مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عورت مارچ پر پابندی کی تجویز||ظہور دھریجہ

پاکستان میں خواتین کے حجاب کا دن منانے پر کسی نے پابندی نہیں لگائی، آپ نہتی عورتوں کے مارچ پر پابندی لگا کر کیا ثابت کریں گے؟ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی کے رہنمائوں مولانا عبدالمجید ہزاروی اور مولانا عبدالغفور حیدری نے دھمکی دی ہے کہ عورت مارچ کو طاقت سے روکیں گے ۔

ظہور دھریجہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے خط کے ذریعے وزیراعظم کو تجویز دی ہے کہ8 مارچ یوم خواتین کے موقع پر ہونے والے عورت مارچ پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس دن کو یوم حجاب کے طور پر منایا جائے۔8مارچ خواتین کا عالمی دن ہے اور پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اسے حجاب کے مسئلے سے نہیں جوڑنا چاہئے، جس طرح انڈیا میں ہندو انتہاء پسندوں کی طرف سے مسلم طالبہ مسکان کے حجاب پر اعتراض غلط تھا تو عالمی یومِ خواتین پر بھی اعتراضات غلط ہیں، پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور کا خط حیران کن ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حجاب کا دن منانے پر کسی نے پابندی نہیں لگائی، آپ نہتی عورتوں کے مارچ پر پابندی لگا کر کیا ثابت کریں گے؟ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی کے رہنمائوں مولانا عبدالمجید ہزاروی اور مولانا عبدالغفور حیدری نے دھمکی دی ہے کہ عورت مارچ کو طاقت سے روکیں گے ۔ ہمارے دین اسلام نے عورتوں کے حقوق کے بارے میں واضح احکامات دئیے ہیں ، اصل مسئلہ عملدرآمد کا ہے، اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ عورت کو جہیز نہیں وراثت میں حصہ چاہئے۔ انتہاء پسندی کسی بھی مذہب کی طرف سے ہو غلط ہے، ہندو مذہبی طورپر مسلمانوں پر طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں ،گائو ماتا کے حوالے سے بھی ان کے مذہبی اعتراض سامنے آتے ہیں تو جب ایک مسلم خاتون طالبہ اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہے تو ہندو انتہاپسندوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اس پر اعتراض کریں۔
دوسرے افسوسناک پہلو کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ خواتین کے حقوق کی تحریک کو مردوں سے زیادہ نقصان اُن چند ایک خواتین نے پہنچایا ہے جنہوں نے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگایا۔ ہر چیز کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بے حیائی کو عام کرے اور ساتھ ہی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہے کہ ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘۔اس نعرے سے کسی اور کو نہیں بلکہ خواتین کے حقوق کی تاریخ کو نقصان ہوا ہے ۔ مشرقی اور مغربی معاشرے کا فرق ہے ۔ مغرب کی اپنی تہذیب ہے مشرق کی اپنی ۔ مغرب میں بے حیائی ہے ، مشرق میں حیاء ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری اپنی اقدار ہیں، جو خواتین مغرب کی نقل کرتی ہیں دراصل وہ خود مسئلہ ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایک سروے کے مطابق2021ئمیں خواتین پر تشدد کے واقعات میں خوفناک اضافہ ہوا اور معاشی مسائل نے مسئلے کو اور گھمبیر بنادیا ہے۔
خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں پر بھی جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی بہتر اقدام سامنے نہیں آیا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں میل شاؤنزم ہے۔ یورپ نے بہت حد تک عورت کو جزوی احترام دیدیا ہے لیکن ترقی پذیر دنیا میں آج بھی عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی عورت صنفی امتیاز کا شکار ہے۔ کالا کالی کے ہر آئے روز واقعات ہوتے ہیں۔کالا کالی کے نام پر عورت کو قتل کیا جاتا ہے ۔ امتیاز کی کوئی بھی شکل ہو نا پسندیدہ کہلائے گی ۔ خواتین سے صنفی امتیاز اس بناء پر بھی بدتر ہے کہ عورت ماں ، بہن ، بیٹی ہر روپ میں عظیم تر ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ مکروہ رسم ختم ہونی چاہئے کہ کالا کالی رسم یا قانون کی ابتدا آج سے نہیں صدیوں پہلے بلوچستان سے ہوئی تھی ۔
بلوچ ’’ جرگے ‘‘ میں اس رسم کو باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل ہے۔ سرائیکی خطے اور سندھ میں اس رسم کو قانونی حیثیت تو حاصل نہیں پر کسی نہ کسی شکل میں اس رسم کا وجود باقی ہے۔ دین اسلام، آئین پاکستان اور دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں اس سزا کا وجود نہیں ۔اسلام میں کالا کالی کو سنگسار کرنے کا حکم موجود ہے پر اس سزا کے نفاذکیلئے بھی شادی شدہ ، غیر شادی شدہ ، شک کی بجائے یقین جیسی شقیں موجود ہیں مگر ہمارے علاقے میں اس رسم کو انتہائی بھیانک اور غیر انسانی رویے کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات جھوٹے الزامات لگا کر مرد و خواتین کو بیدردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نا حق قتل بہت بڑا جرم ہے اور اسلام میں بھی بد کاری کی سزا سنگساری ہے اور اس بد کاری کے ثبوت کیلئے جو معیار مقرر کیا گیا ہے بہت سخت ہے۔ سخت معیار کا مطلب بھی یہی ہے کہ نا حق کسی کو سزا نہ ملے ۔ غیرت کے نام پرکسی بے گناہ کا قتل قابلِ شرم اور نا قابلِ معافی جرم ہے۔
اب اس روش کو ختم ہونا چاہئے ۔ پاکستان کہنے کو صنفی امتیاز کے بغیر ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہیں مگر عملی طور پر عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔ جنات کے حوالے سے جعلی اور ڈبہ پیروں کے قصے کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ جعلی پیروں نے بہت دوکانداری کر لی ہے ، ذاتی اغراض و ہوس زر کے لئے اس نے انسانیت پر بہت ظلم کئے۔ وسیب میں اس طرح کے واقعات کے خاتمے کیلئے تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ وہ غربت اور جہالت کی قید سے آزاد ہو سکیں ۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: