جولائی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ماہواری، بیماری اور وہ سات دن!|ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ماہواری کے ذکر سے جو بھی کراہت محسوس کرتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ناف کی طرف ایک نگاہ کہ سب سے بڑا ثبوت تو وہی ہے۔ اس وقت کا جب وہ بطن مادر میں ماہواری کے لہو میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے زندگی تلاش کرتے تھے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ہم سات بہنیں ہیں، وہ سب سات دن بیمار ہوتی ہیں اور میں صرف تین دن۔ بڑی پریشان ہوں“ بھرائی ہوئی آواز۔

یا اللہ یہ کون سی بیماری ہے جس کا دورانیہ کم ہونے پہ یہ غمگین ہیں؟ کیا کووڈ؟ لیکن اس کے نہ ہونے پہ خوش تو ہوا نہیں جا سکتا۔ ویسے سات بہنیں اور سات دن کی بیماری۔ واہ کیا بات ہے۔ ہمیں تو وہ فلم یاد آ گئی چھ بھائیوں والی، کیا بھلا سا نام تھا۔ ہاں یاد آیا، ستے پہ ستہ۔ ویسے ایک اور بھی تو تھی، وہ سات دن!

لاحول ولا قوۃ، سامنے مریضہ بیٹھی اپنا احوال سنا رہی ہے اور ڈاکٹر صاحبہ خود کلامی میں مصروف ہیں۔
”سات دن کی بیماری۔ میں سمجھی نہیں کچھ؟“ بالآخر ہم نے چونک کر کہا
”وہ جی کپڑے۔“ وہ اٹک اٹک کر بولی
”کپڑے؟ کون سے کپڑے؟“
(مانا کہ ہمیں نت نئے لباس پہننے کا بہت شوق ہے لیکن یہ سات دن میں ہمارے کپڑے کہاں سے آ گئے؟ )
”جی۔ وہ جی۔ میرا مطلب ہے، ماہواری“

(ہت تیرے کی، بیماری اور کپڑوں سے ہوتے ہوئے آخر ماہواری تک پہنچ ہی گئیں یہ محترمہ۔ اور ہمیں وہ بے شمار لمحات یاد آ گئے جب گھر کی بچی کو ماہواری آئی ہو تو کہا جاتا ہے، وچاری نوں بیماری آئی اے ) ۔

”جی بتائیے ماہواری کا کیا مسئلہ ہے؟“
”جی اصل میں میری بہنوں کو سات دن خون آتا ہے اور مجھے صرف تین دن“
”تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“ ہم حیران ہوئے۔
”فرق پڑتا ہے نا جی، ان کو ماہواری کھل کر آتی ہے، مطلب گندا خون سارا نکل جاتا ہے“
(اف پھر گندے خون کی کہانی )
”بی بی، ماہواری کا خون گندا نہیں ہوتا، سیدھا سیدھا شریانوں سے آ رہا ہوتا ہے۔

کیا ہوتا اگر انہوں نے غالب کو پڑھ رکھا ہوتا۔ فوراً کہتیں
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

ویسے اگر آپ برا نہ مانیں تو آنکھ کی جگہ ویجائنا پڑھا جا سکتا ہے۔ ارے ارے اچھلیے نہیں، پڑھ کر دیکھئے۔ نہ ہوئے چچا غالب موجود، ہماری ترکیب استعمال پہ یقیناً تڑپ ہی جاتے۔ دیکھئے نا آنکھ سے بھلا خون کہاں ٹپک سکتا ہے؟ ناممکن!

