اسلام آباد:نور مقدم قتل کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا،اسلام آباد کی مقامی عدالت نےنور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو قتل کے جرم پر سزائے موت،پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی ہے ،جبری زیادتی کے جرم پر پچیس سال قید،دو لاکھ جرمانہ کی سزا بھی سنائی گئی ہے ۔
عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیاہے کہ ملزم ظاہر جعفر جرمانہ مقتولہ کے ورثاء کو ادا کرے،اغواء کے جرم پر ظاہر جعفر کو دس سال قید ایک لاکھ جرمانہ کا حکم دیا گیاہے ، دفعہ 342 کے جرم پر ایک سال قید کی سزا بھی سنائی گئی ہے
شریک ملزم اور مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی رہائش گاہ پر مالی کی ڈیوٹی ادا کرنے والے محمد جان کو دفعہ 109 اور 364 کے تحت دس سال قید،ایک لاکھ جرمانہ کا حکم سنایا گیاہے ۔ملزم کو دفعہ 368 کے تحت دس سال قید ایک لاکھ روپے جرمانہ کا حکم بھی دیا گیا،ملزم کو دفعہ 176 کے تحت ایک سال قید ایک لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
کیس کے دوسرے شریک ملزم افتخارکو دفعہ 109 اور 364 کے تحت دس سال قید،ایک لاکھ جرمانہ کا حکم دیا گیاہے،ملزم کو دفعہ 368 کے تحت دس سال قید ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا، ملزم کو دفعہ 176 کے تحت ایک سال قید ایک لاکھ جرمانہ کا حکم بھی دیا گیاہے۔
کیس کے دیگر شریک ملزمان مجرم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے ساتھ ساتھ تھراپی ورکس کے ملزمان کو بری کردیا گیاہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ٹرائل کے دوران ظاہر جعفر کے وکیل نے اسے ذہنی مفلوج قرار دلوا کر سزا سے بچانے کی کوشش کی،عدالتی حکم پر جیل ہسپتال میں ظاہر جعفر کا میڈیکل ہوا تو وہ ذہنی طور پر تندرست قرار پائے،
تحریری حکم میں کہا گیاہے کہ پراسیکیوشن ظاہر جعفر،افتخار اور جان محمد کے خلاف کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہی، پراسیکیوشن دیگر ملزمان کے خلاف کیس ثابت نہ کر سکی، بری کیا جاتا ہے،
پراسیکیوشن نے ثابت کیا کہ ظاہر جعفر نے اپنے گھر کے کمرے میں تیز دھار چاقو سے نور مقدم کو قتل کیا،ظاہر جعفر نے زبردستی نور مقدم کو اغوا کیا،حبس بےجا میں رکھااور نور مقدم کےساتھ جنسی زیادتی کی۔سائنسی اور فرانزک شواہد نے ثابت کیا کہ نور مقدم کا قتل ظاہر جعفر نے کیا،
تھراپی ورکس کے مالک کا ظاہر جعفر کے والدین کے ساتھ کوئی میسج یا آڈیو پیغام نہیں پیش کیا گیا،ٹھوس شواہد کے بغیر نہیں کہا جا سکتا کہ طاہر ظہور قتل کا علم رکھتے تھے،نور مقدم کی لاش ظاہر جعفر کے کمرے سے برآمد کی گئی تھی۔
عدالت نے لکھا کہ ملزمان کے وکلاء استغاثہ کے شواہد کو جھٹلانے میں ناکام رہے، شواہد نہیں کہ ذاکر اور عصمت بیٹے کے قتل کے ارادے سے واقف تھے،استغاثہ نے ثابت کرنا تھا کہ والدین بیٹے کے ارادے سے واقف تھے،ظاہر جعفر کی والدین سے ہوئی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ یا ٹیکسٹ میسج موجود نہیں،صرف رابطے دکھاتی سی ڈی آر سزا کے لئے ناکافی ہیں
اسلام اباد ہائیکورٹ نے کیس کا ٹرائل مکمل کرنے کے 8 ہفتوں کا وقت دیا تھاجس میں بعد ازاں 6 پھر ایک ہفتے کی توسیع ہوئی ٹرائل کے دوران 19 گواہان کے بیان قلمبند ہوئےنور کے والد نے بھی پرائیویٹ گواہ کے طور پر بیان ریکارڈ کروایا حتمی دلائل مکمل ہونے پر 24 فروری کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی تھی ۔
19جولائی کو سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم کو بے دردی سے قتل کیا گیا پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جائے وقوعہ حراست میں لیا
نور مقدم کے والد کی شکایت پر 302 (قتل) کے تحت (ایف آئی آر) درج کی جس میں ظاہر جعفر اور دیگر کو نامزد کیا گیا تھا
23 جولائی کو پولیس نے بیرون ملک سے مرکزی ملک کا ریکارڈ طلب کیا
24 جولائی کو دوران سماعت کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کو حراست میں لینے کے بعد اس کے پاس سے ایک پستول، چاقو، چھری اور ایک آہنی ہتھیار برآمد کیا ہے مقتولہ پر تشدد بھی کیا گیا ہے عدالت نے مزید تفتیش کے لیے دو روز کا جسمانی منظور کر لیا
25 جولائی کو پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئےاعانت جرم اور شواہد مٹانے کے الزمات میں ظاہر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو گرفتار کیا
26 جولائی کو پولیس نے دعویٰ کیا کہ ظاہر جعفر نے اپنے بیان میں نور مقدم کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے اگلے روز ظاہر کی نشان دہی پر نور کو موبائل فون بھی برامد کیا گیا
30 جولائی کو پولی گراف، دیگر ٹیسٹ کیے گئے
2 اگست کو پولیس کی تفتیش مکمل ہونے پر ظاہر جعفر کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا اسی دوران ظاہر کے والدین نے ضمانت کے لیے اسلام اباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا عدالت نے دلائل سننے کے بعد 5 اگست کو مسترد کردیا
14اگست کو پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کی جس میں ظاہر کا ڈی این اے، فنگر پرنٹس سے قتل میں ملوث ہونا ظاہر ہوا
15 اگست کو تھراپی ورکس کے مالک اور 5 ملازمیں کا بھی گرفتار کرلیا گیا جنہیں ایک ہفتھ بعد ضمانت مل گئی
9 ستمبر کو پولیس نے کیس کا چالان پیش کردیا جس میں نور کی زندگی بچانے کی چھ کوششیں ضائع ہونے کا انکشاف ہوا واقعے کیسی سی ٹی وی فوٹیج فرانزک رپورٹس میں بھی شواہد ظاہر جعفر کے خلاف تھے
14 اکتوبر کو ظاہر جعفر والدین ملازمین سمیت 10 افراد پر فرد جرم عائد کردی گئی ملزمان کے صحت جرم سے انکار کے بعد کیس کے ٹرائل کا اغاز ہو ٹرائل کے دوران بھی ظاہر کے وکلاء کی جانب سے کبھی زہنی حالت کی خرابی میڈیکل ٹیسٹ جیسی کئی درخواستیں دی جاتی رہی جوعدالت سےوقتاً فوقتاً مسترد ہوئیں
ٹرائل کے دوران ملزمان کو سوالنامے فراہم کیے گئے اور دلائل کا سلسلہ بھی جاری رہا فرد جرم کے بعد چاد ماہ ٹرائل چلنے کے بعد اج اس کیس کا فیصلے محفوظ کر لیا گیا ہے
اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج عطا ربانی 24 فروری کو فیصلہ سنائے گئے۔۔
صحافی زاہد گشکوری کی رپورٹ کے مطابق نور مقدم کی زندگی کے آخری 46 گھنٹوں کے دوران جو کچھ ہوا وہ مایوسی, اضطراب, بے بسی اور لاتعلقی کی ایک تکلیف دہ کہانی ظاہر کرتا ہے.
ظاہر جعفر کو 18 جولائی 2021 کو لمبے وقفے کے بعد نور مقدم سے ایک ٹیکسٹ پیغام موصول ہوا.
چار منٹ کے اندر رات نو بجے مبینہ قاتل نے اسے وائس کال کے ساتھ جواب دیا جیسے وہ اس کا انتظار کر رہی ہو.
جیو نیوز نے نور اور ظاہر کے درمیان خصوصی بات چیت کو دیکھا ہے. اس کے علاوہ ان کے گھر والوں کے ساتھ ان کی بات چیت کو بھی دیکھا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جب 20 جولائی 2021 کو جعفر ہاؤس میں دوپہر 2 بجے سے شام 7 بجے کے دوران یہ قتل ہوا تو ان نازک گھنٹوں کے دوران قاتل اپنے گھر والوں کے ساتھ رابطے میں تھا.
اس نازک وقت میں اس نے نور کے والد اور والدہ سے بھی بات چیت کی تھی.
تحقیقات کرنے والوں کے ابتدائی نتائج کے مطابق نور 8 جولائی 2021 کو ظاہر کے گھر کے لئے تقریباً 9 بج کر 5 منٹ پر اپنے گھر سے نکلی.
وہ نیول اینکریج اسلام آباد میں اپنے گھر تھی جب ظاہر نے اسے فون کیا. اس وقت ظاہر علی پلازہ بلیو ایریا اسلام آباد میں تھا.
نور نے ظاہر سے اس کی جگہ پوچھنے کے لئے دو ٹیکسٹ پیغامات بھیجے جس وقت وہ 9 بج کر 45 منٹ پر عباس پلازہ اسلام آباد سے گزر رہی تھی. پھر وہ 15 منٹ میں لگ بھگ رات 10 بجے اسلام آباد کے سیکٹر F. 7 / 4 میں جعفر ہاؤس پہنچ گئی.
19 جولائی کی رات گیارہ بجے کے بعد چیزیں بدتر ہوتی گئیں. پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق نور کے والدین کے پیغامات سے اس کے فون میں ارتعاش پیدا ہونے کے بعد ظاہرکا نور سے جھگڑا ہوا.
نور کے والد شوکت علی مقدم کی جانب سے نصف شب ( 12 : 57 AM) تین پیغامات, جن میں اس کی خیر و عافیت اور جگہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا, بھیجے گئے. نور کی جانب سے ان پیغامات کا کبھی بھی جواب نہیں دیا گیا.
رات ایک بجے کے بعد نور کی والدہ نے پھر سے اسے ٹیکسٹ پیغام بھیجا لیکن پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا. پھر ان کے والد نے پھر سے دو پیغامات بھیجے لیکن نور نے پوری رات اپنے والدین کے پیغامات کے جواب نہیں دیے.
حتیٰ کہ نور سے فون کال اور ایس ایم ایس کے ذریعے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن اسی رات صبح 5 : 48 تک کوئی جواب نہیں ملا.
20 جولائی 2021 کو صبح 10 بجے ظاہر کے گھر سے نور اپنی والدہ کو اپنی زندگی کا آخری وائس پیغام بھیج سکیں.
نور کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ اس ٹیکسٹ پیغام کا متن شیئر نہیں کر سکتیں. اس پیغام کے بعد نور کے لئے اصل پریشانی شروع ہوئی جب ظاہر نے اس کا فون چھین لیا اور اس کی والدہ کو صبح 10 بج کر 56 منٹ پر تین مرتبہ کال کی.
ظاہر نے نور کی والدہ سے تقریباً 20 منٹ تک اپنے فون سے گفتگو کی اور کہتا رہا کہ نور اس کے گھر نہیں.
20 جولائی کو صبح 11 سے شام ساڑھے سات بجے تک نور کو قید کر دیا گیا. اس پر بہیمانہ تشدد کیا گیا اور سر تن سے جدا کر دیا گیا.
یہی وہ وقت تھا جب ظاہر اپنی والدہ سے مسلسل رابطے میں تھا. نور کے قتل سے قبل اور اس کے قتل کے بعد ظاہر نے اپنی والدہ عصمت جعفر سے 71.56 منٹ تک بات کی.
جیو نیوز کو حاصل خصوصی تفصیلات کے مطابق مبینہ قاتل نے اپنی والدہ سے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ, پھر 3 بج کر 3 منٹ اور پھر 4 بج کر 17 منٹ پر بات کی. یہ رابطہ جاری رہا. دریں اثناء وہ نور پر تشدد کرتا رہا.
رپورٹ: زاہد گشکوری. بشکریہ روز نامہ جنگ
خیال رہے کہ بقرعید سے ایک دن قبل اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف سیون میں بیہیمانہ طور پر قتل کی جانے والی نور مقدم کے قتل کے شبہ میں گرفتار ملزم ظاہر جعفر سے پولیس تفتیش جاری ہے۔
پیر کو مقامی عدالت نے ملزم کے ریمانڈ میں دو روز کی مزید توسیع کر دی ہے، جبکہ پولیس نے مقدمے میں اعانت جرم، جرم چھپانے اور شواہد پر پردہ ڈالنے جیسی مزید دفعات بھی شامل کر لی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق ملزم ظاہر جعفر کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے تاکہ ضمانت کی صورت میں بھی وہ ملک سے باہر سفر نہ کر سکیں۔
ملزم کے والد اور معروف کاروباری شخصیت ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی بھی اس وقت دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں جنہیں منگل کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس کیس کو ملک میں عورتوں کے عدم تحفظ کے حوالے سے ایک مثال کے طور دیکھا جا رہا ہے۔ اب تک اس کیس میں کب کب کیا پیش رفت ہوئی؟
مقتولہ کی 13 سال سے دوست اور خاندان کی ترجمان عائلہ حسین نے میڈیا کو کو بتایا کہ 19 جولائی کی شام نور مقدم کے والدین گھر سے باہر کسی کام سے گئے تو واپسی پر اپنی بیٹی کو گھر میں نہیں پایا۔ بیٹی کو متعدد بار کالز کیں مگر جواب نہیں ملا جس کے بعد انہوں نے عائلہ سمیت بیٹی کی دوستوں سے رابطے کیے اور اس کی تلاش شروع کر دی۔ نور مقدم پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی تھیں۔
نور کے کلاس فیلوز اور دوستوں کے ایک گروپ نے ہر جگہ تلاش کے بعد اسی رات ملزم ظاہر جعفر کے گھر کا رخ بھی کیا، کیونکہ ظاہر جعفر اور نور کے مشترکہ دوستوں کو معلوم تھا کہ دونوں کے درمیان کئی سال سے خاندانی دوستی تھی اور دونوں کی شادی تک زیربحث آئی تھی، مگر اس سال رمضان میں نور نے ملزم کو بتا دیا تھا کہ وہ اس سے شادی نہیں کر سکتی۔
عائلہ کے مطابق مشترکہ دوستوں کا ملزم ظاہر جعفر کے گھر آنا جانا رہتا تھا کیوں کہ اس کے گھر میں گارڈز اور گھریلو ملازمین کی وجہ سے دروازے اکثر کھلے رہتے تھے۔ تاہم اس روز ملزم نے آنے والے مشترکہ دوستوں کو گھر کے ٹیرس سے ہی کہا کہ نور اس کے پاس نہیں اور اس وقت وہ انہیں اندر نہیں بلا سکتا۔
دوسری طرف والدین تلاش جاری رکھے ہوئے تھے کہ انہیں نور کی طرف سے کال آئی کہ وہ لاہور ایک اجتماع کے سلسلے میں گئی ہوئی ہیں اور فون پر مزید رابطہ نہیں کر سکتی۔ عائلہ کے مطابق ہو سکتا ہے نور کو ملزم نے یرغمال بنا کر اس سے زبردستی یہ کہلوایا ہو۔
دوروز قبل بھی سابق سفارتکار کی بیٹی نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے والدین اور 2سیکیورٹی گارڈزکو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا،عدالت نے پولیس کی درخواست پر ملزمان کو 2روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ ملزمان سے قتل کی تفتیش اور موبائل فون برآمد کرنا ہیں ، ریمانڈ دیا جائے،۔
پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ لڑکی نے جان بچانے کےلیےروشن دان سے باہر چھلانگ لگائی،ملازمین نے ملزم کی طرف سے مقتولہ کو کھینچ کر اندر لے جاتے دیکھا۔ ملازمین اگر پولیس کو بروقت اطلاع دیتے تو قتل روکا جا سکتا تھا۔
، پولیس کی طرف سے دعوی کیا گیا کہ ہمسائے نے پولیس کو اطلاع دی اور تین منٹ میں پولیس پہنچی ۔
اس موقع پر وکیل صفائی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ اورچاہتے ہیں کہ انصاف ہو، ملزم کو سخت سزا ہو۔
دوران سماعت ملزم ظاہر جعفر کے والد نے یس کہہ کر اپنے وکیل کے موقف کی تائید کی ۔
وکیل نے الزام عائد کیا کہ ان کے موکل ضمانت پر ہیں اس کے باوجود پولیس نے حراست میں لیا،پولیس کے خلاف توہین عدالت کا کیس اور ایف آئی آر درج کرائیں گے۔
ملزم کے والدین نے عدالت میں کہا کہ وہ ملزم ظاہر جعفر کو کبھی بھی سپورٹ نہیں کررہے۔ ہمیں پتا لگا کہ گھر میں شور شرابا ہو رہا ہے تو والدین نے ری ہیبلیٹیشن والوں کو کہا دیکھیں جا کر، ہمیں بعد میں پتا لگا کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے۔ میرے موکل خود کراچی سے اسلام آباد آئے، خود پولیس اسٹیشن پہنچے۔
نور مقدم کے والد کے وکیل نے کہا ایک عدالتی نظام ہے جس کو فالو نہیں کیا گیا۔ہماری عدالت سے استدعا ہے کہ ملزم کے والدین کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے ۔
اس موقع پر وکیل صفائی نے کہا کہ ساتھی وکیل اگر ملزم کو پروٹیکٹ نہیں کر رہے تو ملزم کے والدین کو حراست میں تفتیش کے لئے رہنے دیں ۔ عدالت نے فریقی کے وکلا اور پولیس کا موقف سُننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ دیر بعد 2روزہ جسمانی ریمانڈ کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت دو روز کے لئے ملتوی کردی۔
منگل کی شب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل میں ایف آئی آر کا اندراج ہو گیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم ظاہر جعفر کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی لے لیا گیا ہے جس میں اب معاملے کی مزید تفتیش کی جائے گی۔
تھانہ کوہسار پولیس نے والد شوکت علی مقدم کی مدعیت میں قتل کی دفعہ 302کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق شوکت مقدم نے کہا کہ ’جولائی 19کو نور مقدم میری اور اہلیہ کی غیر موجودگی میں گھر سے نکلی۔ بیٹی کو فون ملایا تو نمبر بند تھا بعد ازاں نورکے دوستوں سے رابطہ کیا۔ کچھ دیر بعد نور کا ٹیلی فون آیا کہ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں۔ نور نے ایک دو دن میں واپس آنے کا کہا۔‘
شوکت مقدم نے مزید لکھا کہ ’منگل دوپہر کو ظاہر جعفر جو معروف بزنس مین ذاکر جعفر کا بیٹا ہے، اس کا فون آیا کہ نور اس کے ساتھ نہیں ہے۔ ذاکر جعفر کی فیملی کے ساتھ ہماری جان پہچان ہے۔‘
’رات کو تھانہ کوہسار سے کال آئی کہ نور مقدم کا قتل ہو گیا ہے۔ پولیس سٹیشن پہنچا تو وہ ایف سیون فور میں واقع گھر پر مجھے لے گئے، وہاں جا کر دیکھا تو میری بیٹی کا گلا کٹا ہوا تھا۔‘ انہوں نے مزید لکھا کہ ’تیز دھار آلے سے سر کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا گیا تھا اور دھڑ کے قریب سر رکھا ہوا تھا۔ بیٹی کی لاش کو شناخت کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میری بیٹی کو ناحق قتل کیا گیا ہے ظاہر جعفر کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ‘
شوکت علی مقدم 2012 میں جنوبی کوریا اور 2014 میں قزاقستان میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ’گھر کے ملازمین نے نور مقدم کی چیخیں سُنیں جن کے بعد وقوعہ پیش آیا۔ گھر کے ایک ملازم ہی نے پولیس کو فون کر کے بتایا کہ یہاں ایمرجنسی ہے۔ پولیس جب موقع پر پہنچی تو قتل ہو چکا تھا اور ملزم مقتولہ کے خون میں لت پت تھا۔ پولیس نے جب ملزم کو حراست میں لینے کی کوشش کی تو اُس نے پولیس اہلکار پر حملہ بھی کیا جس کے بعد اس کو باندھ کر حراست میں لیا گیا۔‘
ظاہر جعفر، احمد جعفر کمپنی لمیٹڈ میں چیف برینڈ سٹریٹجسٹ ہیں اور خاندانی بزنس سنبھالے ہوئے ہیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق دونوں بچپن کے دوست تھے۔ اور قتل کی رات نور مقدم ملزم ظاہر جعفر کی رہائش گاہ موجود تھیں جہاں واقعہ پیش آیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر