے انسان وقت کے ساتھ بدلتے ہیں تو رویے بدلتے ہیں دہریے اور صوفی کے روحانی تجربات میں ایک عام انسان اور ڈاکٹر کے تجربات جیسا فرق ہے”۔
تیسرا اقتباس یوں تھا،” ہر نسل اور ہر عہد میں اکثریت کا ایک سچ ہوتا ہے ایک تھیسسThesis ہوتا ہے جو روایت کہلاتا ہے۔اسی طرح اقلیت کا ایک سچ ہوتا ہے ایک اینٹی تھیسس ہوتا ہے جو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ روایت اور بغاوت، تھیسس اور اینٹی تھیسس‘ کچھ عرصے تک ٹکراتے ہیں پھر آہستہ آہستہ مل کر ایک سنتھیسس Synthesisتخلیق کرتے ہیں جس کی کوکھ سے دانائی جنم لیتی ہے۔ یہ دانائی اگلی نسل کی روایت بن جاتی ہے اور ارتقا کا یہ سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ایک نسل کے باغی دوسری نسل کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔ایک نسل کی پگڈنڈیاں اگلی نسل کی شاہراہیں بن جاتی ہیں۔” ہمارے سوشل میڈیا کے نابغہ دوست نے اس بارے میں یہ اطلاع دی کہ سر یہ سلسلہ تو زیادہ سے زیادہ دو صدی پرانا ہے وگرنہ۔۔۔ تاریخ تو فاتح ہی لکھواتے رہے ہیں۔ ( سائٹ کا لنک فراہم کر دیے جانے کے باوجود یہ دوست پورا مضمون پڑھنے سے ویسے ہی اغماض برت چکے ہیں یہ کہہ کر کہ جو پڑھا اس کا جواب دیا )۔
یوں لگتا یہی ہے کہ ڈیجیٹل عہد نے مطالعے کی عادت کو نہیں بڑھایا بلکہ دیکھنے اور سرسری طور پر پڑھ کر فوری رائے دینے کی جانب راغب کیا ہے۔ ایسا اگر جاپان، کوریا، یورپ اور امریکہ میں ہوتا تو بات سمجھ آ سکتی تھی کیونکہ وہاں زیادہ لوگ فی الواقعی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کو اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر زیادہ استعمال کرتے ہیں، تقریح طبع اور اظہار تشخص بلکہ تشخص کی مبالغہ آرائی کے لیے خال خال مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں نوجوان بھی سوشل میڈیا کے ساتھ اسی طرح چپکے ہوتے ہیں جس طرح میرے جیسا ریٹائرڈ بوڑھا شخص، ایسی مصنوعی عجلت پسندی، احساس برتری اور کج بحثی قابل تشویش ہے یعنی مطالعے کی عادت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔
اللہ ہم سب پر رحم کرے کیونکہ ہم نے سب کچھ ویسے ہی اللہ تعالٰی کے ذمے لگایا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author