وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی حکومت کو اب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بھی بھرپور حمایت و تعاون حاصل رہا ہے اور حزبِ اختلاف نے بھی کبھی بائیکاٹ کر کے تو کبھی غائب رہ کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مسودے منظور کرانے کے سلسلے میں ہمیشہ بھرپور تعاون کیا اور کبھی پی ٹی آئی کو قوانین کی پارلیمانی منظوری کے دوران شکست کا داغ نہیں لگنے دیا۔
چنانچہ اس غیر معمولی و مثالی ساجھے داری کے سبب پی ٹی آئی حکومت نے ایک ہی دن میں 30 سے زائد قوانین بھی قومی اسمبلی سے پاس کروائے اور پھر یہی قوانین سینیٹ سے بھی منظور کروائے جہاں اس کی اکثریت بھی نہیں۔
اس قدر سازگار فضا کے باوجود پی ٹی آئی حکومت جب سے منڈھے چڑھی ہے تب سے ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہے۔
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
نا جانے کون کہاں راستہ بدل جائے (عبید اللہ علیم)
اس خوف کے سبب اتنی وفادار پارلیمنٹ کے ہوتے بھی پی ٹی آئی حکومت اب تک کے ساڑھے تین سالہ دور میں 70 سے زائد صدارتی آرڈیننس جاری کروا چکی ہے اور ابھی اس کی مدتِ اقتدار کا ڈیڑھ برس باقی ہے (اگر سب ٹھیک رہا)۔
پی ٹی آئی شاید خود کو لاشعوری محاصرے میں مورچہ بند پاتی ہے اور یہ آرڈیننس اسے مورچے کے اردگرد حصار باندھنے والی ریت کی بوریاں محسوس ہوتے ہوئے وقتی سکون فراہم کرتے ہیں۔
اس کے سپاہی فرضی و حقیقی دشمن کی ہر اصلی و تصوراتی گولی کا جواب برسٹ مار کے دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر کمینہ دشمن ہے کہ نہ مرتا ہے نہ دفعان ہوتا ہے۔
اس حصاری ذہنیت کے سبب بنیادی مسائل کماحقہ توجہ سے مسلسل محروم ہیں اور ان کا حل عارضی اقتصادی پین کلرز اور براہِ راست و بالواسطہ ٹیکسوں میں مسلسل اضافے میں ڈھونڈا جاتا ہے۔
مگر معیشت وہ حرافہ ہے جو حکومت کو کمر پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دے رہی اور اپنے ساتھ سرکار کو بھی تگنی نچا رہی ہے۔
یہ شاید یوں ہے کہ جب کوئی جماعت سیاسی بلوغت کے اعتبار سے پچھلے ساڑھے سات برس سے کنٹینر پر چڑھی ہو اور اس کی پوری سوچ، حکمتِ عملی اور توانائی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسے موزی دشمنوں کے ارد گرد 24 گھنٹے تانڈو ناچ اور سنگ باری نے چوس لی ہو تو پھر یہ بھی تمیز نہیں رہ پاتی کہ آپ حزبِ اختلاف میں ہیں یا اب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں۔
اقتدار کی کرسی پر جمے رہنے کے باوجود سوچ حزبِ اختلافی ہی رہے تو وہی ہوتا ہے جو نظر آ رہا ہے۔
چنانچہ بس کس پر چلے؟ بس سب سے کمزور ستون پر ہی چل سکتا ہے اور وہ ہے میڈیا اور سوشل میڈیا۔ حالانکہ دونوں کو جانے کتنی بار خبردار کیا جا چکا ہے کہ جس طرح تشدد صرف ریاستی اداروں کی ملکیت ہے اسی طرح کھلی کھلی زبان پر بھی صرف سرکارِ ذی وقار کی مونوپلی ہے۔
جس طرح تشدد کے بارے میں حقِ ریاست کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح بدتمیزی کے معاملے میں سرکار کی رٹ کوئی مائی کا لال چیلنج نہیں کر سکتا۔
یہ اصول منوانے کے لئے تازہ ترین اقدام یہ کیا گیا ہے کہ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سائبر کرائم ایکٹ میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر کسی بھی شخص ( یہاں مراد ہے کابینہ و حکمران پارٹی کے عہدیدار) کی پگڑی اچھالنے یا طنز کا نشانہ بنانے کو قابلِ تعزیر جرم سمجھا جائے گا۔
اس کی سزا دو برس سے بڑھ کر پانچ برس تک ہو جائے گی اور عدالت کو لازماً چھ ماہ کے اندر اس مقدمے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ (حالانکہ عدالتی نظام پہلے ہی ایک ملین سے زائد زیرِ تصفیہ مقدمات کے بوجھ تلے سسک رہا ہے)۔
پاکستان میں ذاتی ہتکِ عزت، حکومتی اداروں اور حساس شخصیات کی توہین کے سلسلے میں کئی پرانے اور نئے قوانین موجود ہیں اور ان کے تحت مقدمات اور دعوی بھی دائر ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا اور سوشل میڈیا کو لگام دینے کے لئے ادارے اور قوانین بھی نافذ ہیں۔
ان سب کے اوپر ایک اور ترمیمی قانون لے آنا ایسے ہی ہے گویا ایک دروازہ جس پر پانچ تالے پہلے سے پڑے ہوں اس پر چھٹا تالا بھی منڈھ دیا جائے۔ اس سے دروازے کی سیکیورٹی میں تو زیرو اضافہ ہوگا مگر آپ کا احساسِ عدم تحفظ مزید کھل کے سامنے آ جائے گا۔
پر کیا کریں؟ کئی برس پہلے میں انڈین الیکشن کی رپورٹنگ کرنے گیا۔ دلی سے باہر ہریانہ جانے والی ہائی وے پر کالا دھواں چھوڑتی آڑی آڑی چلنے والی ایک لاری کے پچھلے بمپر پر ہندی میں لکھا تھا ’یو تو نوئی چلے گی‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر