نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎کیا غالب کی بیگم کی ماہواری بھی تکلیف دہ تھی؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

یقیناً صاحبان علم و دانش آپ کے گائنی فیمنزم اور شعروں سے ان کو بیان کرنے کی صلاحیت کی داد دیتے ہوں گے۔ دیکھئے نا علم و ادب اپنی جگہ لیکن زندگی کے یہ سب سلسلے تو سب کے ہاں ہی موجود ہیں نا ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“یقین کیجئیے ڈاکٹر صاحب میرا لباس بھیگ جاتا ہے۔ شرابور ہوتی ہوں، کچھ سمجھ نہیں آتا؟” وہ روہانسی ہو کر بولیں۔

“مت نہایا کریں نا بارش میں! نہ لباس بھیگے گا نہ شرابور ہوں گی”

ہم نے بے نیازی سے جواب دیا۔

ہماری بات سن کر ان کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

“نہیں ڈاکٹر صاحب آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ میں بارش کی نہیں ماہواری کی بات کر رہی ہوں”

اب دیکھیے بے چاری گائناکالوجسٹ کا حال، برسات کا سماں آنکھوں میں بسائے بیٹھی ہے اور مریض ہیں کہ ماہواری سے باہر ہی نہیں نکلنے دیتے۔

“میرا مطلب ہے کہ ماہواری کا خون اس قدر زیادہ آتا ہے کہ کپڑے بھیگ جاتے ہیں۔ رات کو بستر خراب ہو جاتا ہے، میں خون میں لت پت ہو جاتی ہوں۔ اب تو مجھے پیمپرز باندھنے پڑتے ہیں “

آہ، یہ ماہواری عورت کو کیسے بے بس کرتی ہے۔ ہمارے دل سے آہ سی نکلی اور ایک یاد در دل سے ٹکرائی ۔

اندھیرے کمرے میں گہری نیند سوئی ماں کے سرہانے ایک نوعمر لڑکی اس کش مکش میں کھڑی ہے کہ دن بھر کی تھکی ماندی ماں کو کیسے جگایا جائے۔ ہلکی سی سسکی اور ذرا سی آہٹ اور ماں کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

“کیا ہوا میری بیٹی ؟ کیا ہوا؟ کیوں جاگ رہی ہو اس وقت؟ یہاں کیسے، میرے کمرے میں؟”

“مما وہ … وہ … “

بچی سسکیاں بھرنے لگتی ہے

“ارے کیا ہوا میری جان ؟ خیریت تو ہے نا”

“وہ مما، بستر خراب ہو گیا ہے “

“کیا مطلب؟”

“مما وہ … وہ …”

“ارے کہو نا بیٹا ، کیا پیشاب نکل گیا؟”

“نہیں مما، پیشاب نہیں۔ رات کو پیریڈ ہو گئے تھے، میں نے سونے سے پہلے پیڈ تو اچھی طرح پہنا تھا مگر وہ لیک ہو گیا اور بلیڈنگ سے بستر گیلا ہے، کیا کروں مما؟”

“اوہ بیٹا تم نے مجھے ڈرا ہی دیا ۔ رونے کی کیا بات ہے؟ کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ بستر کی چادر اور گدا دھل جائے گا۔ تم باتھ روم جاؤ اور نہا کر کپڑے تبدیل کرو۔ ایک پیڈ کی جگہ دو لگا لینا”

“مما، دو پیڈ لگا کر چلا نہیں جاتا، چبھتا ہے”

“آہ … واقعی، یہ تو ہم بھی کہتے تھے کہ پیڈ لگا کر چلنا محال ہے اور خاص طور پہ موسم گرما میں جب پیڈ پنڈلیوں سے رگڑ کھاتا ہے تو زخم بن جاتے ہیں”

“مما درد بھی ہو رہی ہے”

“اچھا میں درد کی گولی بھی لاتی ہوں تم چلو باتھ روم میں”

یہ قصہ ہماری بیٹی کے ان دنوں کی یاد ہے جب اسے ماہواری آنا شروع ہوئی تھی۔ چھوٹی سی بچی کو پیڈ لگانے کی مشکل سے گزرتا دیکھتے تو دل مسوس لیتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ ماہواری نام کا نظام عورت کی زندگی میں نہ ہوتا۔ انسانی جسم سے حیات نو کا سلسلہ کسی اور طرح سے شروع ہوتا۔

ماہواری ایسا عفریت ہے جو کسی ہشت پا کی طرح عورت کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتا، نوعمری سے لے کر ادھیڑ عمری تک۔ ہماری مریضہ بھی ماہواری میں بھیگ کر ہم تک پہنچی تھیں۔

ذہن میں دلچسپ سا خیال آیا آخر شاعروں کی بیگمات اور محبوبہ بھی تو ان حالات سے گزرتی ہوں گی ۔ ہو سکتا ہے کبھی کسی خاتون نے منہ بسور کر غالب سے کہا ہو، اجی قبلہ سنیے تو، کل رات ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ طبعیت تو ناساز تھی ہی، ساتھ میں لباس کی مصیبت بھی آن پڑی۔

اب سامنے غالب ہو اور امراؤ بیگم گلوگیر لہجے میں شکایت کر رہی ہوں تو کچھ نہ کہنے کی توقع تو غالب سے نہیں کی جا سکتی نا۔ دیکھئے تو کیا مصرع لکھا ہے۔

“ چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن”

یقین ہے کہ آپ سر پیٹ لیں گے۔ لیکن کیا کیجئے اب یہی کچھ ذہن میں آیا تو، بس سنیے اور سر دھنیے۔

مریضہ کا الٹرا ساؤنڈ کیا تو بچے دانی کا پیٹ پھولا ہوا نظر آیا ۔ یہ کیا ہے بھئی ؟ ہم بڑ بڑائے۔ بچے دانی کی دیوار سے ایک رسولی وسط تک پہنچ رہی تھی۔ یہی رسولی ماہواری میں زیادہ خون بہنے کی وجہ تھی ۔

یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ رسولی کو ویجائنا کے راستے نکالا جائے یا پیٹ کھولا جائے، ایم آر آئی درکار تھا۔ MRI کی رپورٹ کے مطابق یہ رسولی submucosal fibroid کے طور پر شناخت کی گئی۔

فائبروائڈ ایسی رسولیوں کو کہتے ہیں جو بچے دانی کے اندر بنتی ہیں ۔ ان کا حجم اور وزن کئی کلو تک ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر یہ کینسر کا مؤجب نہیں بنتیں لیکن کچھ پرسنٹیج میں کینسر شروع ہو سکتا ہے۔

بہت چھوٹے فائبراؤڈ کا آپریشن نہیں کیا جاتا لیکن جب بھی فائبراؤڈ حجم میں بڑھنے لگیں، ماہواری زیادہ آنے لگے یا کسی بھی قسم کی تکلیف ظاہر ہو، انہیں نکلوا دینا چاہئیے۔ اگر مریضہ کی عمر چالیس سے اوپر ہو تو بچے دانی بھی نکالی جا سکتی ہے۔

یہ سب کچھ مریضہ کو سمجھا کر ہم نے انہیں غالب کا مصرع بھی سنایا جس پر وہ محظوظ ہو کر بولیں،

یقیناً صاحبان علم و دانش آپ کے گائنی فیمنزم اور شعروں سے ان کو بیان کرنے کی صلاحیت کی داد دیتے ہوں گے۔ دیکھئے نا علم و ادب اپنی جگہ لیکن زندگی کے یہ سب سلسلے تو سب کے ہاں ہی موجود ہیں نا ۔

کاش ایسا ہوتا! ہم نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اس لعن طعن کو تصور کی آنکھ سے دیکھا جو غالب اور ماہواری کے تذکرے پر ہم تک پہنچنے والی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author