نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عدم اعتماد ،مفادات اور انا کا کھیل||شاہد رند

اس سے عام آدمی اور ملک کا کوئی مفاد وابستہ نظر نہیں آ رہا۔ اپوزیشن این آر او کی تلاش میں ہے جبکہ حکومت اس اپوزیشن کو دیوار میں چنا ہوا دیکھنا چاہتی ہے ۔

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے منڈی بہائوالدین میں جس انداز سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا انکی تقریر کی باڈی لینگویج سے لگ رہا تھا کہ وہ اپوزیشن میں جانے اور اپوزیشن کے رول کی تیاری کیلئے نیٹ پریکٹس کررہے ہیں جہاں وہ چھوٹے رن اپ سے کچھ شارٹ آف لینتھ بائولنگ کرکے اپوزیشن کو بتا رہے ہوں کہ وہ اب بھی بائونسر مار سکتے ہیں اور نہ صرف بائونسر مار سکتے ہیں بلکہ یارکر مار کر وکٹیں اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ تو تیاری ہے بانوے کے کپتان کی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بانوئے کی ٹیم کی کامیابی کیلئے اس ٹیم میں کپتان کی قیادت میں بائولنگ میں وسیم اکرم عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے اسٹارز موجود تھے تو بیٹنگ لائن میں جاوید میاںداد کیساتھ اسوقت کے ہارڈ ہٹر انضمام الحق اور معین خان موجود تھے جسکی وجہ سے تقریباًٹورنامنٹ سے باہر ہونے سے قبل ٹیم نے نہ صرف کم بیک کیا بلکہ عالمی چمپئن بھی بنی اب عمران خان کے سیاسی اننگز کی حالت ساڑھے تین سال بعد کی صورتحال نیوزی لینٖڈ کے با نوے کے میچ سے مماثلت اختیار کرگئی ہے جہاں کامیابی کوارٹرز فائنل کے رسائی کیلئے ناگزیر تھی اب کم بیک کرنے کیلئے اگر کپتان سمجھتے ہیں مراد سعید کیساتھ سیاسی میچ میں کم بیک کرینگے تو ذرا مشکل لگتا ہے کیونکہ مراد سعید کی لائن لینتھ کو بگاڑنے کیلئے اپوزیشن کے پاس ایک شاہد آفریدی عبدالقادر پٹیل کی صورت میں موجود ہے کرکٹ میں جہاں بانوے میں کپتان کے پاس تجربہ تھا وہیں انکے جارحانہ مزاج اور فائٹنگ کپتان ہونے کا کوئی ثانی نہیں تھا وہیں اب سیاسی میدان میں ان سے زیادہ تجربہ انکی اپوزیشن کے پاس موجود ہے لیکن اس تجربے کار اپوزیشن کو ساڑھے تین سال تک کپتان اپنے بائونسرز اور یارکرز سے ڈھیر کرتا رہا ہے لیکن تن تنہا لمبے اسپیل کروانا اب کپتان کیلئے ممکن نہیں اور ٹیم میں کوئی ایسا میچ ونر نظر نہیں آتا جو انضمام الحق یا وسیم اکرم کی یاد تازہ کردے اسی تھکان کو دیکھ کر سیاسی مفاہمت کے بادشاہ آ صف علی زرداری کے ماڈل ٹائون کے دورے کے بعد ایک بار پھر اپوزیشن نے صف بندی شروع کی آصف علی زرداری سے ناراض پی ڈی ایم نے بھی پارلیمنٹ سے استعفوں پر چپ سادھ لی اور اب ایک بار پھر عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کی باتیں ہورہی ہیں اپوزیشن نے عدم اعتماد کے معاملے پر اتفاق کرلیا ہے لیکن اسکے لئے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی اسکی ممکنہ وجوحات دو ہوسکتی ہیں کہ ابھی نمبر گیم پورا نہیں ہوا صرف آپس میں اتفاق رائے ہوا ہے نمبر گیم کو پورا کرنے کیلئے اب دوسرے مرحلے میں کام شروع ہوگا دوسری وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن ماضی کی چئیرمین سینیٹ کی عدم اعتماد کے تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے فی الحال کارڈ شو کرنے کو تیار نہیں ہے ان دونوں صورتوں میں اپوزیشن نے جو بھی کرنا ہے اس میں دو باتیں اہم ہیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو لگتا ہے کہ اگر مارچ میں اس حکومت کو مارچ نہ کروایا گیا تو اپریل کے بعد سڑکوں پر آکر وزیر اعظم عمران خان پر دبائو تو بڑھایا جاسکتا ہے انکی لائن اور لاینتھ لینتھ بگاڑ کر تباہ حال بائولنگ لائن پر دھواں دھار بیٹنگ تو کر سکتی ہے لیکن یہ میچ ڈرا ہی ہونا ہے یہ طے ہے لیکن اس سیریز کو ڈرا کرنے کیلئے اپوزیشن کو عدم اعتماد کامیاب بنانی ہوگی کیونکہ چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کو ناکام بنا سیریز میں حکومتی اتحاد کو برتری حاصل ہے اور جن فیصلوں پر عمل در آمد وزیر اعظم نے کرنا ہے بجٹ کے بعد کرنا ہے۔ ا ن فیصلوں سے آئینی و قانونی طور پروزیر اعظم کو روکنا ممکن نہیں ہے اب ان فیصلوں سے وزیر اعظم کو روکنے کا آئینی و قانونی راستہ عدم اعتماد کی تحریک ہے اپوزیشن کا ہدف مائنس ون ہے یا مائنس گورنمنٹ ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے مائنس ون کی صورت میں اپوزیشن اگر حکومت نہیں بناتی اور موجودہ اتحاد میں کسی کو حکومت بنانے کا راستہ فراہم کرتی ہے تو اس بات پر مہر ثبت ہوگی کہ بجٹ اور اسکے بعد کے فیصلے وزیر اعظم عمران خان کو کرنے سے روکنا ہی اپوزیشن کا ہدف تھا اب اس سے آگے نظام کیسے چلے گا ملک میں بہتری کیسے لانی ہے اپوزیشن کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن اگر اسکے برعکس چاہے پارلیمان کامیاب عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں اگر اپوزیشن جماعتوں کی حکومت دیکھتی ہے تو ممکن ہے یہ مائنس ون بھی ہوسکتی ہے یا کم از کم مائنس پاکستان تحریک انصاف بھی ہوسکتی ہے، جو امور موضوع بحث ہیں ان میں ایسا گمان ہوتا ہے کہ زرداری صاحب کے ذہن میں دو ہزار آٹھ کا فارمولہ موجود ہے وہ اسکی فوٹو کاپی نکال کر چلنا چاہتے ہیں جس میں ن لیگ پنجاب کا ہولڈ رکھتی نظر آتی ہے اور کھیل کے آخری رائونڈ میں ن لیگ چئیرمین سینیٹ کی متمنی ہوسکتی ہے اور مولانا فضل الرحمان ایسے میں کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر ایک گھر پر نظر رکھے بیٹھے ہیں بیٹے کو اسپیکر بنانے کی امیدلگائی ہے زرداری صاحب اور انکی ٹیم مرکز اور سندھ کا کنٹرول سنبھالنا چاہتی ہے بلوچستان اور خیبر پختونخواکے ہمارے قوم پرست ڈپٹی اسپیکر اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سمیت چند وفاقی وزارتیں تاڑ کر بیٹھے ہیں ان سب خیالات اور موضوعات کو حتمی جامہ پہنانے کیلئے اپوزیشن کو دس ووٹ کا انتظام کرنا ہے اپوزیشن پر امید ہے کہ ایمپائر کپتان کو کوئی مدد نہیں کرینگے اور وہ اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنا لیگی کچھ ایسا ہی اپوزیشن نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے وقت بھی سوچا تھا لیکن آخری اوورز میں اپوزیشن چودہ رنز اسکور کرنے میں ناکام رہی اب تجربے کے بعد اپوزیشن اب ایک بار پھر امید اور کنفیوژن کے مخمصے میں سپر اوور کے سامنے کی تیاری کررہی ہے اگر اپوزیشن کامیاب ہوئی تو یہ پہلی عدم اعتماد کی کامیاب تحریک ہوگی لیکن اگر اپوزیشن ناکام بھی ہوئی تو پھر بھی اپوزیشن کو اتنا نقصان نہیں ہوگا کیونکہ پھر اپوزیشن اگلے انتخابات کیلئے میدان گرمائیگی اور بڑھتی مہنگائی اور گرتی معیشت کپتان کیلئے وہ چیلنج ہونگے جن سے نمٹنے کیلئے کپتان کے پاس فی الحال کوئی میچ ونر موجود نہیں ہے۔ یہ یاد رکھیں کرکٹ اور سیاست میں فرق ہوتا ہے۔ کسی کا عوام کے مسائل کی طرف دھیان نہیں ۔ فروری کا مارچ ہو یا مارچ میں ہونے والا مارچ ہو یا عدم اعتماد کی تحریک اور اسکے نتائج یا پھر کپتان کی جانب سے اپوزیشن پر برسائے جانے والے بائونسرز یا یارکرز ، اس سے عام آدمی اور ملک کا کوئی مفاد وابستہ نظر نہیں آ رہا۔ اپوزیشن این آر او کی تلاش میں ہے جبکہ حکومت اس اپوزیشن کو دیوار میں چنا ہوا دیکھنا چاہتی ہے ۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ 92 نیوز

About The Author