نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بعد از روز قیامت||ڈاکٹر مجاہد مرزا

شہروں دیہاتوں خاص طور پر دیہاتوں میں کسی کے ساتھ کسی کے بھاگ جانے کے واقعات عام ہوتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کے بھی۔ یہ وہ میدان ہے جس میں لبرل دوستوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان اور لامحالہ ہندوستان کے ذرائع ابلاغ عامہ پر 14 فروری ایسے لگتا تھا جیسے روز قیامت ہو۔ لبرل اورغیر لبرل دونوں کیمپوں سے انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ کہیں کوئی صاحبہ زبردستی کسی مولوی صاحب کو پیشگی مبارک دے رہی ہیں اور دیے ہی چلی جا رہی ہیں جبکہ مولانا اس مبارک باد اور پھول بھیجنے کی پیشکش کا ایسے برا منا رہے ہیں جیسے خدانخواستہ ان پر خنزیر کی اوجھڑی الٹ دی گئی ہو۔ موصوفہ ہیں کہ باوجود مستند عمر ہونے کے ٹین ایجر کی طرح ضد سے باز ہی نہیں آتیں بلکہ کبھی کبھار زیرلب مسکرا بھی دیتی ہیں۔ کہیں کوئی دوست یہ دور کی کوڑی لے کر آیا کہ تمام مذاہب اسلام تھے تو اسلام سے پہلے عیسائیت اسلام تھی چنانچہ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب تقریب "صحیح بخاری” میں درج ہو سکتی ہے چاہے غیر مستند اور ضعیف حیثیت میں ہی صحیح (انہوں نے ایسا نہیں کہا بلکہ ان کے استدلال پر یہ میرا طنز ہے)۔ سب سے پہلے تو اس بات کا ہی جواب دے لوں کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مجھ پر فرض ہے کہ نہی عن المنکر پر عمل کروں۔ درست کہ سب مذاہب اسلام تھے مگر یہ اس سے بھی زیادہ درست ہے کہ ان مذاہب میں بہت جلد تحریفات ہو گئی تھیں، عیسائیت یورپ میں تو آ کر ویسے ہی مشرف بہ خنزیر و بادہ ہو گئی تھی جو "عہد نامہ قدیم و جدید” دونوں ہی میں ممنوعات ہیں۔
میں روس میں رہتا ہوں۔ یہاں ہمیں سینٹ ویلنٹائن کی بھنک تک نہیں پڑتی۔ پھول تو یہاں سارا سال بکتے ہیں، بہت بکتے ہیں اور بہت مہنگے بکتے ہیں کیوں کہ یہاں پھول بطور تحفہ دینے کا رواج ہے۔ سب سے زیادہ پھول عورتوں کے عالمی دن یعنی آٹھ مارچ کو بکتے ہیں اور پھر نئے سال کی تقریب کے موقع پر۔ تقریب چاہے سکول کی ہو یا کسی کی سالگرہ کی، استانیوں اور سالگرہ منانے والی خواتین کو پھولوں سے تقریبا” لاد دیا جاتا ہے اور وہ بھی پھولوں کے ہجوم کو بازووں میں بچوں کی طرح سمیٹے شاداں و خنداں پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار اکثر دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں کرسمس بھی نہیں منائی جاتی، جی ہاں یہاں یوم تولد عیسٰی مسیح منایا جاتا ہے لیکن سات جنوری کو اور وہ بھی گرجا گھروں میں۔ مجھے سینٹ ویلنٹائں ڈے منانے کی ایک ہی دعوت موصول ہوئی تھی اور وہ بھی "انگلش سپیکنگ کلب” کی جانب سے، شام ساڑھے پانج بجے سے ساڑھے آٹھ بجے تک، وہ بھی ایک بند ہال میں کوئی سو پچاس لوگوں نے اسے منانا تھا۔
یہ میں نے اس لیے بتایا ہے کہ روس کے لوگوں کی اکثریت قدامت پسند عیسائیت کی مقلد ہے جو بازنطین سے یونان اور یونان سے روس پہنچی تھی چنانچہ یہ مکتب کیتھولک تقریبات کو درست خیال نہیں کرتا اور بلا شبہ کیتھولک عیسائیوں کے سنتوں جیسے سینٹ ویلنٹائن کو سنت ہی نہیں مانتا تو پھر وہ تہوار کیوں منائے جن کا ان کے مکتب فکر سے تعلق ہی نہیں۔ نہ ہی میڈیا کو ایسی تقریبات کو مشتہر کرنے کا چسکا ہے کیونکہ پھول، چاکلیٹ وغیرہ تو ویسے ہی بکتے ہیں جن کی پبلسٹی سارا سال چلتی ہے۔ ہمارے ملکوں میں چونکہ یہ چیزیں اگر بکتی بھی ہین تو شہروں میں اور وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر لوگ ہی ہوتے ہیں جو خرید سکتے ہیں اور خریدتے ہیں پھر اس تشہیر کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد اس درمیانے طبقے کو اس خریداری میں شامل کرنا ہے جن کا پہلے ہی پورا نہیں پڑتا۔
اس مجادلے میں مجھے پاکستان کے لبرل دوستوں کے موقف کی بالکل سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا چاہتے تھے۔ سبھی کے لیے آزادی؟ سینٹ ویلنٹائن ڈے منا کر کونسی آزادی مل جاتی، یہی نہ کہ مغرب کی درآمدات کو مقبول بنایا جائے ثقافت کو بھی اور تجارت کو بھی۔ ان کا کیا خیال ہے کہ اس تہوار کو منانے والوں کو منانے کی آزادی دلوا کر قدامت پسند خیالات کی یورش کو کمزور کیا جا سکے گا؟ بہت بھولے ہیں بھئی ہمارے یہ لبرل دوست۔ قدامت پرستی سے مقابلے کے کئی اور میدان ہیں، ایک نخواستہ میدان سجانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔
پھر یہ تاویل دی گئی کہ بہنوں، بھائیوں کو ماں باپ کو مبارک باد دی جا سکتی ہے اور محبت کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ بھئی ان رشتے داروں سے پیار ہوتا ہے محبت نہیں محبت تو مخالف جنسوں اور ہم جنس پرست افراد میں اپنی ہی جنس کے لوگوں کے درمیان ہوا کرتی ہے اسی لیے میں نے اس موقع پر جو مضمون لکھا وہ "محبت کی نفسیات” تھا نہ کہ پیار، عشق اور جنوں سے متعلق کیونکہ تعلق کے یہی چار مراحل ہوتے ہیں یعنی پیار، محبت، عشق، جنوں۔ تو حضور ہمارے ہاں کیا ہر جانب ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال موجود ہیں، یہ قصے ہیں اور وہ بھی بقول کسے "ہماری بیٹی اتنی بری تو نہیں تھی جتنا اسے وارث شاہ نے رگیدا ہے”۔ محبت کرنے سے نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ کوئی رکا ہے۔ یہ ایک کیمیائی عمل ہے جس کا ہارمونوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ یہ ایک خاص عمر میں زیادہ ہوتی ہے اور بہت ہوتی ہے لیکن اس ضمن میں آزادی کی آواز اٹھانے سے پہلے معروضی ثقافتی عوامل کو مدنظر رکھا جانا عقل مندی ہوگی۔
شہروں دیہاتوں خاص طور پر دیہاتوں میں کسی کے ساتھ کسی کے بھاگ جانے کے واقعات عام ہوتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کے بھی۔ یہ وہ میدان ہے جس میں لبرل دوستوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اب آخر میں پھر آتے ہیں روز قیامت کی جانب۔ پاکستان کی 98 فیصد آبادی مسلمان ہے اور آدھی سے زیادہ ان پڑھ۔ روس کی مساجد میں خاص طور جس مسجد میں میں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں مردوں اور عورتوں کو بیاہ کی غرض سے ایک دوسرے سے متعارف کرانے کی ایک کونسل ہے۔ دوسروں کی موجودگی میں لڑکا لڑکی ملتے ہیں اور متعارف ہوتے ہیں۔ فون نمبروں کا تبادلہ کر لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہیں اگر علیحدہ بھی ملیں تو کوئی روکنے والا نہیں۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی کوئی کونسل نہیں ہے۔ ایسی کونسل ہر مسجد میں ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی رشتوں کی تلاش میں مدد مل سکے۔ ایک اور بات کو یکسر نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر لڑکی گھر بسانا چاہتی ہے اور ہر نوجوان شادی سے گریز لیکن لڑکی سے تعلق کا خواہاں ہوتا ہے چنانچہ جس طرح اس "روز قیامت” کی تشہیر کی گئی اور ہر دو جانب سے یعنی لبرل خواتین و خضرات کی جانب سے بھی اور کنزرویٹیو خواتین و حضرات کی جانب سے بھی، وہ کوئی اتنا درست نہیں تھا۔ تاحتٰی "حیا ڈے” ( جو ویسے ہی غلط ہے اسے "یوم حیا” ہونا چاہیے تھا) منانے والوں میں شامل ایک برقع پوش خاتون کو تو یہ بھی کہتے سنا گیا: "کون تھا ویلنٹائن، وہ ہوس کا دیوتا تھا”۔ لاحول ولا قوت، وہ بیچارہ پادری تھا اور ویسا ہی تھا جیسے اکثر مولوی حضرات ہوتے ہیں جو محبت اور ہوس دونوں کے بارے میں مخلوط قسم کا رویہ رکھتے ہیں، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے اور۔ باقی اللہ جانے اور اصل روز قیامت۔
ایک پرانا مضمون

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author