نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہماری زبانیں اور وزیر اعلیٰ کا بیان||ظہور دھریجہ

مگر افسوس کہ پاکستان میں لسانی شاونزم کی بنیاد پر پاکستانی زبانوں کا سر کچلا جا رہا ہے ،آج انٹرنیٹ کا دور ہے لوگ ماں بولی کے عالمی دن کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمارے حصے میں صرف افسوس آتا ہے۔ آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی،ابھی حال ہی میں پنجاب حکومت کی طرف سے ماں بولی میں تعلیم کا جزوی اعلان ہوا ہے مگر ابھی تک اقدامات سامنے نہیں آئے۔

ظہور دھریجہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ روز ماں بولی کا پوری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی جوش و خروش سے عالمی دن منایا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مادری زبان کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ زبان نہ صرف جذبات کے اظہار و خیال کا ذریعہ ہے بلکہ اقوام کی شناخت بھی زبان سے ہی ہوتی ہے۔ آج کے جدید دور میں مادری زبان کا فروغ اہم ضرورت ہے۔

ڈیجیٹل دنیا میں بھی مادری زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔وزیر اعلیٰ کا فرمان اپنی جگہ درست مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں بھی زبانیں مر رہی ہیں۔ ماں بولی کے حوالے سے پاکستان میں سب سے ابتر حالت صوبہ پنجاب کی ہے ، سرائیکی اور پوٹھوہاری کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان بھی محرومی کا شکار ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے یہ بھی کہا کہ زبان قوم کو شناخت اور پہچان دیتی ہے اور مادری زبان کا تحفظ ہم سب کی سماجی ذمہ داری ہے۔

مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی ذہنی نشو و نما پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ مگرافسوسناک پہلو یہ ہے کہ وسیب کے لوگ اپنی زبان اور اپنی پہچان کی بات کرتے ہیں تو ان کی بات پر توجہ نہیں دی جاتی ، وزیر اعلیٰ خود فرمائیں کہ اس رویے کو کیا نام دیا جائے ؟۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی شناخت اور بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے۔ مادری زبان کے ہر لفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب وتمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں۔ دنیا کی آبادی 8 ارب کے قریب پہنچنے والی ہے، دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر معاشی منڈی میں قبضہ صرف چند زبانوں کا ہے جن میں انگریزی پہلے نمبر پر ہے، پاکستانی زبانوں کو ترقی دے کر تہذیبی ، ثقافتی ، تعلیمی اور معاشی زبانیں بنانے کی ضرورت تھی مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔

حکومتی اکابرین میں سے کسی اور کا بیان تو پڑھنے کو نہیں ملا ، البتہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا جو بیان سامنے آیا ہے اس میں کام کی باتیں ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ مادری زبان کو ثقافتی ورثے کی بقاء اور اس کے فروغ کا مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

آج ہمیں مادری زبان کو فروغ دینے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے کے عزم کا اعادہ کرنا ہے ۔وزیر اعلیٰ کا بیان اپنی جگہ مگر ابھی تک ماں بولیوں کی بقاء اور اس کے فروغ کیلئے اقدامات سامنے نہیں آئے، پنجاب حکومت کی طرف سے حال ہی میں سکولوں میں پنجابی اور سرائیکی پڑھانے کا جو اعلان ہوا ہے اسے محض اعلان نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی اقدامات سامنے آنے چاہئیں۔ زبان کے معاملے میں ترقی یافتہ ممالک جاپان ، چین ، جرمنی اور روس کتنے حساس ہیں کہ انہوں نے ترقی اپنی زبان کی مدد سے حاصل کی ہے۔

ہندوستان کو دیکھئے کہ وہاں اکثریت ہونے کے باوجود صرف ہندی کو قومی زبان نہیں بنایا بلکہ وہاں کی 16 بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ صرف ہندوستان نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں یہی صورتحال ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم قریباً85لاکھ ہے، اس میں چار زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے، ان میں اطالوی ، فرانسیسی ، جرمن اور رومائچ شامل ہیں۔ واضح ہو کہ رومائچ زبان صرف چند ہزار لوگ بولتے ہیں ، یہ ہے زبانوں کا احترام ۔

مگر افسوس کہ پاکستان میں لسانی شاونزم کی بنیاد پر پاکستانی زبانوں کا سر کچلا جا رہا ہے ،آج انٹرنیٹ کا دور ہے لوگ ماں بولی کے عالمی دن کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہمارے حصے میں صرف افسوس آتا ہے۔ آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی،ابھی حال ہی میں پنجاب حکومت کی طرف سے ماں بولی میں تعلیم کا جزوی اعلان ہوا ہے مگر ابھی تک اقدامات سامنے نہیں آئے۔

تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو اصلی تبدیلی لانا ہو گی ، تمام پاکستانی زبانوں ، پاکستانی ثقافتوںاور پاکستان میں بسنے والی قوموں کو احترام دینا ہوگااور ان کی شناخت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ آج بھی پاکستان میں بسنے والی قوموں کی زبان ، ثقافت اور ان کی تہذیبی شناخت کی توہین کی جاتی ہے، آج بھی قوموں کو تہذیبی و ثقافتی حقوق حاصل نہیں۔

ایڈہاک پر بنائی گئی پالیسیاں اور فلسفے ختم کر کے قومی امنگوں اور قومی ضرورتوں کے عین مطابق مستقل پالیسیاں اختیار کی جائیں جس میں پاکستانیت چھلکے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بیان دیا ہے تو کم از کم صوبے کی حد تک ایسی تعلیمی پالیسی بنوائیں، جس سے پاکستانی زبانوں کو ترقی اور فروغ حاصل ہو ۔ زبان ثقافت کا ایک اہم جز ہے، ہر خطے ، ہر قوم کی اپنی ثقافت ہوتی ہے ، پاکستان کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں مختلف بولیاں بولنے والے لوگ رہتے ہیں، انہی بولیوں اور ثقافتوں کو مضبوط بنانے کا مقصد پاکستانیت کو مضبوط بنانا ہے ۔ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟

پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں،یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جہاں تک بولنے والوں کی بات ہے تو بولنے والے تو مجبور ہیں ، ریاست تعلیمی اداروں میں جو زبان رائج کرے گی وہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے،یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوںکو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو لاوارث چھوڑ دیں۔ماں بولی کے عالمی دن کے حوالے سے جو تقریبات ہوئیں ان میں واضح طور پر کہا گیا کہ جو پاکستان کی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے، حکومت پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کیلئے فوری اقدامات کرے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author