ہم غالب کو یاد کر رہے تھے اور مریضہ بولتی جا رہی تھیں۔

”دیکھئیے ڈاکٹر، سب یہی کہتے ہیں نا کہ اگر یہ خون کھل کر مطلب اچھی طرح جسم سے خارج نہ ہو تو جسم پھول جاتا ہے۔ مجھے صرف تین دن خون آتا ہے تو باقی چار دن کا خون تو اندر جمع ہو جاتا ہے، نکلتا ہی نہیں۔ مجھے لگتا ہے میرے جسم میں اسی لئے درد ہوتا رہتا ہے۔ اب کوئی ایسی دوائی دے دیں کہ وہ سب جمع شدہ خون نکل جائے“

بال نوچنے کی کسر رہ گئی تھی لیکن خود پہ قابو پا کر بولے،

”دیکھو، ماہواری میں کھل کر خون نہ آنا اور جسم پھول جانا سب بڑی بوڑھیوں کی کہی ہوئی کہانیاں ہیں، ایسی کہانیاں جن میں کوئی حقیقت نہیں“

”تو پھر باقی عورتوں کو سات دن خون کیوں آتا ہے؟“ وہ جھنجھلا کر بولی۔

”ہر کسی کے جسم کا اپنا اپنا حساب ہے جیسے کسی کی آنکھیں غزالی اور کسی کی ہمارے جیسی جو نظر ہی نہیں آتیں۔ اسی طرح کسی کی بچے دانی بڑی اور کسی کی چھوٹی۔ ساتھ میں ہارمونز کا اپنا اپنا چکر۔

ماہواری اٹھائیس دن کی زندگی کا ایک ایسا چکر ہے جس کا مقصد جسم کو بتانا ہے کہ پچھلے ماہ کا بنایا ہوا انڈا ختم ہو گیا، اب پھر سے بنانا شروع کر دو۔ ماہواری کا خون اس انڈے کے استقبال کی تیاری ہے اگر حمل ٹھہر جائے تو۔ نہ ٹھہرے تو بچے کی خوراک کے لئے جمع شدہ اس خون کو جسم سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ اس خون کی مقدار اوسطا اسی ملی لیٹر ( 80 ml) سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

کچھ علم ہے کہ اسی ملی لیٹر کتنا ہوتا ہے؟ ”
”نہیں جی“

”ایک پاؤ کا تیسرا حصہ یا ایک لیٹر کا بارہواں حصہ، گھر جا کر ایک برتن میں پاؤ کا تیسرا حصہ ڈال کر دیکھ لینا۔ یاد رکھو اس اس سے زیادہ خون خارج نہیں ہونا چاہیے“

خون کھل کر آنا ایسی کہانی ہے جو ہر بڑی بوڑھی دوسری عورتوں کو سرگوشیاں کرتے ہوئے منتقل کرتی ہے۔ اس میں سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے نسخے بھی ہوتے ہیں۔ چھو ہارے دودھ میں ڈال کر پینا، منقی کا استعمال اور نہ جانے کیا کیا؟

”تو ڈاکٹر صاحبہ، پکی بات ہے نا کہ میں ٹھیک ہوں؟“

”ہاں بالکل بھئی تم سو فیصدی تندرست ہو۔ ماہواری اگر مہینے کے مہینے آتی رہے اور ساتھ میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوتی ہو تو سمجھو ستے خیراں!

بس یاد رکھو کہ ماہواری کسی طور بھی بیماری نہیں ہے۔ اسی سے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی وہ خون ہے جس میں بچہ آ کر اپنا گھر بناتا ہے اور اسی خون سے خوراک حاصل کرتا ہے۔ آنول بننے کے بعد یہی خون اس کی رگوں میں دوڑتا ہے۔

تو سمجھ لو، یہ سب جو ہمارے ارد گرد ماہواری کے نام پہ بدک جاتے ہیں، ماہواری سے ہی بنے ہیں اور ہمارا وہی لہو ان کی رگوں میں دوڑتا ہے۔

ماہواری کے ذکر سے جو بھی کراہت محسوس کرتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ناف کی طرف ایک نگاہ کہ سب سے بڑا ثبوت تو وہی ہے۔ اس وقت کا جب وہ بطن مادر میں ماہواری کے لہو میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے زندگی تلاش کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: