جولائی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ دریا کدھر ہے ؟||گلزار احمد

پھر زمانے نے کروٹ بدلی اور کچھ نیے برتن آ نے شروع ہوئے ۔اب کم از کم میرے کچن میں گڈوی نظر نہیں آتی ۔اس لیے کہ ہم اب ماڈرن ہو گیے ۔ہمارے گڈوی کے ذکر پر بھی ہمارے بچے منہ بنائیں گے کہ بابا کس چیز کو یاد کر بیٹھا ہے۔ یار گڈوی سے ہمیں اپنی ماں یاد آتی ہے جب وہ ہمیں بلا کے کہتی ۔۔۔گڈوی چا تے کِھیر گِھِن آ۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دریائے سندھ کی محبت ڈیرہ اسماعیل خان وسیب کے لوگوں کے خون میں شامل ہے۔ صدیوں پہلے یہاں تہزیبیں پرورش پاتی اور ویران ہوتی رہیں لیکن لوگوں نے شیر دریا کو نہیں چھوڑا۔کہیں پیار سے اس کو مہران کہا کہیں آباسین کہا۔ ۔ ساڑھے سات سو سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ فتح خان اس دریا کے کنارے آباد ہوئے اور اس دریا نے ان شھروں کو تین تین دفعہ پامال کیا مگر لوگ ناراض نہیں ہوئے اور تھوڑے فاصلے پر گھر بسا لیے لیکن سندھ کو نہیں چھوڑا ۔ دریا کا دامن پانی سے بھرا رہتا اور لوگ اس کے کنارے صبح شام پیار کے گیت گاتے رہتے۔ دریا آباد رہتا شھر اجڑتے رہتے ۔مگر اب تاریخ کا ایسا موڑ آ پہنچا ہے کہ شھر آباد ہو رہے ہیں دریا اجڑ رہا ہے۔

گڈوی اور خزانہ ۔۔

ہمارے بچپن میں گڈوی بہت کار آمد چیز تھی۔ یہ گڈوی ۔جست ۔پیتل ۔تانبے اور کًچ یعنی شیشے کی بھی بنی ہوتی ۔ شیشے کی گڈوی میں میری ماں ایک ایک روپے والے کلدار روپے کے سکے جمع رکھتی جو ہمارا ATM تھا ۔ یہ گڈوی ہم اپنے سکے جمع کرنے کے لیے گولک کے طور پر استعمال کرتے اور گولک کو پشتو میں خزانہ بھی کہتے ہیں۔ جست والی گڈوی میں ہم دودھ لاتے ۔ایسی ایک گڈوی دودھ بیچنے والے کھیری کے پاس ہوتی جو ایک لیٹر کی تھی جس سے وہ دودھ ناپ کے دیتا۔ تانبے والی گڈوی میں پانی یا لسی پیتے تھے۔پیتل والی گڈوی ذرہ بھاری تھی اس میں گھی رکھا ہوتا۔ گڈوی کا ایک استعمال بطور میوزک بھی تھا جس میں جھگیوں والی لڑکیاں اسے بجا کر ساتھ گانے گاتی تھیں اور”ویل ودھائی” وصول کر لیتی تھیں.
پھر زمانے نے کروٹ بدلی اور کچھ نیے برتن آ نے شروع ہوئے ۔اب کم از کم میرے کچن میں گڈوی نظر نہیں آتی ۔اس لیے کہ ہم اب ماڈرن ہو گیے ۔ہمارے گڈوی کے ذکر پر بھی ہمارے بچے منہ بنائیں گے کہ بابا کس چیز کو یاد کر بیٹھا ہے۔ یار گڈوی سے ہمیں اپنی ماں یاد آتی ہے جب وہ ہمیں بلا کے کہتی ۔۔۔گڈوی چا تے کِھیر گِھِن آ۔

ڈیرہ اسماعیل خان اور مٹھائی ۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان اپنے محل وقوع کی وجہ سے ایسی جگہ واقع ہے جہاں وافر قدرتی گھاس کی وجہ سے مال مویشی خوب پلتے بڑھتے اور دودھ کی فراوانی تھی۔ ماضی کے مسلمان تو دودھ کو نور سمجھتے اور اس کو فروخت کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے البتہ یہاں کے ہندو دودھ بیچتے تھے۔ خالص دودھ کی فراوانی سے یہاں کے ایک باشندے سوہن لال نے سوہن حلوہ ایجاد کر ڈالا ۔پھر ہندٶں کے زمانے مٹھائ کی جو ورائٹی ڈیرہ بنتی اس کی پورے ہندوستان میں دھوم تھی۔ شادیوں کے موقع پر لڈو۔۔بتاشے۔برفی۔ٹکیاں۔ انار ۔ توشہ ۔لاچی دانے ۔کیا کیا چیزیں تھیں۔ لڈو تو ایسے بنتے کہ منہ میں گُھل جاتے۔اب ساری چیزوں میں ملاوٹ ہے اگر لڈو کھا لیں تو تھوڑی دیر بعد منہ کڑوا ہو جاتا ہے۔ خالص اشیاء کہاں ڈھونڈیں ؟

%d bloggers like this: