نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دریا کا کنارا اور ڈیرہ وال ||گلزار احمد

ڈیرہ اسماعیل خان کے وسیب کے لوگوں کا دل جب اداس ہوتا ہے تو دریا سندھ کے کنارے پہنچ کر دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے سانجھے ہیں ۔ اس دریا کا دل بہت بڑا ہے اور یہ دکھ سمیٹ لیتا ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے وسیب کے لوگوں کا دل جب اداس ہوتا ہے تو دریا سندھ کے کنارے پہنچ کر دکھ سکھ بانٹ لیتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے سانجھے ہیں ۔ اس دریا کا دل بہت بڑا ہے اور یہ دکھ سمیٹ لیتا ہے۔ سائیں اشولال کا کلام بھی اس سلسلے کی کڑی ہے ؎
دریا او دریا پانڑیں تیڈے ڈونگے ۔۔۔
توں ساڈا پیو ما اساں تیڈے پونگے۔۔۔۔
دریا او دریا پانڑیں تیڈے ساوے۔۔۔
اوہو ویلا ہر دم جیڑھا نال راہوے
دریا او دریا تیڈےساڈے سانگے
ہنساں دی صورت پانیاں دے وانگے
دریا او دریا دھپ تیڈی تکھڑی
بیڑیاں وچ لنگھ گئی عمرھاں دی لکھڑی.
دریا او دریا جنگلاں دے سانویں
کہیں ڈینھہ تاں ہوسی خوشی ساڈے نانویں
دریا او دریا ڈسا دل دا جانی
کتھاں تیڈے پکھڑو کتھاں تیڈا پانی
دریا او دریا اچی تیڈی ماڑی
ماڑی دے اندر مونجھا دی ماری۔۔
کلام ۔۔اشو لال

رنجیت سنگھ کی غیر معمولی یاداشت ۔۔

رنجیت سنگھ نے اپنے زیر انتظام علاقوں سے ٹیکس یا مالیہ وصول کرنے کے لیے کوئی اکاونٹنٹ اور دفتر نہیں بنایا تھا۔ اس کی عجیب عادت تھی کہ جب اس کو کسی شھر سے مالیاتی رقم ملتی تو اپنے دائیں جانب والے سکھ گھوڑا سوار کے حوالے کر دیتا اور پھر جہاں رقم خرچ کرنی ہوتی اسے رقم ادا کرنے کا زبانی حکم دیتا رہتا۔ وہ سکھ ادا کی گئی رقم کا حساب ایک لکڑی کی لاٹھی پر کھود کے لکھتا رہتا۔جب تمام رقم خرچ ہو جاتی تو وہ رنجیت سنگھ کے پاس آتا اور لاٹھی پر کھدا گیا حساب پیش کرتا۔ رنجیت سنگھ کی یاداشت اتنی تیز تھی کہ تمام آمد و خرچ اسے یاد ہوتا اور جب حساب مکمل ہوجاتا تو وہ حکم دیتا کہ اب لاٹھی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا جائے۔
یاد رہے ڈیرہ اسماعیل خان 1836 سے 1848 تک تقریبا” 13 سال سکھوں کے زیر نگیں رہا ۔

About The Author