دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عوامی مارچ ۔ 48 گھنٹے ۔ چوہدری شجاعت کی عیادت||ملک سراج احمد

اس مجموعی سیاسی صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامہ اپنے منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اپوزیشن ون پوائنٹ ایجنڈے پر متفق ہوچکی ہے اور طے کرچکی ہے کہ جلد سے جلد حکومت کو گھر بھیجا جائے

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپلزپارٹی کا عوامی مارچ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور عکس بے نظٰیر کی قیادت میں رحیم یار خان پہنچ چکا ہے ۔سندھ کے بعد پنجاب میں بھی عوامی مارچ کا والہانہ استقبال اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ عوام اب تبدیلی سرکار کی تبدیلی چاہتے ہیں ۔اس لیئے عوامی مارچ کا ہر جگہ شاندار استقبال ہورہا ہے ۔رحیم یار خان کے بعد ملتان اور پھر براستہ لاہور سے اسلام آباد کا سفر بذریعہ جی ٹی روڈ جہاں جیالوں میں نئی جان ڈال دے گا وہاں پر عام آدمی کی تکالیف اور مشکلات کی بھی بھرپور ترجمانی کرئے گا۔ایک اچھے ہوم ورک اور بہترین انتظام کے ساتھ ساتھ عوامی مارچ کو درحقیقت تبدیلی سرکار کی نااہلی اور بدترین طرز حکمرانی نے رنگ بھردیا ہے۔
اس کی دلیل یہ کہ جب عوامی مارچ گھوٹکی پہنچا تو میڈیا زرائع کے مطابق گھوٹکی سے تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی سردار شہر یار خان شر نے عوامی مارچ کے ٹرک پر سوار ہوکر پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔سندھ کے حقوق کی حفاظت کا دعویٰ کرنے والے اپنی وکٹ کی حفاظت نا کرسکے ۔یہی نہیں بلکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی براے وزارت آبی وسائل ، پاور اور پٹرولیم اور بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سرداریارمحمد رند نے بھی اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھیجتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا حتمی فیصلہ ہے ۔2019 میں معاون خصوصی بننے والے رند سردار کی دیر سے سہی مگر بالآخر آنکھ کھل ہی گئی اور حسن اتفاق کہ ٹھیک وقت پھر آنکھ کھلی۔
آنکھ تو وزیراعظم کی بھی ٹھیک وقت پھر کھلی اور بھاگے بھاگے چوہدری شجاعت کی عیادت کو پہنچے۔اس ملاقات کے بعد میڈٰیا کے زریعے جو تاثر دینے کی کوشش کی گئی اس کی وضاحت ایم این اے چوہدری طارق بشیر چیمہ کو میڈیا پر آکر کرنی پڑی مدعا یہ کہ پنجاب اور وفاق کی قیادت کے مسلئے کو سلجھائے بغیر صرف عیادت ہی کی گئی ۔گجرات کے چوہدری سیانے ہیں ہواوں کا رخ بڑی جلدی پہچان لیتے ہیں لہذا اس ملاقات سے کپتان کو سیاسی فائدہ نہیں اٹھانے دیا اور بیانات کی تردید اور تصحیح کراتے رہے مطلب یہ کہ اب چوہدری بھی مزید بوجھ اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہیں
اور شائد یہی وجہ ہے کہ کچھ دن قبل پیکا ترمیمی آرڈیننس کے حق میں دلائل دینے والے کپتان کے ایک کھلاڑی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس لینے کو تیار ہیں اور ہم نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کو مکمل اختیار دیا ہے کہ جس طرح وہ کہیں گے اسی طرح کرلیں گے جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔اچھی بات ہے کہ حکومت کو اس ایشو پر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ اس کو سلجھانا چاہتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسا متنازعہ آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت کیا تھی جس کو چند دن بعد ہی واپس لینے کی بات کرنی پڑ گئی
اپوزیشن کا دباو جتنا بڑھتا جارہا ہے اس کے نتیجہ میں اب آہستہ آہستہ تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا جس طریقے سے اس بھان متی کے کنبے کو کہیں کی اینٹ اور کہیں کے روڑے سے جوڑا گیا ہے جس طرح سے تبدیلی کا بت تعمیر کیا گیا تھا اسی طریقے سے اب یہ بت مسمار ہوتا جائے گا۔سب سے پہلے ناراض اراکین چھوڑیں گے اس کے بعد اتحادیوں کے ختم نہ ہونے والے گلے شکوئے سامنے آئیں گے اور ان کی طرف سے عدم تعاون کا سلسلہ شروع ہوگا۔حکومت جائےنا جائے مگر آئے روز اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا رہی بات عوام کی تو وہ ویسے ہی مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آئی ہوئی ہے
ایسے میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتےہوئے نوید سنائی کہ ان کےنمبرز پورے ہوگئے ہیں اور اپوزیشن نے اپنا ہوم ورک پورا کرلیا ہے ۔مولانا کے مطابق آئندہ دو سے تین روز اہم اور 48 گھنٹے بہت ہی اہم ہیں ان کے مطابق وہ زرداری اور میاں صاحب کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اپوزیشن میں کسی نکتے پر اختلاف نہیں ہے مولانا کے مطابق فی الوقت یہ طے ہے کہ حکومت کو چلتا کیا جائے یعنی خزاں جائے ،بہار آئے یا نہ آئے ۔ مطلب یہ کہ بہار کی امید نا سہی مگر خزاں کے ٹالنے پر اپوزیشن مکمل طورپر متفق ہے
اس مجموعی سیاسی صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامہ اپنے منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اپوزیشن ون پوائنٹ ایجنڈے پر متفق ہوچکی ہے اور طے کرچکی ہے کہ جلد سے جلد حکومت کو گھر بھیجا جائے ایسے میں عوامی مارچ کے دوران جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا موقف بڑا واضح تھا کہ عدم اعتما دکی کامیابی کے بعد نئی بننے والی حکومت کا صرف ایک مینڈیٹ ہوگا اور وہ الیکشن ریفارمز ہوں گی ۔یہ ریفارمز کرکے فی الفور انتخابات کرائے جائیں گے تاکہ اقتدار عوامی منتخب نمائندوں کو منتقل کیا جاسکے
مگر ایک سوال ایسا ہے جس کا جواب سب تلاش کررہے ہیں اور وہ یہ کہ ایمپائر کا فیصلہ کیا ہوگا۔مولانا کے مطابق ایمپائر نیوٹرل ہوچکا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد بھرپور طریقے سے کامیاب ہوگی اور اگر ایسا نہیں ہے تو حکومت قائم تو رہے گی مگر یہ موت سے زیادہ بدتر زندگی جیسی ہوگی ۔ایک ایسی حکومت جس کا کوئی دن سکون سے نہیں گذرئے گا اور عوامی سطح پر حکومت کی مقبولیت کا گراف اور زیادہ تیزی سے گرنا شروع ہوجائے گا۔اگر نیا بجٹ موجودہ حکومت نے دیا تو نئےممکنہ ٹٰیکسز میں کمی ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور عوام کے لیئے مراعات کے مطالبات کا ایسا طوفان آئے گا جس کو پورا کرنا شائد حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی۔گویا عیش وعشرت کے دن ختم ہوئے اور اب ہر دن کانٹوں کی سیج پر گذرنے والا ہے ۔

————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author