رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب کے مہان شاعر رفعت عباس کہتے ہیں ’رب ہک تریمت اے‘ ، مجھ جیسے کم علم کی دانست میں برصغیر کے شاید ہی کسی شاعر نے اپنی شاعری میں یہ اہم نکتہ اٹھایا ہو گا، بلاشبہ مغرب میں یہ نکتہ کئی دہائیاں قبل موضوع بحث بن چکا تھا کہ مذہبی کتابوں اور مذہب کی تشریح بیان کرنے والی کتابوں میں گوڈ کے لئے مذکر کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا ہے جبکہ مونث کا صیغہ کیوں استعمال نہیں کیا گیا۔ تاہم لبرل ازم کے داعی مغرب کے کسی ادیب یا شاعر نے کبھی سامنے آ کے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خدا ایک عورت بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ہماری اس دنیا میں بھی تخلیق کار مرد نہیں بلکہ عورت ہی ہے۔
سائیں رفعت عباس نے 2002 میں اپنی شاعری کی کتاب ”پروبھرے ہک شہر اچوں“ میں یہ خیال پیش کیا، دراصل ’خدا ایک عورت ہے‘ ۔ بلاشبہ اگر انہوں نے ضیا الحق کے دور میں یہ خیال پیش کیا ہوتا تو نہ صرف ان کی کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی بلکہ وہ خود بھی پابند سلاسل ہوچکے ہوتے۔ رفعت عباس کا اپنے اس خیال کے پیچھے ڈسکورس یہی ہے کہ کائنات، کائنات کے مظاہر، انسانی معاشرہ، انسانی رشتوں، انسانی رویئوں، معاشرے میں فرد کے کردار، کائنات کے ارتقا، معاشرے کے ارتقا کی تفہیم ہم مردوں نے ہی کی ہے اور مردوں نے کافی حد تک اس میں ڈنڈی بھی ماری ہے۔ اپنے اس ڈسکورس کو واضح کرنے کے لئے رفعت عباس کہتے ہیں۔
سسی دا وی قصہ اساں مردیں لکھیے رفعت!
نندروں ڈوہی کر تے اونکوں تھلیں رول ڈتوسے
(ترجمہ: محبت کی لازوال داستان ’سسی پنوں‘ بھی ہم مردوں نے بیان کی ہے اور اس میں ہم نے سسی کو معتوب ٹھہرایا کہ سسی اونگھ کا استعارہ ہے، کیونکہ سہاگ رات کو سسی کو نیند آ گئی تھی اور پنوں کے بھائی راتوں رات اسے لے کر کیچ کی جانب چلتے بنے تھے )
بلاشبہ اگر سسی پنوں کی داستان کسی عورت نے بیان کی ہوتی تو ہو سکتا ہے کہانی کے کئی اوجھل گوشے بھی کھل کر واضح ہو جاتے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم مرد (آج) عورت کی اپنی مرضی سے جینے کی خواہش کو شاید برداشت نہیں کر پا رہے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ جیسے نعرے پہ اتنا سیخ پا ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر سال 8 مارچ کو ’عورتوں کا عالمی دن‘ منانے کا سلسلہ کم ازکم پاکستان میں کسی حیلے بہانے منقطع ہو جائے یا پھر 8 مارچ کو عورت مارچ پر پابندی ہی لگ جائے۔
نئے پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ اس مرتبہ 8 مارچ کو عورت مارچ پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ اس میں جو نعرے لگائے جاتے ہیں ان سے اسلامی طرز معاشرت کو خطرہ لاحق ہے، جبکہ اس کی بجائے 8 مارچ کو ’یوم حجاب‘ منایا جائے۔
سائیں رفعت عباس کا ڈسکورس نئے پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور نے بلاشبہ درست ثابت کر دکھلایا ہے کہ عورت کے لئے حجاب کو حیا کی علامت بتانے والے ہم مرد ہیں جبکہ نہ صرف حجاب کو حیا کی علامت بلکہ حیا کی تفہیم کرنے والے بھی ہم مرد ہی ہیں۔ ہمیں تو یہ سوچ کر ہول آنے لگتے اگر عورتیں حیا کی تفہیم بیان کرنے لگ گئیں تو کہیں وہ حیا کی لگام مردوں کے گلے میں نہ ڈال دیں اور وہ بھی جہنم کی آگ میں تپائی ہوئی لوہے کی لگام۔ کیونکہ ہم عادی ہوچکے ہیں ”تمھارا جسم میری مرضی“ کے، اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ اسی طرح چلتی رہے بلکہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ہمیشہ اسی طرح چلتی رہے گی۔
دراصل یہی ہماری خام خیالی ہے کہ دنیا ہمیشہ اسی طرح چلتی رہے گی، کیونکہ ہم ارتقا بھی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی مہربان کا فیسبک پر کیا گیا تبصرہ یاد آ رہا ہے جو نئے پاکستان کے وزیر مذہبی امور کی کھلبلی کے اوپر موافق آتا ہے، ”پہلے مولوی کہتے تھے لاؤڈ سپیکر میں شیطان بولتا ہے تو ہم نہیں مانتے تھے، اب ہم کہتے ہیں تو مولوی نہیں مانتے“ ۔
مگر شیطان بھی ہمارا ہم جنس ہی ہے، کیونکہ ہم نے دشمن بھی اپنا ہم جنس ہی چنا ہے اور ہمارا حمٰن بھی ہمارا ہم جنس ہے، جنت بھی مردوں کے لئے ہے اور دوزخ بھی، عورتوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑی۔
یہی وجہ ہے کہ رفعت عباس ایک اور شعر میں کہتے ہیں۔
ہے کوئی اینجھی چوکی رفعت، ہے کوئی اینجھا تھانڑاں
ہیر سیال دے قتل اتے ونج پرچہ درج کریجے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر